Friday, December 25, 2020
انتظار ۔نفیسہ خان
Tuesday, December 22, 2020
تہی دامن ۔Tahi Daaman
Tuesday, December 8, 2020
Taboot By Nafeesa Khan..تابوت از نفیسہ خان
تابوت
نفیسہ خان
میں لوٹنے کے
ارادے سے جارہا ہوں مگر
سفر۔ سفر ہے۔ میرا انتظار مت کرنا
اکرام شروع ہی سے ایک سنجیدہ مزاج
ذہین طالب علم تھا جس کا سارا وقت کتابوں کے ساتھ پڑھائی میں گزرجاتا، انجینئرنگ ڈپلوما
کرنے کے ساتھ ہی اسے ایک کمپنی میں اچھی نوکری مل گئی۔ چار سال تک وہ بڑی محنت سے اپنا
کام کرتا رہا، کمپنی میں آفیسرس اوروہ خود اپنے کام سے پوری طرح مطمئن تھا کام پرجانے
کے لئے کمپنی ہی کی بس وقت مقررہ پرلے جاتی اورگھر کے قریب چھوڑجاتی تھی۔ آرٹی سی بسوں
کے انتظاراورپھر دھکے کھانے کی کبھی ضرورت نہ پڑی تھی صبح آٹھ بجے کا نکلا شام چھ بجے
تک گھرلوٹ آتا۔ اپنے افراد خاندان اورچند گنے چنے مخصوص دوستوں کے ساتھ شام گزارنے
کا وقت اسے مل جاتا، مطالعہ کے ذوق کی تکمیل بھی ہوجاتی لیکن نوکری کرتے ہوئے تین چارسال
بھی نہیں ہوپائے تھے کہ اٹھتے بیٹھتے امی ابا نے دوسروں کے بیٹوں کے باہر جاکر خوب
کمانے کا ذکر کرکرکے اس کا ناطقہ بند کرنا شروع کردیا تھا۔ بہنوں کی شادی کی بات نکلتی
تواماں ٹھنڈی آہیں بھرنا شروع کردیتیں کہ باپ کے وظیفے کی قلیل رقم اوربیٹے کے آٹھ
ہزار روپلی میں کیا خاک بہنوں کے ہاتھ پیلے ہوں گے چھوٹا بھائی ابھی اسکول میں ہے توبڑا
بھائی کونسا ہاتھ پیر مار زیادہ آمدنی کے ذرائع ڈھونڈھنے کوشاں ہے بھلا۔ شام توبس آرام
کرتے رہتے ہیں صاحبزادے صبح آٹھ تا شام چھ بجے یعنی دس گھنٹوں میں آٹھ گھنٹے سخت محنت
اور دوگھنٹے کی مسافت کے بعد کیا چند گھنٹے اپنی ذات کے لئے مخصوص کرنے کا بھی اسے
حق نہیں تھا۔؟ لیکن جب وہ پچیس سال کا ہوگیا اوربہنیں بھی بیس بائیس کی سرحد پھلانگنے
لگیں جوڑے گھوڑے کی رقم وجہیز کی مانگ روز بروز بڑھتی ہی جانے لگی۔ ابا کے چہرے کی
جھریاں گہری اوراماں کے ماتھے کی شکنیں بڑھنے لگیں اوررات دن ان کی بڑبڑاہٹ کی آواز
اونچی ہوتی گئی۔ دونوں بہنوں کی گردنیں مایوسی شرمندگی اورناکردہ گناہوں کے بوجھ سے
جھکنے لگیں تواسے اپنی حیثیت پست اورکمائی حقیر ہونے کا احساس ہونے لگا باوجود بھرے
پرے خاندان ووطن عزیز میں زندگی بسرکرنے کی دلی تمنا کے اسے ماں باپ کے اصرار اورگھر
کے معاشی موقف کومستحکم کرنے کے لے شہربدرہوکر سعودی عرب کے لئے رخت سفر باندھنا ہی
پڑا۔ اسے مختصر ساکمرہ اپنے مطالعہ کی میز کرسی،اپنا چھوٹا سا ایکیوریم اس کے پانی
کے بلبلوں کے درمیان تھرکتی مچلتی رنگ برنگی خوبصورت ننھی منی مچھلیاں بہت عزیز تھیں
ان سب سے جدا ہوتے ہوئے اس کا دل تڑپ تڑپ گیا پھر اس نے دل کودلاسہ دے لیا کہ دوچار
سال میں خوب کما کروہ لوٹ آہی جائے گا۔ سبھی اس کے فیصلے پرخوش تھے بجز دادی ماں کے
اکرام کواپنے سینے سے بھینچے اپنی لوث محبت کا پرتوخدا کرے کہ ہربشر پرپڑے کہ بس ایک
وہی تھیں جویہ نہیں چاہتی تھیں کہ اکرام گھرسے بے گھرہوجائے باقی سبھی کی آنکھیں باوجود
نمناک ہونے کے مستقبل کے سنہرے سپنوں کے تصور سے چمک رہی تھیں۔
زندگی میں پہلی بار جب ہوائی جہاز میں وہ سوار ہوا تو اس کے ہمراہ صرف اداسیاں تھیں۔ خوفناک خیالات کے بگولے وسوسوں کا ہجوم چین وسکون برباد کررہے تھے۔ جب تمام مسافرین اپنی نشستوں پربیٹھ گئے اورآمد ورفت کے دروازے بند ہوگئے ہوئی جہاز رن وے پردوڑتا ہوا اچانک ہوا میں اٹھ گیا تواس نے محسوس کیا کہ اس کے پیر اس کی اپنی سرزمین سے اکھڑ گئے ہیں اوراب وہ اپنی مرضی کامالک نہیں بلکہ ہوا کے دوش پراڑنے والا سوکھا پتہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ بچوں کی طرح بھپک پڑا۔ بارباردستی سے وہ چہرہ چھپانے کی کوشش کرتا رہا تھا ساتھ والی سیٹ پربیٹھے دوسرے لڑکے نے آنسوو
¿ں سے تربہ تراس کا چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اس نے ہلکے سے اس کی کلائی پراپنا ہاتھ رکھ دیا تھا اس لمس نے ایک لمحے کے لئے احساس دیدیا کہ کوئی کہیں نہ کہیں دکھ درد سمجھنے وسمیٹنے اوربانٹنے والامل ہی جاتا ہے جب ان جیسے کئی نوجوان جدہ ایرپورٹ پراترے توہرچہرے اجنبی، ہرآواز بیگانی، زبان لب ولہجہ سب کچھ نہ صرف یہ کہ بدلا ہوا لگا بلکہ بے انتہا سپاٹ وکرخت سامحسوس ہوا۔ جان پہچان وملاقات نہ بھی ہوتوجب اجنبی نظریں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں توایک ہلکی مسکراہٹ ہی انسانیت واخلاق کے ناتے ہونٹوں پرعود کرآتی ہے لیکن اہل وطن کا احساس برتری ورعونیت بے وطن ہوکر آنے والوں کواحساس کمتری میں مبتلا کردینے کے لئے کافی تھے۔ یہ پہلا سبق اس سرزمین پرپہلا قدم رکھنے کے ساتھ ہی اسے مل گیا تھا اس وقت اس کی پچیس سال تھی اورپچھلے تیرہ سال سے وہ رات دن سخت محنت مشقت کرتا رہا تھا اس درمیان میں کتنی بار اس نے چاہا کہ وطن لوٹ جائے اسے اپنا شہراپنا محلہ اپنا گھر اپنے رشتہ دار، شادیوں ودیگر تقاریب کی یادستاتی رہتی ہرشادی کا رقعہ اس تک پہنچ کراس کی تڑپ کچھ اور بڑھادیتا، اس کے جدہ آنے کے بعد سے دوبہنوں کی شادی اورایک بھائی کی تعلیم کابوجھ جب بحسن خوبی اپنے کندھوں سے اتارچکا تواس نے وطن لوٹ آنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن اماں نے ہرماہ ان کی بیماریوں گھرکے بڑھتے اخراجات، بہنوں کی سسرال والوں کی لمبی فہرست اس کے سامنے رکھ دی۔ ایک دوسال میں اس نے اتنی رقم بھیج دی کہ ان مرحلوں سے گزرنا بھی آسان ہوگیا اورپھر ایک بار لوٹ آنے کی بات کی توگھر والوں کوپرانا آبائی گھر اس قابل نہیں لگنے لگا کہ اس میں رہا جاسکے اس لئے اکرام کے خون پسینے کی کمائی پراس مکان کی ازسرنوتعمیر شروع کرادی گئی لیکن گھر باپ کے نام پرہی رہا جس میں اس کے ساتھ کے بھائی بہنوں کا پورا حصہ اورحق ہونے کی طمانیت حاصل کرلی گئی۔ تعمیر کے اخراجات اتنے زیادہ ہوگئے کہ مزید کئی سالوں تک وہ وطن یا خود اپنے بارے میں بھی سونچنے کے قابل نہ رہا۔ نہ ماں باپ بہنوں بھائی کویہ احساس ہوا کہ ہزاروں روپے ماہانہ کماکر بھیجنے والے نوجوان کے جذبات کا پاس ولحاظ کیا جانا چاہئے۔ اس کی عمر پینتیس سال کی ہورہی تھی لیکن اس نے کبھی کسی چیز کی خواہش نہیں کی تھی نہ کسی نے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔؟ کیسے رہتا ہے۔؟ کیا کھاتا پکاتا ہے۔؟ کیسے گزرکررہا ہے۔؟ اس کے بے کیف دن ونیند سے محروم بے نشاط راتیں زندگی میں مزید کڑواہٹ گھول رہی تھیں کبھی دوسال بعد ایک آدھ ماہ کے لئے وطن جاتا بھی تواس سے رہن سہن کے بارے میں سوالات پوچھے ضرورجاتے ہیں لیکن ان میں کوئی فکر نہیں جھلکتی۔ کوئی اپنائیت پیار نہیں ہوتا بلکہ یوں لگتا جیسے وقت گذاری کے لئے کسی داستان گو کوافراد خاندان نے درمیان میں بٹھا چھوڑا ہے۔ یا گھر کا بزرگ بچوں کی دل بہلائی کے لئے راجہ رانی کے کانی سنارہا ہو۔ ہرکوئی اس سے کسی نہ کسی چیز کا طلبگار ہی تھا لیکن اس کی عمر اس کی جوانی اس کی تنہا راتوں کے مطالبات کے بارے میں سبھی نے سوچنا چھوڑدیا تھا۔ بہنوں کی شادیوں کے ذمے داری سے سبکدوشی ہوگئی توان کے شوہروں کوخلیجی ممالک بھیجنے کا مطالبہ ہونے لگا پھربہنوں کے گھروں میں ہونے والی ہرولادت کا بوجھ اکرام کے سرپرڈالا جانے لگا۔ آرزو ارمانوں کی تکمیل کی حدیں لامحدود ہوتی گئیں ناتے نواسوں کے چھٹی چھلے سالگرہ عقیقے غرض ہرموقع پرپورے زیورات کی فرمائش کہ جدہ میں کوئی رہے اورتحفے میں سونے کے زیورات نہ دئے جائیں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔؟
آرزو کا سلسلہ کب ختم ہوگا اے شکیل
کھل گئے کچھ گل تو پیدا اور کلیاں
ہوگئیں
اکرام کے ساتھ رہنے والے تمام پانچ
چھ دوستوں کی شادیاں پچیس چھبیس سال کی عمر میں ہوگئی تھیں اکرام اکیلا ہی ایسا تھا
جوپینتیس سال کا ہوکربھی کنوارا تھا۔ دوست اپنی میز کی درازوں یا سوٹ کیس میں اپنی
منگیتر یا اپنی بیوی کوچھپائی گئیں تصاویر دیکھ دیکھ کراپنے بے چین دل کی تسکین کا
سامان مہیا کرلیتے، جن کے پاس الفاظ کا ذخیرہ اورقلم پرعبورتھا وہ فرصت کے اوقات میں
کسی گوشہ تنہائی میں بیٹھے بیوی یا مستقبل میں بننے والی شریک حیات کولمبے چوڑے خطوط
لکھا کرتے جو چند سطوربھی ڈھنگ سے لکھنے سے قاصر تھے پلنگ پرنیم دراز، ٹیپ ریکارڈ سینے
پررکھے اپنی آواز سے کیسٹ بھراکرتے گویا ان کے منظورنظر ان کے افراد خاندان ان کے روبرو
ہوں اوروہ ان سے محوگفتگو ہوں کبھی آواز میں چہک ہوتی ہے توکبھی گلے میں پھندا سا پڑجاتا
ہے،آواز رندھ جاتی، جملے ٹوٹ جاتے، الفاظ بکھربکھرجاتے، جب اظہار کے تمام طریقے ساتھ
چھوڑجاتے ہیں توبس موٹے موٹے آنسو ہی خوشی وغم کے اظہار کا واحد ذریعہ بن جاتے ہیں۔
لیکن اکرام کی آنکھیں ان سے بھی محروم بڑی ویران سی لگنے لگی تھیں۔نہ تواس کوکبھی محبت
بھرے خطوط لکھتے دیکھا گیا تھا نہ ٹھنڈی آنہیں بھرتے نہ کیسٹ میں آواز منتقل کرتے ہوئے۔
اداس۔ اداس سا خاموش اپنے آپ میں گم دکھائی دیتا، دوستوں کے گھروں سے آئے خطوط کے ہرلفظ
میں ماں کی تڑپ کا عکس ہوتا کہ بیٹا کب آرہے ہو۔؟ تمہاری شادی کی ساری تیاریاں مکمل
ہوچکی ہیں یہ زیوروہ کپڑا خریدا گیا ہے اوراس کے دوست ان خطوط کوپڑھ کرخوش آئند لمحات
کے تصور میں ڈوب جاتے ہیں لیکن اکرام کے پاس وقت گزارنے کا کوئی ایسا خوبصورت سہارا
بھی نہیں تھا۔ اس کی زندگی کی یکسانیت اس کے معمول میں کوئی فرق کوئی تبدیلی نہ تھی
کبھی کوئی خط کوئی فون آج تک اس کے لئے ایسا نہیں آیا تھا جس میں پیسے یا زیور بھیجنے
کا مطالبہ نہ کیا گیا ہوگویا اس کا وجود پیسے پرشروع ہوکر پیسہ پرختم ہوگیا تھا۔ اس
کی کمائی پرپورا خاندان پل رہا تھا بلکہ راج کررہا تھا۔ اس لئے اس کی شادی کی کسی کوجلدی
نہ تھی حالانکہ کئی رشتے اس کے لئے آچکے تھے، صورت، شکل، قدوقامت میں وہ خوبرونہ سہی،
پرجاذب نظرضرور تھا، کئی اچھے رشتے جدہ ہی میں دوست احباب کی توسط سے آنے لگے تھے لیکن
ماں باپ کواس کی شادی کی جلدی نہ تھی۔ حالانکہ اس بار وہ کچھ امیدیں لے کر گھرلوٹا
تھا۔ مکان میں کافی تبدیلی آگئی تھی پرمکین وہی تھے۔ بجزدادی ماں کے۔ جن کا مشفق وجود
اس کی بے وطنی میں خاک میں مل گیا تھا۔گھر میں پیدا ہونے والے اس خلاءکوشاید سب سے
زیادہ وہی محسوس کررہا تھا اورنہ ماحول کا خلاءہی کیا بلکہ اس جگہ کوبھی نئے فرنےچر
سے پرکردیا گیا تھاجہاں برسہا برس سے کبھی دادی ماں اوران کا پرانا تخت ہوا کرتے تھے۔
اس نے اس بارمصمم ارادہ کرلیا تھا کہ وہ حیدرآباد ہی میں کوئی کام ڈھونڈ لے گا یا اپنا
ورک شاپ کھول لے گا لیکن اس دفعہ خاندان ومحلے کے بزرگوں نے اس کی فرمانبرداری کہ ماں
باپ کوحج کروانا بھی صاحب استطاعت اولاد کے فرائض میں شامل ہے گویا اس کے مستقبل کے
خیالی محل کی اینٹیں پھرایک بارکھسکا دی گئیں اوروہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زندہ جسم
اورمردہ احساسات کے ساتھ ہوائی جہاز کے تابوت میں بند ہوکر پھراپنے کام لوٹ آیا۔ اسی
سال ماں باپ نے فریضہ حج بھی ادا کرلیا لیکن اکرام اس رقم کی پابجائی کے لئے سالانہ
چھٹی پربھی نہ جاسکا۔
اکرام کے متین سنجیدہ صابر وخاموش
طبعی سے متاثر اس کے دوست نے اپنی بہن کا رشتہ اس سے طئے کردیا۔ اگر اکرام کے دوست
ساتھ نہ دیتے تووہ مزید چند سال مجرد ہی رہتا یا پھر کنوارا ہی مرجاتا دوسرے سال چٹ
منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔ اپنی نئی نویلی دولہن شہلا کی محبت اس کی توجہ پا کر اس نے پکا
ارادہ کرلیا کہ وہ جدہ قطعی نہیں جائے گا۔ نوکری نہ ملے گی توذاتی کاروبار کرلے گا
لیکن شہلانے بھی ڈھکے چھپے انداز میں اسے واپس لوٹ جانے پرمجبور کردیا کہ حیدرآباد
میں کیا رکھا ہے۔؟ بہت کمالوگے توبس دس پندرہ ہزار جب کہ وہاں تین چار گناہ زیادہ مل
رہا ہے تورزق وروزگار کوکیوں ٹھکرارہے ہو۔ اس نے خود بھی جدہ دیکھنے وہاں اس کے ساتھ
رہنے کی آرزو کا اظہار کردیا اوراکرام اپنی دلی خواہش وتمنا کا اظہار بھی نہ کرسکا
اورہمیشہ کی طرح فرمانبردار بچے کی مانند وہاں کے لئے چپ چاپ سفرپرروانہ ہوگیا جہاں
جاتے ہوئے سدا اس نے پیر من من بھرکے ہوجایا کرتے تھے۔ اورہربار وہ ارادہ کرتا کہ اگلی
بارجب وہ آئے گا توپھرجدہ نہ جائے گا۔ شادی کے ایک ماہ بعد لوٹ آیا تھا کبھی نہ فراموش
ہونے والے حسین لمحوں کواپنی گرہ میں مضبوطی سے اس نے کس کر باندھ لیا تھا کہ کہیں
لوح زندگی سے مٹ نہ جائیں، کھونہ جائیں، چند خوشیوں کوبٹورکراس کی پاسبانی کررہا تھا
کہ کہیں کسی نظربد نہ لگ جائے لیکن شہلا کا تصوراسے باربار لوٹ جانے پراکسانے لگا تھا۔
کوئی ان چھوا سا احساس حسین تخیل بن کر شہلا کا تصور کے روپ میں ابھرتا اوراس کی تنہائی
وسناٹے گنگنانے لگتے طرب ونشاط سے محروم زندگی گزارنے کا وہ عادی ہوچکا تھا اب اضطراب
بڑھ رہا تھا، بیخواب آنکھوں کی گواہ جانے کتنی راتیں گزررہی تھیں لیکن شہلا کی میٹھی
جلترنگ جیسی آوازیں پیر کی آمیزش کے ساتھ لوٹ آنے کے خیال کوذہن سے نکال دینے کی تلقین
ہوتی کہ ابھی تونئی زندگی کی شروعات ہوئی ہے۔ دوسرے ماہ شہلا نے خوشخبری سنائی کہ وہ
اب دوسے تین ہونے والے ہیں۔ جیسے جیسے مہینے گزرنے لگے اکرام کا سکون درہم برہم ہونے
لگا۔ ساتواں مہینہ پورا ہونے پرشہلا کی وہ تصویر ملی جس میں اکرام کی امانت اپنے وجود
کا احساس دلارہی تھی۔ اکرام کی بے چینی بے قراری برداشت سے باہر ہونے لگی اسے خواہش
کے ساتھ اپنے فرض کا احساس ہونے لگا کہ کم از کم اس وقت جب کہ شہلا ماں بنے گی اسے
شہلا کے پاس ہونا چاہئے تا کہ سب قریبی رشتہ داروں کے درمیان بھی وہ اپنے آپ کوتنہا
نہ محسوس کرے۔ اس نے فون اٹھایا اورشہلا کوبڑے پیاربھرے انداز میں یہ تیقن دیا کہ وہ
اگلے ماہ سب کچھ چھوڑچھاڑکر اس کے پاس آجائے گا تاکہ وہ باہم مل کر اپنے بچوں کے ساتھ
زندگی گزارسکیں لیکن بڑے کڑک تلخ وتحکمانہ انداز میں شہلا نے جواب دیا کہ کونسی بھاری
رقم بینک میں رکھ چھوڑی ہے کہ نوکری چھوڑکر آنے کی بات کررہے ہو۔؟ اورآخر ان کے حصے
میں آنے والے ایک کمرے میں کیا عمربھراپنا سنسار سمیٹے رہوگے کیا اپنے لئے دوسری منزل
بھی تعمیر نہ کروگے۔؟ اکرام اپنا دل مسوس کررہ گیا جدائی کے صدمے فراق کی تڑپ۔ دوری
کی اذیت۔ تنہائیوں کے المناک لمحے اس کامقدر بنتے گئے اپنے لوگوں میں بھی اسے کوراپن
بیگانگی اورتغافل کا احساس ہونے لگا۔ اس کی ذات سے زیادہ ریالوں کی فوقیت اس کے سامنے
ابھرکر آنے لگی مایوسی کا جال اس کے اطراف مضبوط ہونے لگا کہ شاید وطن کی مٹی ہی نے
اسے دھتکار دیا ہے لیکن ہرلمحہ شہلا کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہوئے ننھے منے دل کی دھڑکن
وہ اپنے سینے میں محسوس کرنے لگا تھا اس کا یک مدہم ساہیولیٰ جھولے کی پینگوں کی طرح
اس کے کبھی قریب توکبھی دورہوتا جاتا۔ اس کی سونچ کی اڑان قوت پرواز کی محتاج کب ہوتی
تھی اورپھر ہزاروں میل دوربیٹھا وہ اپنے باپ بننے کی خوشخبری سن کرپھوٹ پھوٹ کررونے
لگا کہ آج اس کا بیٹا وہاں وجود سبھی کا بانہوں میں ہے توپھرکیوں صرف اس کی گود اس
کی بانہیں اپنے بیٹے کوسمیٹنے کے لئے ترس رہی ہیں سب اکرام سے پیارجتاتے ہیں لیکن جب
پیاروپیسے میں سے کسی ایک کوچننے کی بات آتی ہے تواس کی ذات پس پشت چلی جاتی ہے، اپنے
بیٹے کوبھینچ کرچومنے کا خیال اس کے سوتے جاگتے ارمان بن گیا یوں بھی اس کی راتوں کے
آسمان پرکوئی مہ وآفتاب کب چمکا تھا ظلمتیں ہی اس کا نصیب تھیں یوں لگتا کہ زندگی کا
پیمانہ صرف تلخیوں سے بھرا گیا ہے اوریہی کڑوے گھونٹ پیتے ہوئے دیار غیر میں وقت گزارنا
اس کا نصیب تھا۔
زندگی وحالات سے وہ نباہ کررہا تھا
کٹھن مرحلوں سے گزرنے والی سخت کوش زندگی وہ گزاررہا تھا وہ اب اپنے ملک اپنے شہر گھرلوٹ
جانا چاہتا تھا لیکن سب نے ملک کر اس کی راہیں مسدود کررکھی تھیں۔اب اس کا دل کام میں
نہیں لگتا تھا ماضی کے کھنڈر سے تصورات کا خوبصورت محل بنانا سجانا سنوارنا اس کا مشغلہ
بنتا گیا گزرتے دنوں کی یادوں کی تجدید وتدوین سے بڑھ کرمسرت وتسکین کا کوئی اورذریعہ
تھاہی نہیں اس کے پاس۔ ایک مسلسل بہتے پانی کی طرح خیالات کا دریا بھی جاری وساری رہتا
تھا اس سے فرار حاصل کرنے وہ اکثر خالی الذہن میلوں بلامقصد گھنٹوں سڑکوں پرگھومتا
رہتا اس وقت تک جب تک کہ اس کے پیر شل نہ ہونے لگتے۔ دوست احباب سمجھاتے کہ آخر ہزاروں
لاکھوں لوگ وطن ورشتہ داروں سے دورکام کررہے ہیں سب کو گھر کی یاد ستاتی ہے لیکن جتنا
جذباتی انداز اس نے اپنا رکھا ہے یہ پاگل پن ہے لیکن اکرام کا ایک ہی جواب ہوتا کہ
اسے اپنا وہی چھوٹا سا کویلو کا گھر پھر سے مل جائے جہاں اس کے پرسکون دنوں کی یادوں
کی مہک ہے۔ اسے وہیں جانا ہے جلد بہت جلد جانا ہے۔ جب کہ سب اسے لوٹنے سے روکتے ہیں
جب کہ وہاں کی مٹی اسے بلارہی ہے دوستوں کویقین ہوگیا کہ یا تو اکرام بیمار پڑجائے
گا یا پھر پاگل ہوجائے گا لیکن دونوں میں سے ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا بلکہ خالی الذہن
سڑک عبورکرتے ہوئے ایک تیزرفتار مرسیڈیز کی زد میں آکر اکرام ہمیشہ کے لئے پرسکون ہوگیا
جسم جدہ کی سڑک پرپڑا تھا اورروح بجائے آسمان کے آناً فاناً پرواز کرکے حیدرآباد جاپہنچی
ہوگی جس اکرام کوافراد خاندان نے سرزمین حیدرآباد سے دورروپے کمانے کی مشین بنارکھا
تھا اسی اکرام کا سترہ سالہ جلاوطن زندگی کا اثاثہ اس کا بے جان جسم دس دن تک مردہ
خانے کے برف دان میں حرارت سے محروم جسم، ذہن کے خوش رنگ تانے بانوں سے بیگانہ جسم۔
وطن وگھر لوٹنے کی پرامید آس لگائے راہ تک تک کرہمیشہ کے لئے موندھ جانے والی آنکھوں
والا اکرام۔ ایک تابوت میں بند تھا۔ اکرام کی آمد کی اطلاع کے ساتھ بچوں بڑوں کا جمع
ہوجانے والا جم غفیر ایئرپورٹ پرکہیں نظرنہیں آرہا تھا۔ اکرام کا نیم جاں چھوٹا بھائی
چند ذمے دارلوگوں کے ساتھ اس گیٹ پرکھڑا تھا جہاں سے ضروری کارروائی سے نبٹنے کے بعد
اسے اکرام کا تابوت حاصل کرنا تھا۔
جیتے جی برسوں میں تڑپا۔ تب نہ لی
تم نے خبر
مرگئے پر پوچھتے ہوکیا ہوا۔؟ کیونکر
ہوا؟
٭
Sunday, November 22, 2020
Lawazima Afsana By Nafeesa Khan. لوازمہ افسانہ از نفیسہ خان
لوازمہ
نفیسہ خان
"میں
تم کو پہلیچ بولدیا تھا کہ میرے سوب لوگاں حیدرآباد سے آئیں گے لوازمے کا کھانا دینا
ہے.... بولا تھا....؟ نئیں بولا تھا....؟؟؟؟ شکور میاں کی آواز شادی کے شامیانے میں
گونج رہی تھی....گھگھیائے ہوئے عبدالرحیم بےچارے من بھر کی منڈی ہلارہے تھے کہ....
”ہو سمدھی بھائی.... تمہیں بولے تھے سو میں کرانا جی.... کیا کمی کراسو میں....؟ تمہیں
لوازمے کا خاصہ بولے تو میں سادا چاول نئیں پکاکو۔ بگارا کھانا پکائیوں۔ چٹپٹا
گوشت کا سالن بنایا.... کھٹا بولے تو کدو ہڈیاں ڈال کو دالچہ حاضر ہے۔ اتّا میٹھے
کے نام پر گڑ کی بجائے شکر کھوپرا ڈال کو میٹھا کھانا بنایا ناجی.... اب اور کیا
تو بھی لوازمہ ہونا....؟ کائےکو اڑلارئیں....؟ کیا کمی کراسو ؟ سب لوگاں کے سامنے
ہماری کھلی کائےکواڑارئیں.... یہ شادی میرے گاؤں میں کرتا تو اتّا خرچا نئیں ہوتا
تھا ایک بڑے جانور کو کاٹ لیتا۔ آئے سو براتیاں اور پورا محلہ دوستاں عقد کی
پہلوار رات کو اجڑی بوٹی کا سالن بائیکاں کی گھڑی جواری کی گرم گرم روٹیاں کھالیتے۔
صبح صبح پورے ایک بڑے جانور کا دالچہ اور کھانا پکائے تو سوب بھی صبح سے شام تک
کھا کھا کو دعایاں دےکو جاتئیں۔ یاں کیا جی.... تم آتے سو آتے برس رئیں۔“
عبدالرحیم کویلی والے کی آواز گلوگیر ہوگئی وہ اسی نام سے پکارے جاتے
تھے پتہ نہیں کویلیاں بیچتے تھے یا پھر ان کے دیہات کا نام کویلی تھا۔ عبدل کی بات
سن کر حیدرآباد سے آئے ہوئے شکور میاں کے لوگ جو زیادہ تر میوہ فروش تھے ہونٹوں پر
ہنسی دبائے بادل نخواستہ سپلائنگ کمپنی سے منگوائی گئی میلی دھبہ دار شطرنجی پر
بچھے لال دستر خوان پر بیٹھ گئے۔ اسٹیل کی رکابیاں لگادی گئیں۔ اسٹیل کے بڑے سے بیسن
پاٹ میں کھانا اور بکٹ میں دالچہ لئے میزبان آپہنچے رکابی کی ایک طرف دو چھوٹی
کٹورےاےں تھےں۔ ایک میں مےٹھا دوسرے میں گوشت کا سالن بوٹی اور ہڈی کے تناسب سے
رکھا گیا تھا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور اس سے زےادہ کوئی طلب بھی نہ کرے بس اسی
پر توکل کرنا ہے اور بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کرنا ہے.... عبدالرحیم گلی گلی
گھوم کر پرانے لوہے وپلاسٹک کی خرےداری کرتے اور شہر لےجا کر بےچ آتے تھے ان کا
گھر دو کمروں پر مشتمل تھا جو آٹھ اور چھ مربع فےٹ کے تھے۔ اور اسی گھر میں شادی
کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔ سب نے مل کر تھوڑی بہت مدد کی تھی جب جا کر اپنی تیسری
بیٹی کو وہ آج وداع کر رہے تھے آٹھ فیٹ والے کمرے سے منسلک چھ فیٹ والا کمرہ تھا۔ ایک
دیوار سے صندوقوں پر صندوق جمے ہوئے تھے اس پر بستر کپڑے پڑے تھے دوسری دیوار کے
ساتھ چاول اور دیگر چھوٹے موٹے سامان سے بھرے تھیلے رکھے گئے تھے۔ انہیں تھیلوں سے
ٹیک لگائے سیمنٹ کے خالی تھیلوں کو جوڑ کر بنائی گئی چٹائی پر لال مدرا بچھا کر
دولہن کو بٹھایا گیا تھا۔ سنہری چمکیاں ٹکی نائیلان کی دوڈھائی سو روپےوں کی ساڑی
پہنے وہ پھولے نہیں سمارہی تھی مجھے دیکھ کر اس نے بصد احترام سلام کیا پاس بیٹھی سہیلی
نے گھونگھٹ ہٹا کر مجھے دولہن کا چڑھاوا بتایا جو تین ماشے سونے کے پھول اور گلے میں
آدھا تولے کا سات ٹکڑوں والا کالی پوت کا لچھا تھا مہندی سے لال ہاتھ پیر کی انگلیوں
میں چاندی کے موتی چور کے چھلے تھے اور دولہن کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ
تھی....
حسرتیں ہیں کیا دل میں کھل کے کہہ نہیں پاتیں
باپ کی غریبی کو بیٹیاں سمجھتی ہیں
دولہن نے کچھ کھسکتے ہوئے میرے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی۔ میں سمٹ کر بیٹھ
گئی کہ پالتی مارکر بیٹھنے کی جگہ بھی وہاں نہیں تھی۔ مہمان عورتوں کی آمد کا
سلسلہ شروع ہوگیا۔ پیچھے سرکتے سرکتے میں دیگچوں کو جالگی ڈرتھا کہ کہیں برتنوں کا
بھانڈا دھڑام سے نیچے نہ گر پڑے۔ گرمی اپنی شدت پر تھی پسینہ چوٹی سے ایڑی تک پہنچ رہا تھا پسینے اور تنگ جگہ کی وجہ سے میری
کاٹن کی ساڑی کا کلف نہ صرف یہ کہ ٹوٹ گیا بلکہ ہتھیلی میں مسلے ہوئے کسی بےکار
کاغذ کی شکل اختیار کر گیا۔ بھڑکدار رنگ برنگی ساڑیاں پہنی ہوئیں خواتین میری حالت
پر ہنس رہی تھیں ایک معمر دیرینہ جان پہچان والی صاحبہ نے میری طرف جھکتے ہوئے دبی
زبان سے پوچھا کہ .... ”تم سیدھا سادا لباس پہن کر کیوں آئی ہو ہمیشہ ہی تمہارا یہی
وطیرہ رہا ہے کیا حیدرآباد کی شادیوں میں بھی تم ایسے ہی جاتی ہو؟ میں نے بہانا بنایا
کہ بھئی یہاں شادیاں صبح تا نصف النہار ہوتی ہیں اس لئے میں اسکول سے سیدھا شادی میں
آجاتی ہوں تیار ہو کر آنے کا وقت ہی نہیں رہتا۔ اب بھلا میں بڑی بی کو کیا بتاتی
کہ حیدرآباد وساگر کا درمیانی فاصلہ حالانکہ صرف دیڑھ سو کیلومیٹر ہے لیکن ان
دوجگہوں کی شادیوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے یہاں ایک لڑکی کو شرافت وعزت کے ساتھ
وداع کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں یہاں تعلیمی ومعاشی طور پر مسلمان اتنے بچھڑے
ہوئے ہیں کہ یومیہ مزدوری سے دو وقت کی روٹی جٹانا دوبھر ہے وہاں بچوں کی تعلیم
اور بچیوں کی شادی اور دولہے والوں کی مانگ پوری کرنا مشکل ہے جہاں دولہن کا عروسی
جوڑا اور زیور بھی بالکل معمولی ہوتا ہے وہاں شرکاءدولہن سے اچھا زیور وکپڑ ے زیب
تن کریں۔ کیا یہ مناسب ہوتا ہے....؟
عبدل میاں نے آکر جھک کر نوے ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے مجھے سلام کیا
جسے حیدرآبادی زبان میں پیٹ میں منڈی ڈالنا کہا جاتا ہے۔ میری مبارکباد قبول کرتے
ہوئے کہا کہ ”.... آپ سب کی مہربانی سے اور میری حیثیت کے مطابق شادی کررؤں.... چل
کو جہیز دیکھ لیوؤ....“ شامیانے میں ایک طرف اسٹیل کی الماری.... اسٹیل کے پائیپوں سے
بنی مسہری پر سارا جہیز رکھاتھا۔ تو شک پر دوتکئے رکھے تھے ان پر شولاپور کی سوزنی
بچھی تھی اسٹیل کی بارہ رکابیاں، دو کٹورے دومشقاب چھ چمچے ، چھ گلاس۔ قرآن۔ رحال۔
جانماز۔ دوچاربگونے۔ پانچ جوڑے کپڑوں کے جن میں تین معمولی ساڑیاں تھیں اور دوبقول
دیہاتیوں کے چھپانے کی ساڑیاں (بھاری ساڑیاں) تھیں۔ عبدل میاں تعریف طلب نظروں سے میری
طرف دیکھ رہے تھے اور میری نظریں ساگر سے ہٹ کر حیدرآباد کی تصنع آمیز زندگی کا
احاطہ کر رہی تھیں جہاں شادی خانے اب صرف عمارتوں پر نہیں بلکہ چوطرف سے باغات سے
گھرے ہوئے لاکھوں کا کرایہ وسجاٹ ضروری ہے۔ فوارے آبشار ہی نہیں بلکہ قدموں تلے
بھی پانی رواں دواں ہو۔ آتش بازی بھی ہو تو بات ہی کیا ہے برقی قمقموں سے نظریں
چکا چوند رہتی ہیں۔ بینڈ باجے دف کے ساتھ سدیوں کے تلوار ولٹھ بازی کے کرتب ہوتے ہیں۔
وسیع وعریض ہرے بھرے لان پر اطلس کی مصالحہ ٹکی چھتریوں کے اسٹالس بنے ہوتے ہیں ایک
میں چائے۔ کافی تو دوسرے میں کول ڈرنکس وآئسکریم.... تیسرے میں سادھے ومیٹھے پان۔
چوتھے میں گلاب موتیاچنبیلی۔ چمپا کے پھولوں سے آپ کی تواضع ہوتی ہے تو پانچویں میں
مشین کے اندراچھلتے کودتے گرم گرم پاپ کارنس کو دیکھ کر بچوں کا دل تو بلیوں
اچھلتا ہے لیکن نوجوانوں کا دل کچھ کم بےقرار نہیں ہوتا۔ گوکہ مستورات کی بیٹھک کا
انتظام الگ ہوتا ہے لیکن آدم وحوا کی اولاد کی چہلیں چلتی رہتی ہیں۔ ویڈیو گرافر
دولہن کے ساتھ ساتھ ہر اس دوشیزہ کے چہرے کو اپنے کیمرے میں قید کرلیتا ہے جو نہ
صرف خوبصورت بلکہ پرکار بھی ہوتے ہیں تقریباً سبھی لڑکیاں بیوٹی پارلر سے ہوکر آتی
ہیں اس لئے چھل چھل کرتی ہوئیں زلفیں آج کل شانوں پر پریشان رہتی ہیں کہ بلاوجہ دل
زلف ِ گرہ گیر کا اسیر بن جاتا ہے کبھی نظروں کے خاموش پیام پہنچتے ہیں تو کبھی
بچے گلاب کے مہکتے پیام پہنچاتے نظر آتے ہیں۔ بقول شاعر۔
نہ چھیڑوں میں تو خود چھیڑیں اگر چھیڑوں تو شرمائیں
انہیں پیاری اداؤں پر شرارت ناز کرتی ہے
دوسری طرف بچوں کی سواری کے لئے ٹٹو.... بڑوں کے لئے گھوڑے اور مزید
معتبر وقابل عزت واحترام ہستیوں کے لئے بگیوں کا انتظام بھی کیا جارہا ہے اب لے دے
کے آصفیہ دور کے میانے میں جو فی الحال نظر نہیں آرہے ہیں جانے کونسی دیمک چاٹ گئی
کہ باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ دولہے کے اسٹیج سے منسلک اسٹیج پر وہ لڑکیاں
جنہیں ان میانوں میں بےٹھ کر سسرال کو وداع ہونا تھا نہ جانے کس مجبوری کے تحت میوزک
پارٹی کے نام پر ناچتی گاتیں ، مٹکتی تھرکتی نیم عریاں لباس میں اوچھی حرکتیں کرتی
ہوئی ہماری تہذیب کی دھجیاں اڑاتی نظر آتی ہیں۔ عورتیں.... مرد.... بزرگ.... بچے
سب ہی لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں نہ کسی میں اخلاقی جرائت کہ اس بےہودگی کے خلاف ایک
لفظ بھی کہیں کیونکہ اتنا پر تکلف کھانا کھانے کے بعد نمک حرامی بھی تو نہیں کی
جاسکتی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بطور احترام اس دسترخوان کا کھانا اپنے آپ پر حرام کرلیں۔
لیکن نہیں۔ وہاں تو میزوں پر جگہ پانے کے لئے باضابطہ دوڑ ہوتی رہتی ہے کیونکہ
دولہا کے آنے اور نکاح ہونے تک دس بج جاتے ہیں اگر آپ رقعوں میں بعد نماز مغرب کی تحریر
پڑھ کر بعد عشاءبھی چلے جائیں تو فنکشن ہال کی کرسیاں گنتے ہوئے وقت گذاری کرنی
پڑے گی اور کیا ضروری ہے کہ آپ نمازوں کا حوالہ دے کر اپنے آپ کو پنج وقتہ نمازی
ظاہر کریں صرف دس یا گیارہ بجے شب بھی تو لکھا جاسکتا ہے۔ مہمانوں میں عمر رسیدہ۔
بلڈ پریشر وذیابطیس ، دل و دوسرے امراض میں مبتلا لوگ بھی ہوتے ہیں ان کا خیال
بالکل نہیں رکھا جاتا۔ مدعو افراد میں وہ مذہبی رہنما اور اہل قلم بھی ہوتے ہیں جن
کی باتیں سماج سدھار کی ہوتی ہیں لیکن وہ بھی ایسی دعوتوں میں پیش پیش ہوتے ہیں
لوازمے کا یہ حال ہے کہ حلیم چونکہ اب آؤٹ آف ڈیٹ ہوگئی ہے تو مرگ ورومالی روٹی۔
اسپرنگ رولس۔ لقمی کباب۔ کئی اقسام کی چکن کی ڈشس اور ورقی پراٹھے۔ فرائیڈ فش۔
بوٹی کباب۔ کڑھائی گوشت۔ کبھی دل کبھی گردوں کی وضع قطع کی نان۔ دو قسم کی بریانی تین
قسم کے میٹھے معہ آئسکریم۔ اتنی ساری چیزیں رکھنے کے لئے ٹیبل بھی تنگ دامنی کا
اظہار کرتا ہے باوجود ایک کے بعد ایک ڈش سپلائی کرنے کے اکثر بیروں کو مشقاب
ہاتھوں میں تھامے انتظار کرنا پڑتا ہے جب میزوں پر اتنی چیزوں کے لئے جگہ نہ ہو تو
پھر کمبخت مسلمانوں کے پیٹ میں اتنی جگہ کہاں سے آگئی کہ یہ سب کھا بھی لیتے ہیں
اور ماشاءاللہ ہضم بھی کرلیتے ہیں۔ عموماً ہندوستان کے عام مسلمانوں کی پس ماندگی
وغربت پر واویلا مچایا جاتا ہے ایسی تقاریب کو دیکھ کر غیر مسلم لوگ حیران ہوجاتے ہیں
کہ ان مسلمانوں کی جیب میں اتنا پیسہ کہاں سے بھر گیا کہ اس بےدردی سے جھوٹی آن
بان وشان کا مظاہرہ ہو رہاہے ان تعیشات میں غلطاں رہنے والو.... کےا ہم ہماری
پچھلی نسل کی بربادی کے چشم دےد گواہ نہیں ہیں....؟ ہمارا وہ دور ختم ہوگیا جب
مغلوں ونظام کا دورِ حکومت تھا۔ حیدرآباد دکن کے گلی کوچوں مدرسوں میں دعا گونجا
کرتی کہ ۔
تا ابد خالق عالم میں ریاست رکھے
تجھ کو عثمان بصد جلال سلامت رکھے
لیکن نہ ریاست رہی نہ جلال رہا سب کچھ نیست ونابود ہوگیا اور اب صرف
جلی ہوئی رسی کا بل رہ گیا ہے۔ یہ بل بھی کچھ ڈالر.... کچھ پونڈ کچھ ریالوں کا
بھرم ہے تو کہیں باپ دادا کا چھوڑا ہوا بزنس یا جائیدادوں کا زعم ہے۔ کہیں کہیں
مسلمانوں میں بھی اب سود۔ شراب۔ نشیلی اودیات کا نمبر دو کی کمائی کا رجحان بڑھتا
جارہا ہے۔ بناءمحنت کی کمائی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ
کس بےدردی سے پیسہ خرچ ہو رہا ہے جو خون پسینے کی کمائی سے پیسہ کماتا ہے اسے ایک ایک
روپیہ عزیز ہوتا ہے۔ وہ فضول خرچی یا شان وشوکت کی نمائش نہیں کرتا۔ جو صحیح معنوں
میں شریف النفس ۔ تعلیم یافتہ۔ سلجھے ہوئے ماحول میں پرورش پاکر اپنے بل بوتے پر
ترقی کرتا ہے وہ اس طرح کم ظرفی کا تماشہ نہیں کرتا۔ ایک طرف امارت ہوتی ہے تو
دوسری طرف عبدل میاں کے گھر جیسی غربت ہوتی ہے جن کی بیٹی سسکیوں کے درمیان وداع
ہو رہی تھی گھونگھٹ کے کونے میں بندھے ”گود“ کے وزن سے اس کا گھونگھٹ سرک سرک
جارہا تھا اس گود میں کھوپرے کی دو بٹیوں کے درمیان مٹھی بھر چاول دو چھوارے سوا روپیہ
بندھا تھا ایسا ہی گود لال کپڑے میں باندھ کر دولہا کی کمر سے کس دیا گیا تھا۔ سفید
پائجامہ اور گلابی پالیسٹر کی قمیض۔ سر پر جناح کیپ ہاتھ میں نظر بد سے بچانے والا
چاقو پکڑے سب کو سلام کرتے ہوئے دولہا میاں دولہن کا ہاتھ تھامے ریت کی خالی لاری
کی طرف بڑھ رہے تھے جس میں بارات آئی تھی اور اب معہ دولہن وجہیز کے لوٹ رہی تھی۔
دولہا میاں ڈرائیور کے بازو کیبن میں بیٹھ گئے دولہن کو اس کے ماموں نے گود میں
اٹھا کر لاری میں سوار کردیا تمام باراتی بھی جب لاری کے پچھلے حصے میں سوار ہوگئے
تو پچھلے تختے کو بند کر کے تھپتھپاتے ہوئے کلینر نے زور سے .... رائٹ .... رائٹ
کی ہانک لگانی شروع کی۔ ڈرائیور نے لاری اسٹارٹ کی اور میں دست بدعا ہوگئی کہ....
”اللہ سب کچھ اس دولہن کی زندگی میں رائٹ ہی رائٹ ہو.... کوئی ساڑی یا ڈوپٹہ اس کی
نازک گردن کا پھندنہ بنے .... کوئی اسٹو نہ پھٹے.... کوئی زہر بہ نام دواغلطی سے
نہ پی لے.... کوئی ہیٹر لگی بکیٹ کے پانی میں ہاتھ نہ پڑے.... اے پروردگار اس
معصوم دولہن کو اپنے حفظ وامان میں رکھیو.... آمین“۔
آگیا ہے وقت اس شب کی سحر پیدا کریں
متحد ہو کر جہانِ معتبر پیدا کریں....!
راہزن کو چھوڑ کر ہم راہبر پیدا کریں
جو ہو پابند محبت وہ نظر پیدا کریں
دشمنوں نے جو بنائے ہیں گھروندے توڑدیں
آؤ سب مل کر زمانے کی کلائی موڑدیں
کنور مہندر سنگھ بیدی سحر