Friday, December 25, 2020

انتظار ۔نفیسہ خان

کہتے ہیں لوگ موت سے بدتر ہے انتظار میری تمام عمر کٹی انتظار میں....!! یوں سننے میں یہ لفظ کتنا پیارا سا لگتا ہے لیکن اس میں سموئے گئے کرب کے لمحوں کووہی جان سکتا ہے جواس کیفیت سے گذرتا ہے اورکوئی اس کی چبھن سے بے نیاز ہوممکن ہی نہیں۔ ہرکسی کی زندگی میں ان لمحوں کی کسک ضرور ہوتی ہے نہ صرف بنی نوع انسان بلکہ چرند پرند بھی ہرروز اس سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ دن بھرجنگلوں میں چھپے رہنے والے جنگلی جانوروں کوتک انتظار ہے تاریکی پھیلنے کا تا کہ پیٹ کا دوزخ بھرسکیں۔ ادھر گھونسلوں میں بال وپر سے بے نیاز ننھے منے بچے بھی ماں کی چونچ میں بھرلانے والے منتظرہوتے ہیں گویا یہ کسی ایک فرد کی زندگی کا ناسورنہیں بلکہ بیشمار سسکتے لمحوں کی زندہ ان مٹ حقیقت ہے۔ شعور کی سرحدوں کوپہنچنے تک ہرفرد کا اپنا ایک زاویہ نگاہ بن جاتا ہے۔ اس کا ایک خواب ہوتا ہے جسے وہ تعبیر کی صورت میں عملی جامہ پہناناچاہتا ہے جس کے انتظار میں وہ اپنی عمرعزیز کے قیمتی سال گذارتا جاتا ہے لیکن انتظار کی مدت طویل ہوتی جاتی ہے جب کہ عمر گھٹ کرمختصر ہونے لگتی ہے خوشیوں کے سبک لمحے دبے پاو ¿ں گذرجاتے ہیں جب کہ انتظار کی گھڑیاں منجمد ہوجاتی ہیں۔ خوشگوار انتظار کی ابتداءتواسی لمحے سے شروع ہوجاتی ہے جب کہ تخلیق انسان کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ ایک قطرہ خون کوگوشت پوست کا روپ دھارنے کے لئے نومہینے انتظارکرنا پڑتا ہے خوشیوں بھری یہ سوغات جب گود میں آجاتی ہے تواس کے پروان چڑھنے کاانتظار کہ کب لخت جگر بڑے ہوجائیں کہ ان کی اپنی ضروریات کی وہ خود تکمیل کرسکیں۔ آج کل کی ماو ¿ں کوبچوں کے شروع کے تین سال تیس سال جیسے لگتے ہیں۔ ایک ایک دن انگلیوں پرگنتی ہیں کہ کب وہ نرسری اسکول جانے کے قابل ہوں گے اورکب انہیں سکون کی سانس لینا نصیب ہوگا لیکن ماں کی ممتا ہے اسکول میں بچوں کوچھوڑکرکام نبٹایا نہیں کہ ان کی واپسی کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ جن کی شرارتوں سے بیزار ونالاں ہوکر ہزاروں روپئے فیس بھرکرنرسری میں چھوڑآئی ہیں ان کے انتظار میں قدم دہلیز تک جا جا کرلوٹتے رہتے ہیں اورابھی تعلیم کی داغ بیل پڑی نہیں کہ ابتداءمیں انتہا دیکھنے کا انتظار .... ان کی پڑھائی مکمل ہونے کا انتظار.... امتحان لکھو توریزلٹ کا انتظار .... ریزلٹ آجائے توکالج میں سیٹ ملنے کا انتظار....مستقبل کے اتنے لمبے چوڑے پلان کہ ہم ہتھیلی پرتھوڑی جمائے ان کی عالمانہ گفتگو سنتے رہتے ہیں کیونکہ ہم نے ہمارے ماں باپ کو ہمارے مستقبل کے بارے میں اتنے رنگین خواب بنتے ہوئے نہ کبھی دیکھا نہ دوسروں کی اولاد سے اس طرح مقابلہ ومسابقت کرتے پایا۔ وہ توکہتے رہے کہ یہ ماہانہ آمدنی ہے.... یہ خرچ ہے....یہ بچت ہے۔ اس میں ضروریات زندگی وتعلیم کی تکمیل ہونی ہے شادیاں کرنی ہیں۔ نہ لمبی چوڑی جہیز کی فہرستیں نہ مطالبے۔ لیکن اب تومسابقت کا دور ہے ستیاناس ہواس مسابقت کا جہاں نیکی شرافت.... ایمانداری.... اخلاق کے میدان میں مسابقت نہیں ہوتی بلکہ اعلیٰ معیار زندگی کی دوڑمیں بھاگے جارہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس کی کوئی منزل نہیں ہے.... دوڑتے دوڑتے یاتوتھک کربیٹھ جاو ¿ یا منہ کے بل گرپڑو.... ہردوصورتوں میں سوائے تھکن بیزاری اورمدعا حاصل نہ ہونے کا احساس دل میں گھرکرتا جاتا ہے۔ جھلاہٹ بڑھتی جاتی ہے۔ چند روزہ حیات جہاں چھوٹی موٹی خوشیوں سے لطف لینے میں گذاری جاسکتی ہے وہ بھی زیادہ سے زیادہ پانے کی تمنا میں مایوسی کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایک گرہستن خاتون کی آنکھ تواذاں سے پہلے ہی کھل جاتی ہے سجدوں سے فراغت پائی کہ پوپھپٹے سے پہلے دودھ کی پیکٹ کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ وہ آجائے تواخبار ”سیاست“ کا انتظار خواہ کوئی دوسرا انگریزی یا تلگواخبار پڑھ لیں لیکن جس طرح چائے سگریٹ زردہ کے عادی لوگ اپنے خاص برانڈ ہی کی چیزں کے طالب ہوتے ہیں اوران کے بغیر بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بھی اس ”سیاست“ سے ایسی وابستگی ہے کہ اسے پڑھے بناءہماری تشفی نہیں ہوتی.... اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے کام والی کا انتظار.... وہ بھی سواندیشوں اوروسوسوں کے درمیان شدومد سے شروع ہونے لگتا ہے کہ پتہ نہیں وہ آج کام پرآئے گی بھی کہ کوئی بہانا بنا کرپٹ ماردے گی۔.... واش بیسن میں پڑے جھوٹے برتن دیکھ دیکھ کر دل ہول کھانے لگتا ہے۔ باربار کام والی کا ہیولیٰ دیدہ نمناک میں لہراتا رہتا ہے اورسانس کی طرح سے آتا جاتا رہتا ہے۔ اس وقت تک دل کی بیقراری کوقرار نہیں آتا جب تک کہ ہماری منتظرنظریں کام والی کوگھر میں داخل ہوتا ہوا نہ دیکھ لیں.... یہ توتھا صبح صادق کی اولین ساعتوں کا انتظار کا اختتام.... اس کے بعد شروع ہوتا ہے دوسرا مرحلہ جس میں صدر خاندان اوربچوں کے جاگنے کا انتظار شامل ہے یہ انتظارتاقیامت ختم نہ ہو اگرآپ پہلے پیارومحبت سے پھرباآواز بلند اوربعد میں صبر کا پیمانہ چھلک جانے پران پریلغار نہ کردیں۔ کیونکہ ایک عورت ہوکر پیدا ہونا اوربیوی بن کر گھر کی پوری ذمے داری بحسن وخوبی انجام دینا گناہ عظیم ہوگیا۔ ہرکوئی اپنے اپنے فرض سے ناآشنا.... لاعلم.... بلکہ لاپرواہ ہے کہ جس محترمہ نے خوشی خوشی گرہستی کا بوجھ پنے شانوں پراٹھانے کی حامی بھری ہے تواسی کوجھیلنا ہے چائے ناشتے پانی کا انتظام کرنا ہے.... بچوں کے ٹفن باکس.... واٹرباٹلس.... کتابوں کے ضخیم بیاگس جماتے جماتے اسکول ویان کے انتظار میں ہلکان ہونا ہے.... اس روزمرہ کی دھاپوش سے نبردآزما ہوکر گھڑی پرنظرپڑتی ہے توساڑھے آٹھ بج چکے ہوتے ہیں جب کہ خود اپنی ڈیوٹی پرپہنچنے کا وقت آتا جارہا ہے۔ ابھی بکھرے بستر.... بکھرے برتنوں کوسمیٹنا باقی ہے.... میلے کپڑوں کومیلے دان تک پہنچانا ہے جہاں بیشمار کپڑے دھوبی کا انتظار کررہے ہیں۔ ان تمام کاموں کونبٹا کرگرہستن بیبیاں جب اپنے دفتر.... کالج یا اسکول پہنچتی ہیں توہائے.... کوئی ان کی سج دھج دیکھے.... کچھ دیر پہلے سرجھاڑمنہ پھاڑ ہونقی صورتیں لئے بولائی.... بوکھلائی.... پھر کی کی طرح پھرنے والی یہ خواتین پورے اعتماد وبھروسہ کے ساتھ اپنی دھلی دھلائی کلف دارساڑیوں یا خوبصورت شلوار سوٹس میں.... ہلکے سے میک اپ کے ساتھ اپنے شانوں سے پرس لٹکائے پھولوں جیسی تروتازہ لگتی ہیں۔ جب اپنی کرسی پربراجمان ہوجاتی ہیں اورماتحتین باادب آکر کھڑے ہوجاتے ہیں توایک فاتحانہ مسکراہٹ ان کے لبوں پرکھیل جاتی ہے۔ وہ اپنے فرض کی انجام دہی میں بخالت ولاپرواہی نہیں کرتیں اپنے کام میں ڈوب جاتی ہیں۔ لیکن دماغ کے کسی کونے میں شام کا انتظام ہے کہ گھر پہنچ کر بہت سے ادھورے کام پورے کرنے ہیں۔ اماں کوہلکی سی حرارت تھی ان کے لئے دوائی لے کر جانا ۔ بچوں نے آج noodles بناکر رکھنے کی تاکید کی ہے.... میاں کے دوست رات کے کھانے پرمدعو ہیں اس کی تیاری کرنا ہے۔ اللہ اللہ تھکے تھکائے گھرپہنچنے شوہر اوربچوں کا انتظار کرنے لگے.... بچے بیچارے توایک خاص عمر تک اپنے بندھے بندھائے وقت پرضرورآجاتے ہیں لیکن شوہر نامدار کا آفس سے گھرآنے کا خاص وقت مقرر ہوتوپھردوستوں کی محفلوں کا کلب سے لوٹنے کا وقت کوئی مائی کا لال.... یا باپ کی بیٹی ہرگزمقرر کرہی نہیں سکتی کیونکہ شوہرکے انتظارمیں پلکیں بچھائے بیٹھنا اسے کھانا گرم کرکے دینا بیوی کی اطاعت فرمانبرداری وفرائض میں شامل ہے جب کہ کسی برہن کا اپنے محبوب کے انتظار میں نہ صرف دن رات بلکہ عمر گنوادینا بے شرمی وگستاخی ہی نہیں بلکہ پاگل پن ودیوانگی ہے۔ حالانکہ بقول منوررانا۔ع تمام عمر کو آنکھیں بنا کے راہ تکو تمام کھیل محبت میں انتظار کا ہے گھروالوںکوکمائی پوت خاتون کی تنخواہ کا مہینے کی پہلی تاریخ کوشدید انتظار رہتا ہے لیکن خاتون کے توروزشام میں جملہ افراد خاندان منتظررہتے ہیں کہ وہ کب کام سے لوٹے اورکب گرم گرم چائے یا کافی ملے۔ ہمیں جہاں لڑکوںکے جلد سے جلد بڑے اوربرسرروزگارہونے کا انتظار ہوتا ہے وہیں دیکھتے ہی دیکھتے منڈوے پرچڑھ جانے والی بیلوں جیسی بیٹیوں کودیکھ کر دل بیٹھتا جاتا ہے تعلیم کی تکمیل کے بعد عزت وآبروکے ساتھ ان کے ہاتھ پیلے کردینے کا نہ صرف ارمان ہوتا ہے بلکہ ایک ایسے داماد کاانتظار شروع ہوجاتا ہے جوہرطرح سے بیٹی کوخوش رکھ سکے۔ ماں باپ کی نیکی اوربیٹی کی خوش قسمتی معجزہ دکھائیں تووہ دن آہی جاتا ہے جب لڑکیوں کے خوابوں کے شہزادوں کا انتظار ختم ہوجاتا ہے اوربیٹیاں ہنسی خوشی اپنے اپنے شریک حیات کے ساتھ وداع کردی جاتی ہیں۔ وہ سسرال سدھاریں تواب ان کے فون کا انتظار.... صرف ان کی خیرخبروخط کے لئے پوسٹ میان کا انتظار نہیں ہوتا بلکہ مبارک خبرسننے کے لئے بھی کان منتظررہتے ہیں اورخط لکھیں توجواب کا انتظار تورہے گا ہی نا....؟ اس لئے۔ع خط لکھ کے اور جان مصیبت میں ڈال لی اب روز انتظار رہے گا جواب کا....!! ادھر بوڑھے ماں باپ جن کے لخت جگر ہزاروں میل دورہیں اوربینائی کی لودن بہ دن دھیمی پڑتی جارہی ہے انہیں انتظار ہے اس دن کا جب کمزورناتواں وجود کو وہ آکر سمیٹ لیں گے۔اپنے سینوں سے لگالیں گے.... لیکن۔ع نہ دل میں تاب نہ آنکھوں میں نور ہے لیکن وہی تڑپ ہے وہی انتظار باقی ہے گردش دوراں کوپیچھے ڈھکیلنا ممکن نہیں لیکن انتظار کی صعوبتوں کوجھیلتے ہوئے مہ وسال انتظار کی صلیب کندھوں پراٹھائے جی رہے ہیں۔ انتظار کے لمحے چین وسکون کے دشمن ہوتے ہیں۔ نہ صرف کٹھن بلکہ صبر آزما اورکبھی کبھی جان لیوا بھی ہوجاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں فرصت تھی کہ بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے۔ ہردیوان یا مجموعہ کلام کواٹھاکردیکھئے سینکڑوں اشعار معشوق کے انتظار کے جاں گسل لمحوں کے عکاس ہوتے ہیں.... وہ تو شعراءکی جوانی کی روداد بیان کرتے ہیں لیکن آج کل اہل حیدرآباد خواہ بوڑھے جوان بچے ہوں بناءلحاظ مردوزن اگرکسی انتظام کی تکلیف۔ کوفت وتڑپ سے گذررہے ہیں تووہ چیزیں ہیں.... پہلی.... ایک دن آڑ نلوں میں آنے والا پانی اوردوسری.... وقت بے وقت گھنٹوں بند ہوجانے والی بجلی کا پھر سے جلوہ گرہونے کا انتظار.... لفظ انتظارہماری زندگی کا ایک جزلاینفک کیوں بنا ہوا ہے....؟ ولادت کے لئے نوماہ تومقرر ہیں پرپروان چڑھتے چڑھتے کتنے قسم کے انتطار کی سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ کہاں کہاں.... کن مقامات پرانتظار کے کٹھن مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے یہ ہمارے دل داغ داغ سے پوچھئے.... آٹو.... بس.... ریل.... ہوائی جہاز کی آمد کا انتظار توہرشہری کا نصیب ہے۔ سرکاری دواخانوں کی لمبی قطاروںمیں انتظار کے جان لیوا مرحلوں سے بچنے کے لئے ہم نے مہنگے سے مہنگے خانگی دواخانوں کا رخ کیا لیکن یہاں بھی تواس عذاب سے نہ چھٹکارا پاسکے۔ اپنی باری کا انتظارکرنا ہی پڑا.... ڈاکٹر صاحب اورباری بھی آئی توچھوٹی سی بیماری کے لئے بھی ڈاکٹروں نے اتنی لمبی چوڑی مختلف قسم کے معائنوں .... ایکسرے.... اسکیاننگ وغیرہ کی فہرست بنائی گویا چھوٹی سی خطا کی بہت بڑی سزاءتجویز کی گئی ہو.... اس فہرست کودیکھ کرجو مریض چلتا ہوا دواخانے تک جاتا ہے وہ رپوٹس کے انتظار میں فریش ہوجاتا ہے اوراگر رپورٹ آنے میں تاخیر ہوتوبسترکولگ جانے والا یہ مریض گورتک پہنچ جاتا ہے.... بس یہیں وہ جھجھک جاتا ہے.... ٹھٹھک کررک جاتا ہے کیونکہ اسے ملک الموت کا انتظار نہیں ہوتا.... اس لئے کہ موت سے ڈرتا ہے۔ ہرمعاملے میں بشر آگے ہی آگے بڑھنا چاہتا ہے لیکن عمر آگے بڑھتی ہے تووہ پریشان ہوجاتا ہے بڑھتی عمر کا باعث ہے پھر بھی آخری آرام گاہ یعنی قبر کی پرسکون خاموشی کا نہ متلاشی ہے نہ منتظر.... حالانکہ یہ وہ مقام آخر ہے جہاں پردکھ درد ومسائل سے نجات مل جاتی ہے۔ پرجینا چاہتا ہے کیونکہ قبرکی تاریکی سے خائف ہے خوفزدہ ہے.... زندگی پربھی خوف وہراس اورنامناسب حالات کے اندھیارے چھائے ہوئے ہیں لیکن روشن مستقبل کا انتظار ہے کہ۔۔ع پھر رات نہ آئے زندگی میں اس دن کا ہے انتظار کب سے

Tuesday, December 22, 2020

تہی دامن ۔Tahi Daaman

تہی دامن نفیسہ خان کچھ ایسے کم نصیب بھی ہیں اس جہاں میں پیاسے کھڑے ہوئے ہیں سمندر کے آس پاس پروین نے شادی سے گھرلوٹ کراپنے کمرے میں قدم رکھا تواس کی جھلملاتی ساڑی کے پلوکا عکس الماری میں لگے قدم آئینے میں چمک اٹھا اس کی نظریں بے ساختہ آئینے پراٹھ گئیں جہاں اس ساڑی میں لپٹا اس کا سراپا تھا ناقدانہ انداز سے اپنے سراپا کا جائزہ لینے لگی۔ دبلا پتلا لیکن متنا سب جسم وقد۔ نہ اس کا شمار حسین وخوبصورتوں کی فہرست میں نہ بدصورتوں کے شمار میں۔ کھلتا ہوا گندمی رنگ۔ ناک نقشہ بھی قابل قبول تھا۔ بال کافی گھنے اورجھولتے ہوئے تھے جودوچوٹیوں کی منزل سے گذرکرایک چوٹی اورپھربڑھتی عمر کے ساتھ خضاب کے محتارج ہوکر اب ایک ہیرکلپ کی گرفت میں آگئے تھے جوانہیں سلیقے سے باندھے رکھنے میں مددگار ثابت ہورہا تھا ورنہ اس کے بال بھی اس کی زندگی کے شیرازہ کی طرح بکھرجاتے۔ لیکن اس کی زندگی بکھری کہاں ہے....؟ خود کوسمیٹتے سمیٹتے اب وہ اس مقام پرآگئی ہے کہ جہاں اس کے اپنے وجود کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچا ہے۔ یہ بہن جسے وادع کرکے وہ گھر لوٹی ہے آج پچیس سال سے ان دونوں کا ساتھ تھا آج وہ بھی اپنی سسرال سدھارگئی ہے اس تمام عرصے میں اس کا اپنی بڑی بہن کے کمرے اس کے پلنگ اس کے کپڑوں اس کے زیوراس کے دکھ سکھ میں ساجھا تھا۔ پروین نے سونے ڈبل بیڈ پرنظرکی جہاں اس کی چھوٹی بہن ٹیڑھی میڑھی توکبھی ہاتھ پیر پھیلائے بے خبر سویا کرتی اوراس کی بڑھتی عمر کودیکھ دیکھ کر پروین کی نیند اڑجایا کرتی کہ کہیں اسی کی طرح اس کی بہن بھی شادی کی عمر کے اس دور سے نہ گذرجائے جس کے بعد لڑکیوں کی شادی ایک پریشان کن مسئلہ بن جاتی ہے اورگذرتا وقت مہینوں سالوں میں تبدیل ہوتا جاتا ہے اوربے خواب راتوں کا آغاز شروع ہوجاتا ہے جس کاسلسلہ مایوسیوں پرجاکر ختم ہوجاتا ہے۔ پروین نے اپنی دونوں بہنوں کی شادی کے لئے کوششوں کا آغاز اسی دن سے شروع کردیا تھا جب انہوں نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرلیا تھا کیونکہ ماں نے اس وقت اس جہان فانی سے کوچ کیا تھا جب کہ لڑکیوں کوماں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ماں کی ناگہانی موت کے بعد گھرسنسار کی ساری ذمے داریاں اچانک اس کے کمزورکاندھوں پرآن پڑیں تھیں جب کہ ان دنوں اس کا مقصد حیات تھا توبس یہی کہ اعلیٰ تعلیم اوربڑی چوڑی ڈگریاں حاصل کرے۔ ہرمقابلے کے امتحان میں شریک ہوہراس انٹرویو میں شرکت کرے جواسے اچھی سے اچھی نوکری کی ضمانت دے سکے تا کہ گھر کے کمزورمعاشی موقف کوبہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکے۔ شان سے سراٹھا کرسماج میں جینے کا ارمان تھا۔ ماں کی اچانک موت کے صدمے کواس نے بڑے حوصلے کے ساتھ برداشت کیا اوراپنی دونوں بہنوں وبھائی کے لئے وہ جگہ لے لی جواس کی ماں نے خالی کردی تھی۔ باپ ٹوٹ سا گیا تھا کہ مرنا چاہئے تھا اسے جوپچھلے پانچ سال سے مختلف بیماریوں سے بدحال ہوگیا تھا لیکن قدرت کا کھیل کہ تیماردار بیوی آنا فانا چل بسی اوروہ ان بیماریوں وذمے داریوں کے ساتھ دکھ جھیلنے زندہ رہ گیا۔ لیکن پروین ایک مرد آہن کی طرح ڈٹ کران آلام کا مقابلہ کرنے کا عزم کرچکی تھی۔ ایک فرض شناس مرد کی طرح خاندان کی کفالت وذمے داریوں کونبھانے کے فیصلے نے اس کی زندگی کا رخ پلٹ دیا تھا ایک اچھی سرکاری نوکری نے اسے دفتر کی کرسی پرلابٹھایا توبس وہ بیٹھی ہی رہ گئی جب کہ اس کے ساتھ کی تمام لڑکیاں ایک ایک کرکے اٹھتی گئیں اپنے گھر بارسے لگ گئیں لیکن باپ بھائی بہنوں نے پروین جیسی سونے کی چڑیاں کے آشیانے کوبنانے کا خیال دل وماغ سے جھٹک دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ کوئی رشتہ کوئی پیام آبھی گیا توگھربھرکے افراد کے چہرے پرہوائیاں اڑنے لگیں سب سے پہلے باپ ہی ٹال جاتا کہ ابھی وہ بیٹیوں کی شادی کے موقف میں نہیں ہے کسی نے پروین سے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کیا چاہتی ہے....؟ حالانکہ بہنوں کے دل کا حال ایک دوسرے پرروز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے لیکن سب نے پروین کی زندگی کے اس پہلو کوتاریکی میں رکھنے میں عافیت سمجھی۔ ورنہ باپ کا وظیفہ مہینے بھرکے راشن کی بھی بھرپائی نہ کرسکتا تھا۔ پروین کی تنخواہ گھر کی گاڑی چلانے کے لئے پروین سے زیادہ ضروری تھی۔ پروین اپنی دونوں بہنوں کوڈگریوں کے حصول کی دوڑمیں شامل کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ جلد سے جلد ازدواجی بندھن میں بندھ جائیں جب کہ لوگوں کی غلط سوچ نے اس پرانا پرستی وخود غرضی کاالزام لگایا کہ وہ اپنی طرح اپنی بہنوں کواعلی تعلیم وعہدوں سے آراستہ کرنا نہیں چاہتی بس کسی طرح انہیں گھر سے باہر ڈھکیلنے کی چکرمیں ہے۔ لیکن وہ دودھ کی جلی چھانچ بھی پھونک پھونک کرپینے کی عادی ہوچکی تھی اس سے زیادہ اس حقیقت کوکون جان سکتا تھا کہ تعلیم۔ عہدے۔ خود مکتفی زندگی کا بھرم سب کچھ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب مستقبل کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک لڑکی کوچاہ ہوتی ہے اپنے گھر کی جہاں وہ دلہن بن کرجائے اوربیوی وماں بن کراپنی نسوانیت کی تکمیل کرے۔ اپنے آفس کے الگ تھلگ کمرے میں تنہا بیٹھی اکثر اس کے خیالات کی کشتی تصورات کے لامحدود سمندر میں ہچکولے کھایا کرتی.... فون کی گھنٹی بج اٹھتی تواس کا دل کہتا کاش یہ کسی اورکا فون ہوتا جواپنے آفس میں بیٹھے بیٹھے اس کی خیر خبر لے لیا کرتا ہے کہ کام کے دوران بھی بیوی کی محبت فائیلوں پرحاوی ہوتی ہے اورفون کے دوسری طرف سے آواز آرہی ہے کہ....” کیا ہورہا ہے جان!! بہت مصروف ہوبہت تھک گئی ہو....؟ دیکھو ایسا کرتے ہیں کہ آج اپنے ٹفن باکس کے حوالے کرکے ہم قریب کی کسی ہوٹل میں کھانے چلتے ہیں۔ کام جلد نبٹا کر میراانتظار کرنا۔ لنچ انٹرول میں تمہیں لینے آجاؤں گا“۔ محبت کی چاشنی میں ڈوبے الفاظ کی حلاوت اورچہرے پرپھیلی مسکان اس وقت یکلخت غائب ہوجاتی جب مسلسل بجنے والی فون کی گھنٹی رکنے کا نام نہ لیتی اورچپراسی دھڑام سے دروازہ کھول کراندرآجاتا کہ شاید میڈم اپنی کرسی پرنہ ہوں۔ لیکن میڈم تواپنی جگہ پرساکت سی بیٹھی سوچوں میں گم ہوتی.... وہ اپنے بارے میں کم اوربہنوں بھائی کے بارے میں زیادہ سوچتی.... بہن کی شادی پرشارجہ سے بھائی نے پچیس ہزار کا ڈرافت بھیج کر خون لگا کرشہیدوں کی فہرست میں شامل ہونے کی مقدورکی تھی جب کہ شادی کے اخراجات باوجود انتہائی ہاتھ روکنے کے تین لاکھ سے تجاوز کرگئے تھے۔ جوڑے کی رقم کااندازہ پچاس ہزار تھا لیکن بھاو تول کے بعد نرخ ایک لاکھ ٹہرا تھا۔ پروین نے حامی بھرلی کہ کہیں برسرروزگار شریف لڑکا ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ صاحبزادے اب تک بسوں میں دھکے کھاتے رہے تھے شادی کے بعد بھی مزید ان دھکوں کوبرداشت کرنے کی ان میں تا ب نہ تھی۔ اس لئے سسرال سے ہیروہونڈا کامطالبہ جائز تھا۔ فرج۔ ٹی وی۔ وی سی آر۔ واشنگ مشین۔ فرنیچر۔ کے نام پرڈائنگ ٹیبل۔ صوفہ سیٹ۔ شوکیس۔ ڈریسنگ ٹیبل۔ میلے دان۔ پھربرتن کراکری سب بڑی بہوکا لایا ہوا ہے اس لئے اس میں چھوٹے کی ساجھے داری معیوب بات ہوتی اوربڑی بہوکے سامنے چھوٹی کی ناک نیچی نہ ہواس لئے ان سب چیزوں کی مانگ بجاتھی اس کے علاوہ پچاس جوڑے کپڑے اورپندرہ بیس تولے سونا چاندی وغیرہ وغیرہ توہرکوئی اپنی بیٹی کے استعمال کودیتا ہی ہے اس لئے پس وپیش نہیں ہونا چاہئے تھا آخر کوبنے گی دولہن ہی.... اورچونکہ ہم امت محمدیہ سے ہیں اس لئے مہرشرعی ہوگا یہ تولازم ہے۔ ہربات کوپروین قبول کرتی گئی تھی کہ اس کے دل میں وسوسوں وخوف نے گھرکرلیا تھا کہ کہیں بات نہ ٹوٹ جائے اسی طرح مانگ مانگ میں ہاتھ روک لے گی تو اس کی بہن دلہن نہ بن پائے گی وہ سو چتی کہ اخباروں میں صفحے کالے کرنے والے نوجوان جو بحث مباحثوں میں جہیز نہ لینے کی قسمیں کھانے میں ان دنوں اپنا ثانی نہیں رکھتے اپنا نام پتہ۔ تعلیم ونوکری کے بارے میں اخبار میں تفصیل کیوں نہیں دیتے کہ لڑکیوں والے راست ان سے رابطہ قائم کرسکیں اوربغیر کسی حیل وحجت کے سہولت سے چند گھنٹوں میں نکاح وشادی کی تقریب کا اہتمام واختتام ہوجاتا اورنئی زندگیوں کا خوشی خوشی آغاز بھی ہوجاتا۔ یہاں اپنی پندرہ سولہ سال کی کل کمائی اس نے بہنوں وبھائی کی تعلیم پر۔ بھائی کے حصول وروزگار کی خاطر ویزا حاصل کرنے پراوران تینوں کی شادیوںپرخرچ کردی تھی۔ بھائی کے قدم جم گئے تووہ بھی اپنی بیوی بچوں کوساتھ لے گیا کہ حیدرآباد میں رہ کربن بیاہی نند اوربیمارخسر کی خدمت وگھربار سنبھالنے کی ذمہ داری کا بوجھ اس کی بیوی روبینہ پرڈالنا زیادتی ہے۔ پروین نے بوجھل دل لیکن مسکان بھرے چہرے کے ساتھ ان کووداع کیا۔ رات کے پچھلے پہر جب وہ ایرپورٹ سے لوٹی تھی تواندھیرے میں اس کے پیر تلے اپنی روئی کے گالوں جیسے نرم گول گپے تین سالہ بھتیجے کا چھوڑا ہوا کھلوناکچلاگیا تھا اوروہ پھوٹ پھوٹ کررہ پڑی تھی۔ پچھلے دوسال سے وہ اس کے سینے سے لگ کرسویا کرتا تھا۔ اب اس کی آنکھوں کے سوتے سوکھ نہیں رہے تھے وہ کوئی معصوم بچی نہ تھی کہ پلاسٹک کا کھلونا ٹوٹنے پررورروکر جان ہلکان کرلیتی۔ دل کے جانے کتنے زخموں کورفوگری وہا ب تک کرتی رہی تھی لیکن اس دن ان سب کے ٹانکے ایک ایک کرکے ٹوٹ گئے تھے۔ بہن کی شادی کے موقعے پرڈرافٹ کے ساتھ بھائی نے ایک تسلی آمیز محبت بھرا خط بھی بہن کوبھیجا تھا....”آپا! ایک ایک کرکے تمام ذمے داریاں یوں سے آپ سبکدوش ہوچکی ہیں ماشاءاللہ سے آپ کی تنخواہ بھی معقول ہوگئی ہے۔ شوہر بچوں کا جھنجھٹ توآپ نے پالا ہی نہیں نہ ہماری طرح بیٹوں کی تعلیم کا خرچ نہ بیٹیوں کی شادی کی فکر.... آپ کوآفس سے گھربنانے کا قرض بھی مل جائے گا اس لئے اب آپ جھٹ پٹ ایک اچھا سا مکان بنالیجئے کیونکہ ہمارا ان تین چارچھوٹے کمروں والا مختصر سا مکان ہمارے حیدرآباد آنے پرمیری بیوی بچوں کے لئے ہی ناکافی ثابت ہوتا ہے اورروبینہ ہی رہ جاتی ہے کہ باہر سے لائے ہوئے سامان کوکہاں سجائے .... ؟“ پروین نے الفاظ کے اس وار کوبھی برداشت کرلیا کسی نے اندازہ بھی نہیں لگایا کہ گھاو ¿ کتنا گہرا ہے وہ یہ نہ پوچھ سکی کہ سالانہ لاکھوں کماکر جب بھائی کا موقف اتنا مستحکم ہے کہ وہ شاندار مکان تعمیر کرسکتا ہے توپھراس کی نظریں گھرپرکیوں ہیں....؟ پروین نے یہ خط باپ کوپڑھ کرسنایا تھا۔ باپ کی زبان گنگ اورآنکھیں اشکبار تھیں۔ نہ زبان سے کچھ کہا نہ قلم اٹھا کرمکان پروین کے احسانوں کے بدلے اس کے نام کرکے اس کے محفوظ مستقبل کی ضمانت دی۔ گھر میں کام کرنے والی بڑی بی نے بھی جھاڑولگاتے لگاتے ایک ایک لفظ سنا اوریوں ہوئیں کہ....”ہاں بی بی.... واسع میاں نے سچ ہی لکھا ہے باپ کی جائیداد کا حقدار توبیٹا ہی ہوتا ہے۔ تم توچار آنے حصے کی حقدار ہو....“ پروین نے آنسوو ¿ں کے گھونٹ کے ساتھ اس حقیقت کے زہرکوپی لیا۔ اسے تواپنی حیثیت ہی چار آنے کی لگ رہی تھی۔ لیکن کتنے سوال تھے جواس کے ذہن میں آندھی کی طرح شورمچارہے تھے۔ وہ اپنے آپ سے جواب طلب کررہی تھی کہ اس گھر میں اس خاندان باپ۔ بھائی، بہنوں کے لئے جو اس نے اتنی ساری قربانیاں دیں تواس کا احساس کسی کوکیوں نہیں ہوسکا۔ وہ توایک بیٹی تھی پرائے گھر کی امانت۔ پھراس امانت کولوٹانے کی فکر کسی اور کو دامنگیر کیوں نہیں ہوئی....؟ اس کی کمائی پراس کا اپنا حق تھا پھر اس میں اتنے حصے دارکیوں شامل ہوگئے۔ وہ تنہا فرض شناس اولاد کاکردار نبھاتی رہ گئی جب کہ اس کی زندگی سے وابستہ اس ناٹک کے تمام کردار ایک ایک کرکے اسٹیج چھوڑکرچلے گئے اب نہ توتماشہ ہے نہ تماشہ بین.... اس نے اپنی بیش بہا زندگی کے ماہ وسال بھائی بہنوں پر نچھاورکردیے کیا اس کا یہی صلہ تھا کہ وہ تنہا بہ تقدیر رہ جائے....؟ کیا یہ اس کی خطا اس کی تقصیر تھی جس کی سزاءجس کا خمیازہ بھگت رہی ہے کہ اب وہ اس چھت کی بھی حقدار نہیں جس کے تلے اس نے زندگی کی چالیس بہاریں گذاردیں بلکہ یوں کہئے کہ خزاں رسیدہ دن ورات اپنی سوچ کے دائروں کے محورکے گردگھومتے گذاردیں اورجن کے لئے یہ سب کچھ کیا وہ اتنے لاتعلق سے اپنے گھربسائے بیٹھے ہیں کہ بہن کا گھربسانے کا خیال تک انہیں نہیں آتا۔ الٹا اس تذکرہ پرایک تمسخرآمیز جملہ دوہرایا جاتا ہے کہ....” اب کون انہیں بیاہ لے جائے گا....؟پھر ان کے قابل کوئی ادھیڑعمر کا آدمی بھی توملے“.... باپ کویہ ہیبت کہ سچ مچ اگر کسی آفس والے نے پروین کی تگڑی تنخواہ کی لالچ میں اس سے شادی کرلی تواس کا خود کا کیا ہوگا کون خدمت کرے گا....؟ کون دواو ¿ں وڈاکٹروں کا خرچ برداشت کرے گا؟ دوسرے بہن کوتشویش کہ آپا نے اگر شادی کرلی تواس کی کفالت کون کرے گا....؟ کیونکہ اس کا شوہر ایک لاپرواہ قسم کا شخص تھا جوگھر میں کم اورباہر زیادہ رہتا تھا جانے کن کن برائیوں میں ملوث تھا کہ ہزاروں کا روپیہ بھی اس کی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہی کافی نہ ہوتا تھا توبھلا بیوی کی ہتھیلی پراپنی کمائی رکھنے کا سوال ہی کہاں اٹھتا تھا۔ بیوی کی قدر ومنزلت کا تو تصور ہی اس کے پاس نہ تھا بیوی کی توسط سے سالی کی چشم عنایت کا طلبگار رہتا۔ سال کے آٹھ مہینے وہ بہن ہی کی روٹیاں توڑا کرتا اورحق سمجھ کربڑے دھڑلے سے توڑتا.... بہن کا احسان سمجھ کرنہیں کہ آپا کی کمائی کھانے والا کوئی ان کا نام لیوا ہے بھی تونہیں۔ پروین اپنے آپ میں پیچ وتاب کھاتی رہ جاتی کہ وہی کیوں اتنا خود غرضانہ رویہ نہ اختیارکرسکی وہ بھی توعدیل سے شادی کرکے اپنی دنیا بسا سکتی تھی۔ عدیل اس کا آئیڈیل تھا اس نے بھی ہرہر طرح سے قدم پرپروین کوسہارا دیا تھا اس کی دلجوئی کی تھی پروین سے شاید وہ شادی بھی کرلیتا اگرپروین تذبذب کا شکار نہ ہوتی وہ شادی توکرنا چاہتی تھی پروقت ومدت کا وہ تعین نہ کرسکی پلوجھاڑ کرسب سے جدا ہونے کا تصور بھی وہ نہ کرسکی اورعدیل موہوم سی امید کے سہارے بیش بہا زندگی کوضائع کرنا عقلمندی نہیں سمجھتا تھا کیونکہ تخیل وحقیقت میں زمین وآسمان کا فرق تھا تصورجتنا پرکیف ہوتا ہے حقیقت کبھی اس کے برعکس ہوتی ہے اوروہ بہلاو ¿ں میں زندگی گذارنے کا قائل نہ تھا اس لئے کمائی پوت بیوی کا انتخاب کرچکا تھا جس کے ساتھ وہ ایک معیاری بھرپورزندگی گذارہا تھا۔ رات دن اپنی نظروں کے سامنے عدیل کودیکھ کراوراس کا اپنایا ہواگریز کا انداز پروین کے لئے سوہان روح بناہوا ہے اس کے باوجود اس نے اپنے آپ پرمکمل قابو رکھا ہوا ہے آرزوارمانوں کے انبوہ کثیر اس کے دردل پردستک دیا کرتے ہیں لیکن اس نے تمام دروازوں کومقفل کرلیا ہے کیونکہ اب کسی کی آمد کی امید نہیں اپنے خانہ خراب کی تنہا.... واحد.... آزردہ.... شکست خوردہ مکین وہ خود ہے اورساتھ میں اس کی زندگی سے وابستہ مہیب سناٹے اور دل کی وحشت کا یہ عالم ہے کہ تمام دیواریں ڈھا دینے پرآمادہ وبرسرپیکار.... مجردزندگی گذارنے پربظاہر لوگوں کے تجسس کا وہ منہ توڑجواب دیتی ہے کہ”کیا شادی وشوہر کے بناءکوئی عورت زندہ نہیں رہ سکتی وہ مردوں کی طرح کمارہی ہے خودمختار زندگی گذاررہی ہے کبھی شادی کی ضرورت محسوس ہوگی توشادی کربھی لے گی....“ ان الفاظ سے وہ دوسروں کولاجواب کردیتی ہے لیکن ان کھوکھلے الفاظ سے خود کودلاسہ دینے میں کامیاب نہیں ہوپاتی کہ گھرسنسارکا سکھ ہی کچھ اورہوتا ہے اپنے قدموں پرکھڑے رہ کرسراٹھا کرجینے کا سلیقہ اس نے سیکھ لیا ہے لیکن کامیابیوں سے ہمکنار ہوکر بھی محرومیوں کوفراموش نہیں کرپارہی ہے۔ بس ایک موہوم امید ایک دھندلی سی آس کہ شکستہ ٹوٹی پھوٹی بناءپتوار کی کشتیاں بھی توکبھی کنارے لگ ہی جاتی ہیں۔ اب اس نے کسی اورکے بارے میں سوچنا چھوڑدیا ہے اب اس کی زندگی کا عنوان وزینت اس کی خود کی ذات ہوکر رہ گئی ہے۔ ناگہاں وقوع پذیر ہونے والے حادثات زندگیوں کی بنیادیں ہلادیتے ہیں لیکن یہاں تواس کا ہرعمل سوچا سمجھا اورحالات کے لحاظ سے اس کی مرضی کے مطابق ڈھالیا گیا تھا تفکرات وحادثات اس کے قدموں کی دھول تھے لیکن اب مستقبل کی فکر نے اس پریلغار کردی ہے نہ وقت نے اس کا ساتھ دیا نہ اس نے وقت کے ساتھ چلنے کی کوشش کی کہ اپنے اصول جوعزیز تھے اسے.... آج اصولوں کی تلوار کی تیزدھارپرکھڑی وہ لہولہان ہورہی ہے اوردوردورتک کوئی مسیحا نظرنہیں آتا۔ آج اس کا مقصد ہستی کچھ بھی نہیں خود غرض رشتوں کے درمیان کھڑی وہ ہاتھ مل رہی ہے۔ اسے دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ کوئی گداگرکاسئہ مطالبات ہاتھ میں لئے کسی رہگذرپربیٹھا ہے کہ کوئی سخی حاتم اس کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں کچھ تھمادے لیکن جنہوں نے صرف لینا سیکھا ہے دنیا نہیں ان سے سخاوت کی امید بھی کیسی....؟ آج بھی وہ منتظر ہے ایک روشنی کی کرن کی جواس کی حیات پرتسلط جمائے اندھیروں کومٹا سکے۔ اس کی قربانیوں کا اجردے سکے۔ اس کے باپ کی زندگی کے گنے چنے دن ختم ہونے سے پہلے اسے اپنا ہم سفر بنالے اس کے مجروح شکستہ احساسات جذبات اورارمانوں کی خاموش چیخوں کوخوشیوں کے شادیانوں میں بدل دے وہ شاید دست بدعا ہے کہ۔ع تیرا یہ حکم مانگ.... ہر اک چیز مجھ سے مانگ میری دعا کہ دے ۔میرے پروردگار دے ٭

Tuesday, December 8, 2020

Taboot By Nafeesa Khan..تابوت از نفیسہ خان

تابوت

                                                                                                نفیسہ خان





میں لوٹنے کے ارادے سے جارہا ہوں مگر

سفر۔  سفر ہے۔  میرا  انتظار  مت  کرنا

اکرام شروع ہی سے ایک سنجیدہ مزاج ذہین طالب علم تھا جس کا سارا وقت کتابوں کے ساتھ پڑھائی میں گزرجاتا، انجینئرنگ ڈپلوما کرنے کے ساتھ ہی اسے ایک کمپنی میں اچھی نوکری مل گئی۔ چار سال تک وہ بڑی محنت سے اپنا کام کرتا رہا، کمپنی میں آفیسرس اوروہ خود اپنے کام سے پوری طرح مطمئن تھا کام پرجانے کے لئے کمپنی ہی کی بس وقت مقررہ پرلے جاتی اورگھر کے قریب چھوڑجاتی تھی۔ آرٹی سی بسوں کے انتظاراورپھر دھکے کھانے کی کبھی ضرورت نہ پڑی تھی صبح آٹھ بجے کا نکلا شام چھ بجے تک گھرلوٹ آتا۔ اپنے افراد خاندان اورچند گنے چنے مخصوص دوستوں کے ساتھ شام گزارنے کا وقت اسے مل جاتا، مطالعہ کے ذوق کی تکمیل بھی ہوجاتی لیکن نوکری کرتے ہوئے تین چارسال بھی نہیں ہوپائے تھے کہ اٹھتے بیٹھتے امی ابا نے دوسروں کے بیٹوں کے باہر جاکر خوب کمانے کا ذکر کرکرکے اس کا ناطقہ بند کرنا شروع کردیا تھا۔ بہنوں کی شادی کی بات نکلتی تواماں ٹھنڈی آہیں بھرنا شروع کردیتیں کہ باپ کے وظیفے کی قلیل رقم اوربیٹے کے آٹھ ہزار روپلی میں کیا خاک بہنوں کے ہاتھ پیلے ہوں گے چھوٹا بھائی ابھی اسکول میں ہے توبڑا بھائی کونسا ہاتھ پیر مار زیادہ آمدنی کے ذرائع ڈھونڈھنے کوشاں ہے بھلا۔ شام توبس آرام کرتے رہتے ہیں صاحبزادے صبح آٹھ تا شام چھ بجے یعنی دس گھنٹوں میں آٹھ گھنٹے سخت محنت اور دوگھنٹے کی مسافت کے بعد کیا چند گھنٹے اپنی ذات کے لئے مخصوص کرنے کا بھی اسے حق نہیں تھا۔؟ لیکن جب وہ پچیس سال کا ہوگیا اوربہنیں بھی بیس بائیس کی سرحد پھلانگنے لگیں جوڑے گھوڑے کی رقم وجہیز کی مانگ روز بروز بڑھتی ہی جانے لگی۔ ابا کے چہرے کی جھریاں گہری اوراماں کے ماتھے کی شکنیں بڑھنے لگیں اوررات دن ان کی بڑبڑاہٹ کی آواز اونچی ہوتی گئی۔ دونوں بہنوں کی گردنیں مایوسی شرمندگی اورناکردہ گناہوں کے بوجھ سے جھکنے لگیں تواسے اپنی حیثیت پست اورکمائی حقیر ہونے کا احساس ہونے لگا باوجود بھرے پرے خاندان ووطن عزیز میں زندگی بسرکرنے کی دلی تمنا کے اسے ماں باپ کے اصرار اورگھر کے معاشی موقف کومستحکم کرنے کے لے شہربدرہوکر سعودی عرب کے لئے رخت سفر باندھنا ہی پڑا۔ اسے مختصر ساکمرہ اپنے مطالعہ کی میز کرسی،اپنا چھوٹا سا ایکیوریم اس کے پانی کے بلبلوں کے درمیان تھرکتی مچلتی رنگ برنگی خوبصورت ننھی منی مچھلیاں بہت عزیز تھیں ان سب سے جدا ہوتے ہوئے اس کا دل تڑپ تڑپ گیا پھر اس نے دل کودلاسہ دے لیا کہ دوچار سال میں خوب کما کروہ لوٹ آہی جائے گا۔ سبھی اس کے فیصلے پرخوش تھے بجز دادی ماں کے اکرام کواپنے سینے سے بھینچے اپنی لوث محبت کا پرتوخدا کرے کہ ہربشر پرپڑے کہ بس ایک وہی تھیں جویہ نہیں چاہتی تھیں کہ اکرام گھرسے بے گھرہوجائے باقی سبھی کی آنکھیں باوجود نمناک ہونے کے مستقبل کے سنہرے سپنوں کے تصور سے چمک رہی تھیں۔

زندگی میں پہلی بار جب ہوائی جہاز میں وہ سوار ہوا تو اس کے ہمراہ صرف اداسیاں تھیں۔ خوفناک خیالات کے بگولے وسوسوں کا ہجوم چین وسکون برباد کررہے تھے۔ جب تمام مسافرین اپنی نشستوں پربیٹھ گئے اورآمد ورفت کے دروازے بند ہوگئے ہوئی جہاز رن وے پردوڑتا ہوا اچانک ہوا میں اٹھ گیا تواس نے محسوس کیا کہ اس کے پیر اس کی اپنی سرزمین سے اکھڑ گئے ہیں اوراب وہ اپنی مرضی کامالک نہیں بلکہ ہوا کے دوش پراڑنے والا سوکھا پتہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ بچوں کی طرح بھپک پڑا۔ بارباردستی سے وہ چہرہ چھپانے کی کوشش کرتا رہا تھا ساتھ والی سیٹ پربیٹھے دوسرے لڑکے نے آنسوو


¿ں سے تربہ تراس کا چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اس نے ہلکے سے اس کی کلائی پراپنا ہاتھ رکھ دیا تھا اس لمس نے ایک لمحے کے لئے احساس دیدیا کہ کوئی کہیں نہ کہیں دکھ درد سمجھنے وسمیٹنے اوربانٹنے والامل ہی جاتا ہے جب ان جیسے کئی نوجوان جدہ ایرپورٹ پراترے توہرچہرے اجنبی، ہرآواز بیگانی، زبان لب ولہجہ سب کچھ نہ صرف یہ کہ بدلا ہوا لگا بلکہ بے انتہا سپاٹ وکرخت سامحسوس ہوا۔ جان پہچان وملاقات نہ بھی ہوتوجب اجنبی نظریں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں توایک ہلکی مسکراہٹ ہی انسانیت واخلاق کے ناتے ہونٹوں پرعود کرآتی ہے لیکن اہل وطن کا احساس برتری ورعونیت بے وطن ہوکر آنے والوں کواحساس کمتری میں مبتلا کردینے کے لئے کافی تھے۔ یہ پہلا سبق اس سرزمین پرپہلا قدم رکھنے کے ساتھ ہی اسے مل گیا تھا اس وقت اس کی پچیس سال تھی اورپچھلے تیرہ سال سے وہ رات دن سخت محنت مشقت کرتا رہا تھا اس درمیان میں کتنی بار اس نے چاہا کہ وطن لوٹ جائے اسے اپنا شہراپنا محلہ اپنا گھر اپنے رشتہ دار، شادیوں ودیگر تقاریب کی یادستاتی رہتی ہرشادی کا رقعہ اس تک پہنچ کراس کی تڑپ کچھ اور بڑھادیتا، اس کے جدہ آنے کے بعد سے دوبہنوں کی شادی اورایک بھائی کی تعلیم کابوجھ جب بحسن خوبی اپنے کندھوں سے اتارچکا تواس نے وطن لوٹ آنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن اماں نے ہرماہ ان کی بیماریوں گھرکے بڑھتے اخراجات، بہنوں کی سسرال والوں کی لمبی فہرست اس کے سامنے رکھ دی۔ ایک دوسال میں اس نے اتنی رقم بھیج دی کہ ان مرحلوں سے گزرنا بھی آسان ہوگیا اورپھر ایک بار لوٹ آنے کی بات کی توگھر والوں کوپرانا آبائی گھر اس قابل نہیں لگنے لگا کہ اس میں رہا جاسکے اس لئے اکرام کے خون پسینے کی کمائی پراس مکان کی ازسرنوتعمیر شروع کرادی گئی لیکن گھر باپ کے نام پرہی رہا جس میں اس کے ساتھ کے بھائی بہنوں کا پورا حصہ اورحق ہونے کی طمانیت حاصل کرلی گئی۔ تعمیر کے اخراجات اتنے زیادہ ہوگئے کہ مزید کئی سالوں تک وہ وطن یا خود اپنے بارے میں بھی سونچنے کے قابل نہ رہا۔ نہ ماں باپ بہنوں بھائی کویہ احساس ہوا کہ ہزاروں روپے ماہانہ کماکر بھیجنے والے نوجوان کے جذبات کا پاس ولحاظ کیا جانا چاہئے۔ اس کی عمر پینتیس سال کی ہورہی تھی لیکن اس نے کبھی کسی چیز کی خواہش نہیں کی تھی نہ کسی نے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔؟ کیسے رہتا ہے۔؟ کیا کھاتا پکاتا ہے۔؟ کیسے گزرکررہا ہے۔؟ اس کے بے کیف دن ونیند سے محروم بے نشاط راتیں زندگی میں مزید کڑواہٹ گھول رہی تھیں کبھی دوسال بعد ایک آدھ ماہ کے لئے وطن جاتا بھی تواس سے رہن سہن کے بارے میں سوالات پوچھے ضرورجاتے ہیں لیکن ان میں کوئی فکر نہیں جھلکتی۔ کوئی اپنائیت پیار نہیں ہوتا بلکہ یوں لگتا جیسے وقت گذاری کے لئے کسی داستان گو کوافراد خاندان نے درمیان میں بٹھا چھوڑا ہے۔ یا گھر کا بزرگ بچوں کی دل بہلائی کے لئے راجہ رانی کے کانی سنارہا ہو۔ ہرکوئی اس سے کسی نہ کسی چیز کا طلبگار ہی تھا لیکن اس کی عمر اس کی جوانی اس کی تنہا راتوں کے مطالبات کے بارے میں سبھی نے سوچنا چھوڑدیا تھا۔ بہنوں کی شادیوں کے ذمے داری سے سبکدوشی ہوگئی توان کے شوہروں کوخلیجی ممالک بھیجنے کا مطالبہ ہونے لگا پھربہنوں کے گھروں میں ہونے والی ہرولادت کا بوجھ اکرام کے سرپرڈالا جانے لگا۔ آرزو ارمانوں کی تکمیل کی حدیں لامحدود ہوتی گئیں ناتے نواسوں کے چھٹی چھلے سالگرہ عقیقے غرض ہرموقع پرپورے زیورات کی فرمائش کہ جدہ میں کوئی رہے اورتحفے میں سونے کے زیورات نہ دئے جائیں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔؟

آرزو کا سلسلہ کب ختم ہوگا اے شکیل

کھل گئے کچھ گل تو پیدا اور کلیاں ہوگئیں

اکرام کے ساتھ رہنے والے تمام پانچ چھ دوستوں کی شادیاں پچیس چھبیس سال کی عمر میں ہوگئی تھیں اکرام اکیلا ہی ایسا تھا جوپینتیس سال کا ہوکربھی کنوارا تھا۔ دوست اپنی میز کی درازوں یا سوٹ کیس میں اپنی منگیتر یا اپنی بیوی کوچھپائی گئیں تصاویر دیکھ دیکھ کراپنے بے چین دل کی تسکین کا سامان مہیا کرلیتے، جن کے پاس الفاظ کا ذخیرہ اورقلم پرعبورتھا وہ فرصت کے اوقات میں کسی گوشہ تنہائی میں بیٹھے بیوی یا مستقبل میں بننے والی شریک حیات کولمبے چوڑے خطوط لکھا کرتے جو چند سطوربھی ڈھنگ سے لکھنے سے قاصر تھے پلنگ پرنیم دراز، ٹیپ ریکارڈ سینے پررکھے اپنی آواز سے کیسٹ بھراکرتے گویا ان کے منظورنظر ان کے افراد خاندان ان کے روبرو ہوں اوروہ ان سے محوگفتگو ہوں کبھی آواز میں چہک ہوتی ہے توکبھی گلے میں پھندا سا پڑجاتا ہے،آواز رندھ جاتی، جملے ٹوٹ جاتے، الفاظ بکھربکھرجاتے، جب اظہار کے تمام طریقے ساتھ چھوڑجاتے ہیں توبس موٹے موٹے آنسو ہی خوشی وغم کے اظہار کا واحد ذریعہ بن جاتے ہیں۔ لیکن اکرام کی آنکھیں ان سے بھی محروم بڑی ویران سی لگنے لگی تھیں۔نہ تواس کوکبھی محبت بھرے خطوط لکھتے دیکھا گیا تھا نہ ٹھنڈی آنہیں بھرتے نہ کیسٹ میں آواز منتقل کرتے ہوئے۔ اداس۔ اداس سا خاموش اپنے آپ میں گم دکھائی دیتا، دوستوں کے گھروں سے آئے خطوط کے ہرلفظ میں ماں کی تڑپ کا عکس ہوتا کہ بیٹا کب آرہے ہو۔؟ تمہاری شادی کی ساری تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں یہ زیوروہ کپڑا خریدا گیا ہے اوراس کے دوست ان خطوط کوپڑھ کرخوش آئند لمحات کے تصور میں ڈوب جاتے ہیں لیکن اکرام کے پاس وقت گزارنے کا کوئی ایسا خوبصورت سہارا بھی نہیں تھا۔ اس کی زندگی کی یکسانیت اس کے معمول میں کوئی فرق کوئی تبدیلی نہ تھی کبھی کوئی خط کوئی فون آج تک اس کے لئے ایسا نہیں آیا تھا جس میں پیسے یا زیور بھیجنے کا مطالبہ نہ کیا گیا ہوگویا اس کا وجود پیسے پرشروع ہوکر پیسہ پرختم ہوگیا تھا۔ اس کی کمائی پرپورا خاندان پل رہا تھا بلکہ راج کررہا تھا۔ اس لئے اس کی شادی کی کسی کوجلدی نہ تھی حالانکہ کئی رشتے اس کے لئے آچکے تھے، صورت، شکل، قدوقامت میں وہ خوبرونہ سہی، پرجاذب نظرضرور تھا، کئی اچھے رشتے جدہ ہی میں دوست احباب کی توسط سے آنے لگے تھے لیکن ماں باپ کواس کی شادی کی جلدی نہ تھی۔ حالانکہ اس بار وہ کچھ امیدیں لے کر گھرلوٹا تھا۔ مکان میں کافی تبدیلی آگئی تھی پرمکین وہی تھے۔ بجزدادی ماں کے۔ جن کا مشفق وجود اس کی بے وطنی میں خاک میں مل گیا تھا۔گھر میں پیدا ہونے والے اس خلاءکوشاید سب سے زیادہ وہی محسوس کررہا تھا اورنہ ماحول کا خلاءہی کیا بلکہ اس جگہ کوبھی نئے فرنےچر سے پرکردیا گیا تھاجہاں برسہا برس سے کبھی دادی ماں اوران کا پرانا تخت ہوا کرتے تھے۔ اس نے اس بارمصمم ارادہ کرلیا تھا کہ وہ حیدرآباد ہی میں کوئی کام ڈھونڈ لے گا یا اپنا ورک شاپ کھول لے گا لیکن اس دفعہ خاندان ومحلے کے بزرگوں نے اس کی فرمانبرداری کہ ماں باپ کوحج کروانا بھی صاحب استطاعت اولاد کے فرائض میں شامل ہے گویا اس کے مستقبل کے خیالی محل کی اینٹیں پھرایک بارکھسکا دی گئیں اوروہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زندہ جسم اورمردہ احساسات کے ساتھ ہوائی جہاز کے تابوت میں بند ہوکر پھراپنے کام لوٹ آیا۔ اسی سال ماں باپ نے فریضہ حج بھی ادا کرلیا لیکن اکرام اس رقم کی پابجائی کے لئے سالانہ چھٹی پربھی نہ جاسکا۔

اکرام کے متین سنجیدہ صابر وخاموش طبعی سے متاثر اس کے دوست نے اپنی بہن کا رشتہ اس سے طئے کردیا۔ اگر اکرام کے دوست ساتھ نہ دیتے تووہ مزید چند سال مجرد ہی رہتا یا پھر کنوارا ہی مرجاتا دوسرے سال چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔ اپنی نئی نویلی دولہن شہلا کی محبت اس کی توجہ پا کر اس نے پکا ارادہ کرلیا کہ وہ جدہ قطعی نہیں جائے گا۔ نوکری نہ ملے گی توذاتی کاروبار کرلے گا لیکن شہلانے بھی ڈھکے چھپے انداز میں اسے واپس لوٹ جانے پرمجبور کردیا کہ حیدرآباد میں کیا رکھا ہے۔؟ بہت کمالوگے توبس دس پندرہ ہزار جب کہ وہاں تین چار گناہ زیادہ مل رہا ہے تورزق وروزگار کوکیوں ٹھکرارہے ہو۔ اس نے خود بھی جدہ دیکھنے وہاں اس کے ساتھ رہنے کی آرزو کا اظہار کردیا اوراکرام اپنی دلی خواہش وتمنا کا اظہار بھی نہ کرسکا اورہمیشہ کی طرح فرمانبردار بچے کی مانند وہاں کے لئے چپ چاپ سفرپرروانہ ہوگیا جہاں جاتے ہوئے سدا اس نے پیر من من بھرکے ہوجایا کرتے تھے۔ اورہربار وہ ارادہ کرتا کہ اگلی بارجب وہ آئے گا توپھرجدہ نہ جائے گا۔ شادی کے ایک ماہ بعد لوٹ آیا تھا کبھی نہ فراموش ہونے والے حسین لمحوں کواپنی گرہ میں مضبوطی سے اس نے کس کر باندھ لیا تھا کہ کہیں لوح زندگی سے مٹ نہ جائیں، کھونہ جائیں، چند خوشیوں کوبٹورکراس کی پاسبانی کررہا تھا کہ کہیں کسی نظربد نہ لگ جائے لیکن شہلا کا تصوراسے باربار لوٹ جانے پراکسانے لگا تھا۔ کوئی ان چھوا سا احساس حسین تخیل بن کر شہلا کا تصور کے روپ میں ابھرتا اوراس کی تنہائی وسناٹے گنگنانے لگتے طرب ونشاط سے محروم زندگی گزارنے کا وہ عادی ہوچکا تھا اب اضطراب بڑھ رہا تھا، بیخواب آنکھوں کی گواہ جانے کتنی راتیں گزررہی تھیں لیکن شہلا کی میٹھی جلترنگ جیسی آوازیں پیر کی آمیزش کے ساتھ لوٹ آنے کے خیال کوذہن سے نکال دینے کی تلقین ہوتی کہ ابھی تونئی زندگی کی شروعات ہوئی ہے۔ دوسرے ماہ شہلا نے خوشخبری سنائی کہ وہ اب دوسے تین ہونے والے ہیں۔ جیسے جیسے مہینے گزرنے لگے اکرام کا سکون درہم برہم ہونے لگا۔ ساتواں مہینہ پورا ہونے پرشہلا کی وہ تصویر ملی جس میں اکرام کی امانت اپنے وجود کا احساس دلارہی تھی۔ اکرام کی بے چینی بے قراری برداشت سے باہر ہونے لگی اسے خواہش کے ساتھ اپنے فرض کا احساس ہونے لگا کہ کم از کم اس وقت جب کہ شہلا ماں بنے گی اسے شہلا کے پاس ہونا چاہئے تا کہ سب قریبی رشتہ داروں کے درمیان بھی وہ اپنے آپ کوتنہا نہ محسوس کرے۔ اس نے فون اٹھایا اورشہلا کوبڑے پیاربھرے انداز میں یہ تیقن دیا کہ وہ اگلے ماہ سب کچھ چھوڑچھاڑکر اس کے پاس آجائے گا تاکہ وہ باہم مل کر اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزارسکیں لیکن بڑے کڑک تلخ وتحکمانہ انداز میں شہلا نے جواب دیا کہ کونسی بھاری رقم بینک میں رکھ چھوڑی ہے کہ نوکری چھوڑکر آنے کی بات کررہے ہو۔؟ اورآخر ان کے حصے میں آنے والے ایک کمرے میں کیا عمربھراپنا سنسار سمیٹے رہوگے کیا اپنے لئے دوسری منزل بھی تعمیر نہ کروگے۔؟ اکرام اپنا دل مسوس کررہ گیا جدائی کے صدمے فراق کی تڑپ۔ دوری کی اذیت۔ تنہائیوں کے المناک لمحے اس کامقدر بنتے گئے اپنے لوگوں میں بھی اسے کوراپن بیگانگی اورتغافل کا احساس ہونے لگا۔ اس کی ذات سے زیادہ ریالوں کی فوقیت اس کے سامنے ابھرکر آنے لگی مایوسی کا جال اس کے اطراف مضبوط ہونے لگا کہ شاید وطن کی مٹی ہی نے اسے دھتکار دیا ہے لیکن ہرلمحہ شہلا کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہوئے ننھے منے دل کی دھڑکن وہ اپنے سینے میں محسوس کرنے لگا تھا اس کا یک مدہم ساہیولیٰ جھولے کی پینگوں کی طرح اس کے کبھی قریب توکبھی دورہوتا جاتا۔ اس کی سونچ کی اڑان قوت پرواز کی محتاج کب ہوتی تھی اورپھر ہزاروں میل دوربیٹھا وہ اپنے باپ بننے کی خوشخبری سن کرپھوٹ پھوٹ کررونے لگا کہ آج اس کا بیٹا وہاں وجود سبھی کا بانہوں میں ہے توپھرکیوں صرف اس کی گود اس کی بانہیں اپنے بیٹے کوسمیٹنے کے لئے ترس رہی ہیں سب اکرام سے پیارجتاتے ہیں لیکن جب پیاروپیسے میں سے کسی ایک کوچننے کی بات آتی ہے تواس کی ذات پس پشت چلی جاتی ہے، اپنے بیٹے کوبھینچ کرچومنے کا خیال اس کے سوتے جاگتے ارمان بن گیا یوں بھی اس کی راتوں کے آسمان پرکوئی مہ وآفتاب کب چمکا تھا ظلمتیں ہی اس کا نصیب تھیں یوں لگتا کہ زندگی کا پیمانہ صرف تلخیوں سے بھرا گیا ہے اوریہی کڑوے گھونٹ پیتے ہوئے دیار غیر میں وقت گزارنا اس کا نصیب تھا۔

زندگی وحالات سے وہ نباہ کررہا تھا کٹھن مرحلوں سے گزرنے والی سخت کوش زندگی وہ گزاررہا تھا وہ اب اپنے ملک اپنے شہر گھرلوٹ جانا چاہتا تھا لیکن سب نے ملک کر اس کی راہیں مسدود کررکھی تھیں۔اب اس کا دل کام میں نہیں لگتا تھا ماضی کے کھنڈر سے تصورات کا خوبصورت محل بنانا سجانا سنوارنا اس کا مشغلہ بنتا گیا گزرتے دنوں کی یادوں کی تجدید وتدوین سے بڑھ کرمسرت وتسکین کا کوئی اورذریعہ تھاہی نہیں اس کے پاس۔ ایک مسلسل بہتے پانی کی طرح خیالات کا دریا بھی جاری وساری رہتا تھا اس سے فرار حاصل کرنے وہ اکثر خالی الذہن میلوں بلامقصد گھنٹوں سڑکوں پرگھومتا رہتا اس وقت تک جب تک کہ اس کے پیر شل نہ ہونے لگتے۔ دوست احباب سمجھاتے کہ آخر ہزاروں لاکھوں لوگ وطن ورشتہ داروں سے دورکام کررہے ہیں سب کو گھر کی یاد ستاتی ہے لیکن جتنا جذباتی انداز اس نے اپنا رکھا ہے یہ پاگل پن ہے لیکن اکرام کا ایک ہی جواب ہوتا کہ اسے اپنا وہی چھوٹا سا کویلو کا گھر پھر سے مل جائے جہاں اس کے پرسکون دنوں کی یادوں کی مہک ہے۔ اسے وہیں جانا ہے جلد بہت جلد جانا ہے۔ جب کہ سب اسے لوٹنے سے روکتے ہیں جب کہ وہاں کی مٹی اسے بلارہی ہے دوستوں کویقین ہوگیا کہ یا تو اکرام بیمار پڑجائے گا یا پھر پاگل ہوجائے گا لیکن دونوں میں سے ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا بلکہ خالی الذہن سڑک عبورکرتے ہوئے ایک تیزرفتار مرسیڈیز کی زد میں آکر اکرام ہمیشہ کے لئے پرسکون ہوگیا جسم جدہ کی سڑک پرپڑا تھا اورروح بجائے آسمان کے آناً فاناً پرواز کرکے حیدرآباد جاپہنچی ہوگی جس اکرام کوافراد خاندان نے سرزمین حیدرآباد سے دورروپے کمانے کی مشین بنارکھا تھا اسی اکرام کا سترہ سالہ جلاوطن زندگی کا اثاثہ اس کا بے جان جسم دس دن تک مردہ خانے کے برف دان میں حرارت سے محروم جسم، ذہن کے خوش رنگ تانے بانوں سے بیگانہ جسم۔ وطن وگھر لوٹنے کی پرامید آس لگائے راہ تک تک کرہمیشہ کے لئے موندھ جانے والی آنکھوں والا اکرام۔ ایک تابوت میں بند تھا۔ اکرام کی آمد کی اطلاع کے ساتھ بچوں بڑوں کا جمع ہوجانے والا جم غفیر ایئرپورٹ پرکہیں نظرنہیں آرہا تھا۔ اکرام کا نیم جاں چھوٹا بھائی چند ذمے دارلوگوں کے ساتھ اس گیٹ پرکھڑا تھا جہاں سے ضروری کارروائی سے نبٹنے کے بعد اسے اکرام کا تابوت حاصل کرنا تھا۔

جیتے جی برسوں میں تڑپا۔ تب نہ لی تم نے خبر

مرگئے پر پوچھتے ہوکیا ہوا۔؟ کیونکر ہوا؟

 

٭ 

Sunday, November 22, 2020

Lawazima Afsana By Nafeesa Khan. لوازمہ افسانہ از نفیسہ خان

 

لوازمہ

نفیسہ خان

 


"میں تم کو پہلیچ بولدیا تھا کہ میرے سوب لوگاں حیدرآباد سے آئیں گے لوازمے کا کھانا دینا ہے.... بولا تھا....؟ نئیں بولا تھا....؟؟؟؟ شکور میاں کی آواز شادی کے شامیانے میں گونج رہی تھی....گھگھیائے ہوئے عبدالرحیم بےچارے من بھر کی منڈی ہلارہے تھے کہ.... ”ہو سمدھی بھائی.... تمہیں بولے تھے سو میں کرانا جی.... کیا کمی کراسو میں....؟ تمہیں لوازمے کا خاصہ بولے تو میں سادا چاول نئیں پکاکو۔ بگارا کھانا پکائیوں۔ چٹپٹا گوشت کا سالن بنایا.... کھٹا بولے تو کدو ہڈیاں ڈال کو دالچہ حاضر ہے۔ اتّا میٹھے کے نام پر گڑ کی بجائے شکر کھوپرا ڈال کو میٹھا کھانا بنایا ناجی.... اب اور کیا تو بھی لوازمہ ہونا....؟ کائےکو اڑلارئیں....؟ کیا کمی کراسو ؟ سب لوگاں کے سامنے ہماری کھلی کائےکواڑارئیں.... یہ شادی میرے گاؤں میں کرتا تو اتّا خرچا نئیں ہوتا تھا ایک بڑے جانور کو کاٹ لیتا۔ آئے سو براتیاں اور پورا محلہ دوستاں عقد کی پہلوار رات کو اجڑی بوٹی کا سالن بائیکاں کی گھڑی جواری کی گرم گرم روٹیاں کھالیتے۔ صبح صبح پورے ایک بڑے جانور کا دالچہ اور کھانا پکائے تو سوب بھی صبح سے شام تک کھا کھا کو دعایاں دےکو جاتئیں۔ یاں کیا جی.... تم آتے سو آتے برس رئیں۔“

عبدالرحیم کویلی والے کی آواز گلوگیر ہوگئی وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے پتہ نہیں کویلیاں بیچتے تھے یا پھر ان کے دیہات کا نام کویلی تھا۔ عبدل کی بات سن کر حیدرآباد سے آئے ہوئے شکور میاں کے لوگ جو زیادہ تر میوہ فروش تھے ہونٹوں پر ہنسی دبائے بادل نخواستہ سپلائنگ کمپنی سے منگوائی گئی میلی دھبہ دار شطرنجی پر بچھے لال دستر خوان پر بیٹھ گئے۔ اسٹیل کی رکابیاں لگادی گئیں۔ اسٹیل کے بڑے سے بیسن پاٹ میں کھانا اور بکٹ میں دالچہ لئے میزبان آپہنچے رکابی کی ایک طرف دو چھوٹی کٹورےاےں تھےں۔ ایک میں مےٹھا دوسرے میں گوشت کا سالن بوٹی اور ہڈی کے تناسب سے رکھا گیا تھا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور اس سے زےادہ کوئی طلب بھی نہ کرے بس اسی پر توکل کرنا ہے اور بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کرنا ہے.... عبدالرحیم گلی گلی گھوم کر پرانے لوہے وپلاسٹک کی خرےداری کرتے اور شہر لےجا کر بےچ آتے تھے ان کا گھر دو کمروں پر مشتمل تھا جو آٹھ اور چھ مربع فےٹ کے تھے۔ اور اسی گھر میں شادی کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔ سب نے مل کر تھوڑی بہت مدد کی تھی جب جا کر اپنی تیسری بیٹی کو وہ آج وداع کر رہے تھے آٹھ فیٹ والے کمرے سے منسلک چھ فیٹ والا کمرہ تھا۔ ایک دیوار سے صندوقوں پر صندوق جمے ہوئے تھے اس پر بستر کپڑے پڑے تھے دوسری دیوار کے ساتھ چاول اور دیگر چھوٹے موٹے سامان سے بھرے تھیلے رکھے گئے تھے۔ انہیں تھیلوں سے ٹیک لگائے سیمنٹ کے خالی تھیلوں کو جوڑ کر بنائی گئی چٹائی پر لال مدرا بچھا کر دولہن کو بٹھایا گیا تھا۔ سنہری چمکیاں ٹکی نائیلان کی دوڈھائی سو روپےوں کی ساڑی پہنے وہ پھولے نہیں سمارہی تھی مجھے دیکھ کر اس نے بصد احترام سلام کیا پاس بیٹھی سہیلی نے گھونگھٹ ہٹا کر مجھے دولہن کا چڑھاوا بتایا جو تین ماشے سونے کے پھول اور گلے میں آدھا تولے کا سات ٹکڑوں والا کالی پوت کا لچھا تھا مہندی سے لال ہاتھ پیر کی انگلیوں میں چاندی کے موتی چور کے چھلے تھے اور دولہن کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی....

حسرتیں ہیں کیا دل میں کھل کے کہہ نہیں پاتیں

باپ کی غریبی کو بیٹیاں سمجھتی ہیں

دولہن نے کچھ کھسکتے ہوئے میرے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی۔ میں سمٹ کر بیٹھ گئی کہ پالتی مارکر بیٹھنے کی جگہ بھی وہاں نہیں تھی۔ مہمان عورتوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پیچھے سرکتے سرکتے میں دیگچوں کو جالگی ڈرتھا کہ کہیں برتنوں کا بھانڈا دھڑام سے نیچے نہ گر پڑے۔ گرمی اپنی شدت پر تھی پسینہ چوٹی سے ایڑی  تک پہنچ رہا تھا پسینے اور تنگ جگہ کی وجہ سے میری کاٹن کی ساڑی کا کلف نہ صرف یہ کہ ٹوٹ گیا بلکہ ہتھیلی میں مسلے ہوئے کسی بےکار کاغذ کی شکل اختیار کر گیا۔ بھڑکدار رنگ برنگی ساڑیاں پہنی ہوئیں خواتین میری حالت پر ہنس رہی تھیں ایک معمر دیرینہ جان پہچان والی صاحبہ نے میری طرف جھکتے ہوئے دبی زبان سے پوچھا کہ .... ”تم سیدھا سادا لباس پہن کر کیوں آئی ہو ہمیشہ ہی تمہارا یہی وطیرہ رہا ہے کیا حیدرآباد کی شادیوں میں بھی تم ایسے ہی جاتی ہو؟ میں نے بہانا بنایا کہ بھئی یہاں شادیاں صبح تا نصف النہار ہوتی ہیں اس لئے میں اسکول سے سیدھا شادی میں آجاتی ہوں تیار ہو کر آنے کا وقت ہی نہیں رہتا۔ اب بھلا میں بڑی بی کو کیا بتاتی کہ حیدرآباد وساگر کا درمیانی فاصلہ حالانکہ صرف دیڑھ سو کیلومیٹر ہے لیکن ان دوجگہوں کی شادیوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے یہاں ایک لڑکی کو شرافت وعزت کے ساتھ وداع کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں یہاں تعلیمی ومعاشی طور پر مسلمان اتنے بچھڑے ہوئے ہیں کہ یومیہ مزدوری سے دو وقت کی روٹی جٹانا دوبھر ہے وہاں بچوں کی تعلیم اور بچیوں کی شادی اور دولہے والوں کی مانگ پوری کرنا مشکل ہے جہاں دولہن کا عروسی جوڑا اور زیور بھی بالکل معمولی ہوتا ہے وہاں شرکاءدولہن سے اچھا زیور وکپڑ ے زیب تن کریں۔ کیا یہ مناسب ہوتا ہے....؟

عبدل میاں نے آکر جھک کر نوے ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے مجھے سلام کیا جسے حیدرآبادی زبان میں پیٹ میں منڈی ڈالنا کہا جاتا ہے۔ میری مبارکباد قبول کرتے ہوئے کہا کہ ”.... آپ سب کی مہربانی سے اور میری حیثیت کے مطابق شادی کررؤں.... چل کو جہیز دیکھ لیوؤ....“ شامیانے میں ایک طرف اسٹیل کی الماری.... اسٹیل کے پائیپوں سے بنی مسہری پر سارا جہیز رکھاتھا۔ تو شک پر دوتکئے رکھے تھے ان پر شولاپور کی سوزنی بچھی تھی اسٹیل کی بارہ رکابیاں، دو کٹورے دومشقاب چھ چمچے ، چھ گلاس۔ قرآن۔ رحال۔ جانماز۔ دوچاربگونے۔ پانچ جوڑے کپڑوں کے جن میں تین معمولی ساڑیاں تھیں اور دوبقول دیہاتیوں کے چھپانے کی ساڑیاں (بھاری ساڑیاں) تھیں۔ عبدل میاں تعریف طلب نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور میری نظریں ساگر سے ہٹ کر حیدرآباد کی تصنع آمیز زندگی کا احاطہ کر رہی تھیں جہاں شادی خانے اب صرف عمارتوں پر نہیں بلکہ چوطرف سے باغات سے گھرے ہوئے لاکھوں کا کرایہ وسجاٹ ضروری ہے۔ فوارے آبشار ہی نہیں بلکہ قدموں تلے بھی پانی رواں دواں ہو۔ آتش بازی بھی ہو تو بات ہی کیا ہے برقی قمقموں سے نظریں چکا چوند رہتی ہیں۔ بینڈ باجے دف کے ساتھ سدیوں کے تلوار ولٹھ بازی کے کرتب ہوتے ہیں۔ وسیع وعریض ہرے بھرے لان پر اطلس کی مصالحہ ٹکی چھتریوں کے اسٹالس بنے ہوتے ہیں ایک میں چائے۔ کافی تو دوسرے میں کول ڈرنکس وآئسکریم.... تیسرے میں سادھے ومیٹھے پان۔ چوتھے میں گلاب موتیاچنبیلی۔ چمپا کے پھولوں سے آپ کی تواضع ہوتی ہے تو پانچویں میں مشین کے اندراچھلتے کودتے گرم گرم پاپ کارنس کو دیکھ کر بچوں کا دل تو بلیوں اچھلتا ہے لیکن نوجوانوں کا دل کچھ کم بےقرار نہیں ہوتا۔ گوکہ مستورات کی بیٹھک کا انتظام الگ ہوتا ہے لیکن آدم وحوا کی اولاد کی چہلیں چلتی رہتی ہیں۔ ویڈیو گرافر دولہن کے ساتھ ساتھ ہر اس دوشیزہ کے چہرے کو اپنے کیمرے میں قید کرلیتا ہے جو نہ صرف خوبصورت بلکہ پرکار بھی ہوتے ہیں تقریباً سبھی لڑکیاں بیوٹی پارلر سے ہوکر آتی ہیں اس لئے چھل چھل کرتی ہوئیں زلفیں آج کل شانوں پر پریشان رہتی ہیں کہ بلاوجہ دل زلف ِ گرہ گیر کا اسیر بن جاتا ہے کبھی نظروں کے خاموش پیام پہنچتے ہیں تو کبھی بچے گلاب کے مہکتے پیام پہنچاتے نظر آتے ہیں۔ بقول شاعر۔

نہ چھیڑوں میں تو خود چھیڑیں اگر چھیڑوں تو شرمائیں

انہیں پیاری اداؤں پر شرارت ناز کرتی ہے

دوسری طرف بچوں کی سواری کے لئے ٹٹو.... بڑوں کے لئے گھوڑے اور مزید معتبر وقابل عزت واحترام ہستیوں کے لئے بگیوں کا انتظام بھی کیا جارہا ہے اب لے دے کے آصفیہ دور کے میانے میں جو فی الحال نظر نہیں آرہے ہیں جانے کونسی دیمک چاٹ گئی کہ باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ دولہے کے اسٹیج سے منسلک اسٹیج پر وہ لڑکیاں جنہیں ان میانوں میں بےٹھ کر سسرال کو وداع ہونا تھا نہ جانے کس مجبوری کے تحت میوزک پارٹی کے نام پر ناچتی گاتیں ، مٹکتی تھرکتی نیم عریاں لباس میں اوچھی حرکتیں کرتی ہوئی ہماری تہذیب کی دھجیاں اڑاتی نظر آتی ہیں۔ عورتیں.... مرد.... بزرگ.... بچے سب ہی لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں نہ کسی میں اخلاقی جرائت کہ اس بےہودگی کے خلاف ایک لفظ بھی کہیں کیونکہ اتنا پر تکلف کھانا کھانے کے بعد نمک حرامی بھی تو نہیں کی جاسکتی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بطور احترام اس دسترخوان کا کھانا اپنے آپ پر حرام کرلیں۔ لیکن نہیں۔ وہاں تو میزوں پر جگہ پانے کے لئے باضابطہ دوڑ ہوتی رہتی ہے کیونکہ دولہا کے آنے اور نکاح ہونے تک دس بج جاتے ہیں اگر آپ رقعوں میں بعد نماز مغرب کی تحریر پڑھ کر بعد عشاءبھی چلے جائیں تو فنکشن ہال کی کرسیاں گنتے ہوئے وقت گذاری کرنی پڑے گی اور کیا ضروری ہے کہ آپ نمازوں کا حوالہ دے کر اپنے آپ کو پنج وقتہ نمازی ظاہر کریں صرف دس یا گیارہ بجے شب بھی تو لکھا جاسکتا ہے۔ مہمانوں میں عمر رسیدہ۔ بلڈ پریشر وذیابطیس ، دل و دوسرے امراض میں مبتلا لوگ بھی ہوتے ہیں ان کا خیال بالکل نہیں رکھا جاتا۔ مدعو افراد میں وہ مذہبی رہنما اور اہل قلم بھی ہوتے ہیں جن کی باتیں سماج سدھار کی ہوتی ہیں لیکن وہ بھی ایسی دعوتوں میں پیش پیش ہوتے ہیں لوازمے کا یہ حال ہے کہ حلیم چونکہ اب آؤٹ آف ڈیٹ ہوگئی ہے تو مرگ ورومالی روٹی۔ اسپرنگ رولس۔ لقمی کباب۔ کئی اقسام کی چکن کی ڈشس اور ورقی پراٹھے۔ فرائیڈ فش۔ بوٹی کباب۔ کڑھائی گوشت۔ کبھی دل کبھی گردوں کی وضع قطع کی نان۔ دو قسم کی بریانی تین قسم کے میٹھے معہ آئسکریم۔ اتنی ساری چیزیں رکھنے کے لئے ٹیبل بھی تنگ دامنی کا اظہار کرتا ہے باوجود ایک کے بعد ایک ڈش سپلائی کرنے کے اکثر بیروں کو مشقاب ہاتھوں میں تھامے انتظار کرنا پڑتا ہے جب میزوں پر اتنی چیزوں کے لئے جگہ نہ ہو تو پھر کمبخت مسلمانوں کے پیٹ میں اتنی جگہ کہاں سے آگئی کہ یہ سب کھا بھی لیتے ہیں اور ماشاءاللہ ہضم بھی کرلیتے ہیں۔ عموماً ہندوستان کے عام مسلمانوں کی پس ماندگی وغربت پر واویلا مچایا جاتا ہے ایسی تقاریب کو دیکھ کر غیر مسلم لوگ حیران ہوجاتے ہیں کہ ان مسلمانوں کی جیب میں اتنا پیسہ کہاں سے بھر گیا کہ اس بےدردی سے جھوٹی آن بان وشان کا مظاہرہ ہو رہاہے ان تعیشات میں غلطاں رہنے والو.... کےا ہم ہماری پچھلی نسل کی بربادی کے چشم دےد گواہ نہیں ہیں....؟ ہمارا وہ دور ختم ہوگیا جب مغلوں ونظام کا دورِ حکومت تھا۔ حیدرآباد دکن کے گلی کوچوں مدرسوں میں دعا گونجا کرتی کہ ۔ 

تا ابد خالق عالم میں ریاست رکھے

تجھ کو عثمان بصد جلال سلامت رکھے

لیکن نہ ریاست رہی نہ جلال رہا سب کچھ نیست ونابود ہوگیا اور اب صرف جلی ہوئی رسی کا بل رہ گیا ہے۔ یہ بل بھی کچھ ڈالر.... کچھ پونڈ کچھ ریالوں کا بھرم ہے تو کہیں باپ دادا کا چھوڑا ہوا بزنس یا جائیدادوں کا زعم ہے۔ کہیں کہیں مسلمانوں میں بھی اب سود۔ شراب۔ نشیلی اودیات کا نمبر دو کی کمائی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ بناءمحنت کی کمائی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کس بےدردی سے پیسہ خرچ ہو رہا ہے جو خون پسینے کی کمائی سے پیسہ کماتا ہے اسے ایک ایک روپیہ عزیز ہوتا ہے۔ وہ فضول خرچی یا شان وشوکت کی نمائش نہیں کرتا۔ جو صحیح معنوں میں شریف النفس ۔ تعلیم یافتہ۔ سلجھے ہوئے ماحول میں پرورش پاکر اپنے بل بوتے پر ترقی کرتا ہے وہ اس طرح کم ظرفی کا تماشہ نہیں کرتا۔ ایک طرف امارت ہوتی ہے تو دوسری طرف عبدل میاں کے گھر جیسی غربت ہوتی ہے جن کی بیٹی سسکیوں کے درمیان وداع ہو رہی تھی گھونگھٹ کے کونے میں بندھے ”گود“ کے وزن سے اس کا گھونگھٹ سرک سرک جارہا تھا اس گود میں کھوپرے کی دو بٹیوں کے درمیان مٹھی بھر چاول دو چھوارے سوا روپیہ بندھا تھا ایسا ہی گود لال کپڑے میں باندھ کر دولہا کی کمر سے کس دیا گیا تھا۔ سفید پائجامہ اور گلابی پالیسٹر کی قمیض۔ سر پر جناح کیپ ہاتھ میں نظر بد سے بچانے والا چاقو پکڑے سب کو سلام کرتے ہوئے دولہا میاں دولہن کا ہاتھ تھامے ریت کی خالی لاری کی طرف بڑھ رہے تھے جس میں بارات آئی تھی اور اب معہ دولہن وجہیز کے لوٹ رہی تھی۔ دولہا میاں ڈرائیور کے بازو کیبن میں بیٹھ گئے دولہن کو اس کے ماموں نے گود میں اٹھا کر لاری میں سوار کردیا تمام باراتی بھی جب لاری کے پچھلے حصے میں سوار ہوگئے تو پچھلے تختے کو بند کر کے تھپتھپاتے ہوئے کلینر نے زور سے .... رائٹ .... رائٹ کی ہانک لگانی شروع کی۔ ڈرائیور نے لاری اسٹارٹ کی اور میں دست بدعا ہوگئی کہ.... ”اللہ سب کچھ اس دولہن کی زندگی میں رائٹ ہی رائٹ ہو.... کوئی ساڑی یا ڈوپٹہ اس کی نازک گردن کا پھندنہ بنے .... کوئی اسٹو نہ پھٹے.... کوئی زہر بہ نام دواغلطی سے نہ پی لے.... کوئی ہیٹر لگی بکیٹ کے پانی میں ہاتھ نہ پڑے.... اے پروردگار اس معصوم دولہن کو اپنے حفظ وامان میں رکھیو.... آمین“۔ 

آگیا ہے وقت اس شب کی سحر پیدا کریں

متحد ہو کر جہانِ معتبر پیدا کریں....!

راہزن کو چھوڑ کر ہم راہبر پیدا کریں

جو ہو پابند محبت وہ نظر پیدا کریں

دشمنوں نے جو بنائے ہیں گھروندے توڑدیں

آؤ سب مل کر زمانے کی کلائی موڑدیں

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر

Tuesday, July 21, 2020

رہائی۔ افسانہ ۔ از نفیسہ خان

رہائی


نفیسہ خان


ابودادا اپنے محلے میں وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے اس نام کے سوا شاید ان کا کوئی نام تھا ہی نہیں اور جو تھا بھی تو اس سے واقف کوئی نہ تھا.... آس پاس.... پڑوس میں ان کی ایک الگ پہچان تھی.... ایک جداگانہ شخصیت کے مالک تھے ناک نقشہ مکمل سفید رنگت.... اونچا پورا قد.... ملیح چہرے پرمتانت اور دنیا بھر کی سنجیدگی.... کبھی کسی نے انہیں کھل کھلا کر ہنستے نہیں دیکھا.... بہت ہوا تو بند لب پھیل گئے اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پرمچل کر دم توڑ گئی.... کونسی خوبی تھی جو ابودادا کی ذات سے منسوب نہ کی جاسکے۔ ایک مکمل اچھے انسان.... ایک فرض شناس شہری.... ایک ایسے مسلمان جن کی مثال پیش کی جاسکے۔ ایک بہترین پڑوسی.... ایک اچھے شوہر.... ایک شفیق باپ.... جس طرح ان کی شخصیت ان کا کردار بے داغ تھا .... لباس بھی وہ ویسا ہی اُجلا.... بے داغ وبنا شکن والا استعمال کرتے تھے۔ اب جلد میں جھلکنے والی خون کی سرخی کو ضعیفی نے بے رنگ کردیا تھا اس لئے ان کا چہرہ۔ ان کے سر وداڑھی کے بال اور لباس سب کچھ ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوگئے تھے۔ ابودادا کی زندگی کے پچھلے تقریباً اسی سال ماضی وحال کے سمندر میں تھپیڑے کھا کھا کر منجدھار کے حوالے ہی رہے.... نہ تو کنارا ملا نہ ہی ہمیشہ کے لئے ڈوب کر تہہ آب ہوسکے۔۔
بزرگ ومحترم ابودادا سے میرا کوئی رشتہ نہ تھا.... سوائے انسانیت کے ہم نہ دوست تھے نہ ہم عمر.... لیکن ہم ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے گویا بناءبات چیت وخط وکتابت کے بھی ہمارے درمیان ایک ایسا تعلق تھا کہ ان کے ہر جذبے ہر احساس کی مجھے خبر ہوجاتی۔ شاید ہر انسان کی مٹی کا خمیر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ لیکن چند انسان ضرور ایک ہی مٹی اور ایک ہی خمیر سے بنا کر روئے زمین پر بھیج دیئے جاتے ہیں جب یہ بکھری اکائیاں کبھی ایک دوسرے سے ملتی ہیں یا اتفاقاً سر راہ ٹکراتی ہیں تو خود بخود ایک دوسرے کی طرف کھینچتی چلی جاتی ہیں.... ان کی قربت.... ان کی صحبت.... ان کی گفتگو سب کچھ دل کو بہت بھاتی ہیں تسکین کا باعث ہوتی ہیں.... ابودادا میرے وجود کی ایک گمشدہ اکائی تھے جن سے مل کر میں نے محسوس کیا کہ ہمارے درمیان بظاہر کوئی مماثلت نہیں۔ نہ تو ہم جنس.... نہ ہم عمر.... نہ رشتے داروں کی طویل فہرست میں ان کا نام شامل نہ دوستوں کی گنتی میں داخل.... ہزاروں لوگوں سے اتفاقیہ مختصر سی اچانک ملاقات ہوجاتی ہے اور پھر یوں ہوتا ہے کہ ہم ان سے کبھی نہیں ملتے.... ملنا چاہتے بھی نہیں۔ ذہن سے وہ ملاقات بھی فراموش ہوجاتی ہے۔ پھر کبھی ملاقات ہو تو یاد داشت پر بہت زور دے کر سونچنا پڑتا ہے کہ کہاں.... ؟ کب؟ اور کیوں ملے تھے....؟ لیکن ابوداد ا سے چند لمحوں کی ملاقات دل وذہن پر نقش چھوڑچکی تھی۔ عام آدمیوں سے کچھ الگ شخصیت.... جسمانی طور پر سب کے درمیان لیکن ذہنی طور پر بالکل تنہائ.... بار .... بار ان سے ملنے.... ان سے بات کرنے.... ان کے کمرے میں ان کے اطراف بکھری ہوئی کتابوں کو سمیٹنے.... بوسیدہ اوراق سے کچھ ان کہی کہانیوں کو سننے کی چاہ ہمیشہ شدت اختیار کرتی جاتی۔ میں جتنا کریدتی جاتی وہ اتنا ہی عہد ماضی کو مٹی میں دبانے کی کوشش کرتے مجھے اپنے کمرے کی ہر چیز چھونے۔ صاف صفائی کرنے اور پڑھنے کا حق ابودادا نے مجھے دے رکھا تھا۔ کم گوئی ان کا وصف تھا۔لیکن کئی دیوان.... کئی ناول .... کئی نامکمل جملے۔ جہاں جہاں ان کا قلم لگا تھا ایک اَن کہی داستان سنانے کے لئے کافی تھے۔ میں نے یہ راز پالیا تھا کہ ابودادا کے تاریک دل کے کسی گوشے میں ایک جگنو اب بھی چمک رہا ہے ان کی ہر سانس سے وابستہ جذبے کی میں گواہ تھی کہ ان کی محبت عبادت کے حدود سے بھی آگے ہے۔ انہوں نے کسی شرارے کسی چنگاری کو سینے کے حدود سے باہر آنے کی اجازت کبھی نہ دی۔لیکن ابودادا کے آتش کدہ دل میں جلنے والے الاؤ سے شاید میں واقف تھی۔ میں ہی وہ تنہا ہمراز تھی جو اس تپش اس جلن کو محسوس کرسکتی تھی۔ ان کے خاموش اضطراب کی چشم دید گواہ بھی میں ہی تھی.... کتنا صابر شخص کہ نہ چہرہ مضحمل نہ تشنگی کا پرتو.... تصنع سے کوسوں دور.... خلوص کا پیکر.... پیار محبت شفقت کا عمیق سمندر جس میں ڈوب ڈوب جانے کو جی چاہے حسرت ویاس کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دیا.... نظر شناسی کا ہنر میں نے انہیں سے سیکھا....
ابودادا نے اپنی زندگی کو دو متوازن پڑلوں میں بانٹ دیا تھا ایک دینی ودنیوی فرائض کا دوسرا پڑلا بظاہر خالی نظر آتا تھا لیکن اس میں جمیلہ بیگم کی پاک محبت پاکیزگی کا کفن اوڑھے دفن تھی.... یہ کیسا جذبہ تھا کہ جمیلہ بیگم کی ہر سانس ہر دھڑکن۔ ان پر گذرنے والی دکھ سکھ کی ہر کیفیت کو وہ اس طرح محسوس کرتے جیسے کوئی ان دیکھا ان چھوا رابطہ درمیان میں ہو۔ پتہ نہیں ابودادا کے سینے میں یہ کونسا وائرلیس سیٹ نصب تھا جو پچھلے ساٹھ سال میں کبھی ناکارہ.... غیر کارکرد نہ ہوسکا۔ خواہ دو قدم کی دوری ہو یا سمندر پار کی مسافت حائل ہو۔ ان کا دل گواہی دیتا جاتا اور ان کادماغ جمیلہ بیگم کی ان کہی وپوشیدہ ضروریات کی غیر محسوس طور پر کفالت اس طرح کرتا کہ زندگی بھر انہیں خبر بھی نہ ہوسکی کہ کس کس طریقے سے کہاں کہاں کرہ  ارض کے کن کن مقامات پر وقت وزمانے کی کڑی دھوپ وتمازت سے بچانے کے لئے ابودادا کا سایہ ان کے ساتھ ساتھ رہا ہے۔
ابودادا گویا جی رہے تھے تو شاید اس لئے کہ جانے کب کہاں ان کے دل میں پیوست الارم بج اٹھے کہ ایک پچھتر سالہ ذیابیطس وبی پی کے مرض میں مبتلا نحیف وناتواں کمزور ضعیف بیوہ کو ان کی ضرورت ہے.... تمام عمر جمیلہ بیگم یا تو ابوداد ا کے جذبات اور محبت کی گہرائیوں سے لاعلم رہیں یا جان بوجھ کر انجام بن جانے کا ناٹک کرتی رہیں۔ جمیلہ بیگم کی دونوں بیٹیاں وبیٹا ابودادا کے گرویدہ رہے۔ پڑوسی کے ناتے تینوں بچوں کو ترقی کی اونچائیوں پر پہنچانے کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ ان بچوں کی بھی انگلی تھامے ان کے ساتھ ساتھ رہے اس وقت تک جب تک کہ بچوں کے قدم بیرون ملک میں جم نہیں گئے.... پھر ایک دن ایسا آیا کہ بچوں کے ساتھ رہنے کے لئے جمیلہ بیگم نے بھی ترک وطن کردیا.... لیکن ابودادا نے گھر کا اپنا وہ کمرہ کبھی نہیں چھوڑا جس کی کھڑکی کے ایک زاوئیے سے ایک دوسری کھڑکی نظر آتی تھی جس کی بند کواڑوں کے شیشے سے چھن کر کچھ روشنی ان کے کمرے۔ ان کے دل کے ویران وتاریک گوشوں تک پہنچتی رہتی تھی ایک سچے مسلمان کے لئے نامحرم کا خیال تک گناہ ہے لیکن تمام دروازوں کو بند کردینے کے باوجود ایک آدھ روزن رہ جاتا ہے جو احساس کی بےداری کا باعث بن جاتا ہے۔ ابودادا کی مرادوں کی کشتی کبھی حصول کے جزیروں تک پہنچ ہی نہ پائی.... لیکن ابودادا نے مایوسیوں کے اندھیرے میں اسے غرقاب بھی ہونے نہ دیا.... امید وبیم میں نوجوانی بیتی.... جوانی ایک مبہم سے خیال سے ایک دلی سکون حاصل کرنے میں گذاری۔ کبھی شیرازہ ہستی کو بکھرنے نہ دیا۔ ہوش وخرد کا دامن نہ چھوڑا وہی ہر ایک سے تپاک سے ملنا.... کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا جذبہ ایثار علم وفراست سادگی کے اس پیکر میں کونسے اوصاف ایسے تھے جو نہ ہوں۔ کبھی کسی سے گلہ شکوہ شکایت نہ تھی وہ گلہ کرتے بھی تو کس کا....؟ شکایت تھی بھی تو کس سے ....؟ ان کے چہرے پر تشنگی کا کوئی پرتو نہ تھا حالانکہ وہ تصنع سے کوسوں دور تھے۔ سب کی دلدہی ودلداری اور ضرورت کی تکمیل ان کا شیوہ تھا۔ اور اپنا ہر معاملہ خدا کی مرضی پر چھوڑدیتے تھے۔ پھر بھی نہ کٹر پسندی کے قائل تھے نہ مذہبی جنونیت میں مبتلا تھے۔ نہ اتنے عبادت گذار کہ تہجد پڑھیں اور سدا مصلے پر بیٹھے رہیں لیکن پانچ وقت کی نماز کے سختی سے پابند تھے دنیاوی نا انصافیوں وتکالیف سے نبرد آزما ہونے کی تاب نہ ہوتی تو مصلے پر جا بیٹھتے اور تلاوت میں ڈوب جاتے.... گویا اپنے آپ کو ان سب سے بچانے کے لئے ان کے پاس یہی ایک ڈھال بچ گئی تھی۔ دل ودماغ ہی نہیں بلکہ روح تک کو تازگی وبالیدگی عطاکرنے والا لحن ہر جذبے کے زیر سایہ مختلف ہوتا تھا جسے میں اور صرف میں ہی محسوس کرسکتی تھی۔ کوئی وقتیہ خوشی نے پل بھر کو مسرت دیدی تو اس آواز میں عجیب سی سرشاری ہوتی آواز معطر اور کھلی سی لگتی.... اداس ہوتے تو یاس بھری آواز میرے دل پر کوڑے برساتی۔ بے چین ومضطرب ہوتے تو آواز کا ارتعاش میرے وجود میں ایک بے چینی ایک ہلچل سی پیدا کردیتا.... اپنا کام ادھورا چھوڑ کر میں ابودادا کے کمرے کی طرف یوں لپک پڑی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کے رونے کی آواز سن کر دوڑ پڑتی ہے.... میں ابوداد کے کمرے کے دروازے سے لگ کر بیٹھ جاتی .... ان کی پشت میری طرف ہوتی .... لیکن میرے قدموں کی بے آواز چاپ کی گونج انہیں سنائی دے جاتی.... آواز کا ارتعاش کم ہونے لگتا ایک ٹھہراو ان کے لحن میں آنے لگتا جیسے دہکتے شعلوں پر کسی نے پانی ماردیا ہو کچھ ہی دیر بعد وہ تلاوت ختم کر کے میری طرف دھیمے قدموں سے آکر جو بھی پڑھا مجھے پر دم کرتے.... بھیگی آنکھوں میں تشکر ہوتا.... انہیں یہ احساس شدت سے ہوتا کہ اس بھرے پورے گھر وخاندان کا ہر فرد ان کی خدمت وآرام کے لئے دوڑا چلا آتا اور حتی الامکان خیال رکھتا ہے لیکن ان کے اندر بسنے والے مکین کو جاننے اور اسے سکون پہنچانے کی سعی بجز میرے کوئی نہیں کرتا۔ان کی پھونک سے مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اس ایک پھونک کے ساتھ ان کے سینے میں دبا غبار.... ساری مایوسیاں.... نامکمل آرزو وتمنائیں سب باہر آگئی ہیں اور انہیں اگلنے کا یہی ایک طریقہ ان کے پاس تھا۔ کیونکہ ہر جذبہ الفاظ کا محتاج نہیں ہوتا میرے اور ابودادا کے درمیان الفاظ کا استعمال کم۔ حرکات وسکنات۔ آواز ولحن کا رابطہ زیادہ تھا۔ آخر کیوں ان کی زندگی کی بند کتاب کو پڑھنا میں نے اپنا نصب العین بنالیا تھا ان کا اصرار کہ اس کتاب کا ہر ورق کورا وسادہ ہے میرا یہ یقین کہ بے رنگ روشنائی کی تحریریں میں پڑھ سکتی ہوں۔ 

ابودادا اسّی سال کی عمر میں بھی بظاہر صحت مند لگتے تھے ان کی آواز کچھ کم مسحور کن نہ تھی اس عمر میں بھی جب دھیمے دھیمے سروں میں غزل گاتے تو ان کی مسلی کچی  کلیووں کی مہک فضاءمیں بکھرجاتی.... انہیں صرف تصوف مذہبی ودینی کتابیں ہی پڑھنے کا شوق نہ تھا بلکہ ادبی ذوق بھی تھا ان کے کمرے کے شیلف میں کئی دیوان ۔ رسالے ناول بھی تھے۔ ایک پورٹیبل ٹی وی بھی تھا۔ گراما فون کی جگہ اب ٹیپ ریکارڈ نے لے لی تھی لیکن چند سالوں پہلے تک بھی پیارے سے کتے والے ہنر ماسٹر وائس کے ریکارڈس گراما فون پر بجتے سنائی دیتے۔ کمرے میں پنکج ملک کی آواز .... ”یہ راتیں یہ موسم یہ ہنسنا ہنسانا مجھے بھول جانا.... انہیں نہ بھلانا.... بھلانا.... یا پھر زہرہ بائی امبالے والی۔ اختری بائی فیض آبادی کے علاوہ سریندر کا .... کیوں یاد آرہے ہیں گذرے ہوئے زمانے “.... یا نور جہاں کا کس طرح بھولےگا دل ان کا خیال آیا ہوا....“ یا پھر طلعت محمود کا....” محبت ہی نہ جو سمجھے وہ ظالم پیار کیا جانے“.... سنائی دیتا....اس وقت ابودادا اپنی آرام کرسی پر آنکھیں بند کئے نیم دراز ہوتے۔
اپنے نواسے افروز کی شادی اس کی مرضی کے مطابق نازنین سے نہ ہوپائی۔ ان دونوں کے خوابوں کا شیش محل چکنا چور ہوگیا۔ جس صدمے۔ درد وتکلیف سے وہ لوگ گذرے اس سے کہیں زیادہ دکھ ابودادا کے سینے میں جاگزیں ہوا۔ جدائی کے تیر نے ان دونوں کو لہولہان کردیا لیکن ٹیس۔ چبھن۔ کسک ابودادا نے محسوس کی۔
ایک لمبے بن باس کے بعد جمیلہ بیگم بیمار جسم وجاں کے ساتھ اپنے بچے کچے رشتے داروں سے ملنے لوٹ آئیں تھیں۔ وطن کی مٹی بلارہی تھی۔ یہاں پیوند خاک ہونا جو لکھا تھا نصیب میں۔ طویل سفر کی تھکان تو تھی ہی۔ اجڑا۔ اجڑا آبائی مکان دیکھ کر اتنی غمزدہ ہوئیں کہ دل نے دھڑکنا بند کردیا۔ مرنے آئیں بھی تو اسی گھر میں جس کی بند کھڑکی کے شیشوں سے چھن کر روشنی کی رمق ابودادا تک آتی تھی۔ ابودادا نے یہ خبر بڑے سکوت کے عالم میں سنی۔ لیکن میں ابودادا کو دیکھ کر بدحواس سی ہوگئی میں نے ان کے کمرے کے کونے میں اپنے آپ کو سمٹ لیا۔
ابودادا کو اب کس منہ سے کیا تسلی دیتی؟ میری تسلیوں سے وہ اب بہلنے والے بھی کب تھے۔ابودادا کے بیٹے بلال نے آکر اطلاع دی کہ ”ابو.... جمیلہ خالہ کا جنازہ آخری سفر کے لئے تیار کردیا گیا ہے۔ آپ چل رہے ہیں نا....؟“ .... ابودادا نے اپنے آپ کو سنبھالا آرام کرسی سے اٹھنے کی کوشش میں لڑکھڑا گئے۔ بلال نے اپنا ہاتھ بڑھا کر سہارا دینے کی کوشش کی لیکن اس نے محسوس کیا کہ اس کے ابوبید کی طرح کانپ رہے ہیں۔ بیٹے کے مضبوط بازو بھی ان کو سہارا نہ دے سکے اور وہ اپنی کرسی پر ڈھیر ہوگئے۔ آج سے ساٹھ سال پہلے بھی انہوں نے اپنے آپ کو اتنا ہی کمزور محسوس کےا تھا جب بینڈ باجوں کے پرشور ہنگاموں کے درمیان جمیلہ بیگم کی اسی گھر سے ڈولی اٹھ کر بجائے ابودادا کی چوکھٹ پر رکنے کے آگے بڑھ گئی تھی تب بھی ایک قابل۔ ذہین۔ وجیہہ بیگم کی ڈولی کو اپنے گھر اٹھالاتا۔ سدا کا کم گو.... کم ہمت۔ بزدل شخص آج پھر ویسا ہی مجبور تھا کہ اشکبار آنکھوں.... سسکیوں وکلمہ طیبہ کے ساتھ ڈولا اٹھایا جارہا تھا تو بھی ابودادا میں اتنی ہمت نہ تھی کہ یہ چھوٹا سا فاصلہ طئے کر کے زمین پر رکھے جنازہ کو اٹھا کر اپنے شانوں پر رکھ سکیں۔ ان کی ساٹھ سالہ محبت زمین پر دھری تھی پر کاندھوں پر اٹھانے کی جسارت وہ جٹا نہ پارہے تھے۔ ساری زندگی فاصلے پاٹ نہ سکے۔ ایک فاصلہ ایک دوری تا حیات قائم رہی۔ جس نا محرم کا چہرہ آنکھ بھر کر نہ دیکھا تو پھر موت کے بعد یہ دوری قربت میں تبدیل ہو یہ شاید انہیں گوارا نہ تھا۔ قدموں کی چاپ بتارہی تھی کہ جنازہ آگے بڑھ رہا ہے ابودادا نے کرسی کے ہتھے پر ہاتھ جما کر اپنی پوری قوت سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن ہاتھوں کی گرفت ہی مضبوط نہ تھی کہ ان کے جسم کو کھڑا کرنے میں مدد کرسکتی۔ وہ ہانپتے ہوئے لاچاری کے عالم میں کرسی ہی پر گر پڑے آٹھ دہوں کا یہ صحت مند دکھائی دینے والا جسم.... اس میں دوڑنے والا خاموش خون۔ اس طرح ان کی رگوں پر پر دباؤ ڈال کر اس آخری لمحے دغا دے جائے گا۔ مفلوج کرجائے گا یہ ابودادا نے شاید کبھی سونچا بھی نہ تھا۔ 

جمیلہ بیگم کے جنازہ کو نامحرموں غیروں نے بھی کاندھا دیا لیکن نہ دے سکے تو ایک ابودادا .... یہ عمر بھر کا فاصلہ تادم مرگ طئے نہ ہو شاید قدر ت کو یہی منظور تھا۔ فالج کسی بجلی کی طرح ان کے جسم ودماغ پر گرا تھا۔ کچھ دیر تک ہاتھ پیر کانپتے رہے پھر کٹی ہوئی ڈالیوں کی طرح جھول گئے زبان لڑکھڑانے لگی۔ غزل کے الفاظ جب ابودادا کی دل میں اترجانے والی آواز میں ڈھل کر ان کے لبوں سے نکلتے تو روح تک سرشار ہوجاتی آج اس آواز کو اظہار کا جامہ پہنانے کی کوشش میں وہ مر مر کر جی رہے تھے۔ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ہونٹوں پر رک رہے تھے۔ بلال کی بانہوں میں ابودادا کا مفلوج جسم لٹک رہا تھا۔ کسی دواخانے کے بستر پر پڑے ابودادا جانے اب کونسی ساعت کے منتظر ہیں۔ پتہ نہیں دل میں چھپا جگنو اب بھی جگ مگ کر رہا ہے۔ ےا ابودادا نے اسے سب کی نظروں سے بچا کر چپکے سے تاریکی میں چھوڑدیا ہے۔
ابودادا اب اپنے بل بوتے پر جی نہیں سکتے باقی ماندہ زندگی ڈاکٹروں کی دواؤں اور گھر والوں کے التفات اور رحم وکرم کی نذر ہوگئی ہے ان کے بہترین اوصاف کی عکاس ان کی اپنی شخصیت کا پنچھی ان کے جسم کی قید سے آزاد ہوگیا تھا اور پلنگ پر پڑا ابودادا کا مفلوج جسم وذہن مانند ایک خالی پنجرے کے تھا۔ جس میں ابودادا کا کوئی وصف نہ تھا کوئی خوبی نہ تھی۔ گویا کہہ رہے ہوں۔
بستر پر کچھ اس طرح سے بکھرا ہے میرا جسم
جیسے میری ٹوٹی ہوئی تصویر پڑی ہے
پنجرے میں مقید اس پنچھی کو رہائی مل گئی تھی جو ساٹھ سال سے اپنے ہی پنجرے کی تیلیوں سے سر ٹکراٹکراکر تڑپتا رہا تھا۔۔
٭