Friday, October 25, 2019

آنگن ۔ نفیسہ خان۔ Nafeesa Khan.



آنگن

نفیسہ خان 


                                  وہ چاند اترنے کو تو آمادہ تھا لیکن       کیا کیجئے آنگن ہی میرے گھر میں نہیں تھا
وہ بھی کیا دن تھے کہ بناءآنگن کے گھر کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ ہر گھر میں چھوٹے بڑے دالان پیش دالان کے درمیان آنگن ہوا کرتے تھے۔ بہت سے جھاڑ پودے نہ سہی، لیکن ایک بڑا سا جام ، شہتوت ، یا آم کا درخت ضرور ہوتا۔ موتیا، گلاب، گل بکاولی  کے پھول بھی اپنی بھینی بھینی خوشبو پھیلاتے رہتے۔ عام دنوں میں بیٹھک دالان میں، اور گرما میں شام کے وقت آنگن میں ہوا کرتی تھی۔ گوکہ بارش میں کیچڑ پھیل جاتا لیکن موسم گرما میں پانی کے چھڑکاؤ کے ساتھ ہی موٹی سوندھی سوندھی خوشبو پھیلاتی۔ دھوپ کی تمازت اور لوکے جھکڑ جیسے ہی کم ہوتے آنگن میں پڑے تختوں وپلنگوں پر سفید یا ہلکے رنگوں کی چا دریں بچھادی جاتیں۔ گھڑونچی پر ٹھنڈے پانی کے کورے گھڑوں وصراحیوں کی شان ہی کچھ اور ہوتی۔ ہم پرانے ململ کی پتلی لانبی چھوٹے ٹیوبس کی مانند تھیلیاں سی کر ان میں مٹی باجرہ جواری یا میتھی بھردیتے اور صراحی وگھڑوں کی گردنوں پرسجے ہوئے مولکوں کا گلوبند، اس پر مٹی کی سینکیں ڈھکی ہوتیں، ان میں موتیا کی کچی کلیاں رکھ دی جاتیں۔ جو شام ڈھلے ادھ کھلے ہو کر مہکتی رہتیں۔ قریب چوکی پر جگ مگ کرتے چاندی یا جرمن سلور کے آب خورے۔ ان کٹوروں پر سوتی جالی کے کٹورے پوش، جو رنگ بہ رنگ موتیوں سے آویزاں اور کروشیا کی لیز سے مزین کئے جاتے۔ مغرب سے عشاءتک سب آنگن ہی میں بیٹھتے۔ نہ ٹی وی نہ ٹیپ ریکارڈر۔ پھر بھی وقت بہت خوب گذرتا۔ کیری کا آب شولہ، دودھ ملائی کا فالودہ، ٹھنڈی میٹھی لسی سے ہونٹ ، زبان وخلق ہی نہں بلکہ دل ودماغ تک میں تراوٹ اترجاتی۔ وہ بات آج کے کوک، پیپسی، لمکا، جیسے مشروبات میں کہاں۔
اب نہ تو دن کی دھوپ کی تمازت آنکھوں کو چبھتی ہے نہ روپہلی چاندنی نظروں کو خیرہ اور دل کو تقویت پہنچاتی ہے۔ نہ خزاں کی پت جھڑ سے گرے ہوئے پتے قدموں کی چاپ کے ساتھ چرمراتے ہیں، نہ بہار کی آمد پر پتوں پھولوں کو تروتازہ کرتے ہوئے منظر نظروں کے سامنے آتے ہیں۔ نہ باد صبا کا احساس ہے نہ لال مٹی میں مخمل جیسی بیر بہوٹیاں نظر آتی ہیں۔ نہ پتوں پر لرزتے شبنم کے موتی، نہ ٹوٹتے تاروں کا فروزاں نظارہ، نہ گھن گھور گھٹاؤں کی یورش۔ نہ بادلوں کے قافلے، نہ بوندوں کی رم جھم کا راگ، نہ اوس سے نم مٹی پرننگے پاوؤں چلنے کا فرحت بخش احساس۔ اب بھونروں کی بھنبھناہٹ بھی سنائی نہیں دیتی۔
بارش کے پانی سے صحن کے دالان سے گلے ملنے پر بڑوں کا پائینچے چڑھا کر کاغذ کی کشتیاں بنانا بچوں کو دینا اور بچوں کا خوشی سے دمکتے چہروں کے ساتھ پانی میں اتر کر ان کو چھوڑنا۔ گھر کے آنگن میں تتلیاں بھی نظر آتیں۔ جنہیں پکڑنے کی سعی میں بچے بھاگ بھاگ کر خوش ہوتے۔ اب بچوں سے یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں چھن گئی ہیں۔ محدود آنگن میں قدرت کے جو نظارے دیکھنے کو ملتے تھے ان سب سے فلیٹ یا فلیٹ نما بند گھروں میں رہنے والے محروم ہوگئے ہیں۔ اب یہ سب کہاں ان کی قسمت ان کے نصیب میں ہے۔ آنگن سمٹ کر بالکونی بن گئے ہیں جہاں پھولوں کے چند گملے رکھ کر ہم اپنی تسکین کرلیتے ہیں۔ لیکن اس بلندی پر ان پھولوں تک کوئی بھنورا کوئی تتلی آنے کی ہمت نہیں کرسکتی۔ کیونکہ قوت پرواز سے زیادہ بلندی ہے جو ناقابل عبور ہے۔
تاریک راتوں میں جگنو کی چمک بھی مفقود ہوگئی ہے۔ آم کی شاخ کا ٹپکنا۔ کوئل کی کوک چڑیوں کا چہچہانا۔ کووؤں کا مڈیروں پر بولنا اور اہل خانہ کا مہمانوں کی آمد کا اس کو مژدہ جانفزا سمجھ کر مسرور ہونا، سب آنگن کے دم قدم سے تھا۔ بان کی رسی سے مضبوط ڈالیوں پر ڈالے گئے جھولے بچوں کی پسندیدہ تفریح ہوتے۔ اور اب Cane کا ایک طوطے کے پنجرہ نما بڑا سا جھولا کسی راڈ سے لٹکادیا جاتا ہے۔ جس میں بچے ، بڑے ، عورت ، مرد سب ہی فرصت کے وقت میں لٹکتے رہتے ہیں۔ کوئی ہلکے سے جھونکا دینے کی گستاخی بھی نہیں کرسکتا کہ جھولا دینے کی پاداش میں اسے سزائے قید نہ ہوجائے۔ ہلکا ہلکورا دینے پر جھولنے والے کا مختصر جگہ کی بناءپر بالکونی سے گذرے ہوئے سڑک پر جاگرنے کا پورا احتمال ہوتا ہے۔
درختوں کی ٹھنڈک ، ان سے گذرکر آنے والی خوشگوار ہوا کا احساس، ایرکنڈیشنڈ یا ایر کولر سے نکلنے والی مرطوب ہوا سے جداگانہ اور مسحور کن ہوتا ہے۔ گھر چھوٹا اور آنگن کوتاہ ہوتے ہوئے اب مفقود ہوگیا ہے۔ کیونکہ باورچی خانے اب دھواں نہیں پھیلاتے اس لئے آنگن کے اس پار ہونے کے بجائے کمروں سے منسلک ہوگئے ہیں۔ فرش پر لال دسترخوان بچھا کر کھانا کھانے کا طریقہ فرسودہ اور متروک ہوگیا ہے۔اس کی ایک وجہ بڑوں کو جوڑوں کے درد نے مجبور کردیا ہے مرد فرش پر بیٹھنے سے احتراز کرتے ہیں کہ کپڑوں کی استری ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لئے اب کچن کے ساتھ ڈائننگ روم کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ باتھ روم اتنے مختصر ہوگئے ہیں کہ بقول شاعر:
پاوؤں پھیلاؤں تو دیوار سے سر لگتا ہے
واشنگ مشین کی ضرورت اور پانی کی قلت کی وجہ سے پانی بھر کر رکھے جانے والے برتنوں کے لئے ڈبوں کے لئے کار یا اسکوٹر کے لئے علیحدہ شیڈس کی ضرورت ہے۔ اور ان تمام ضرورتوں نے مل کر آنگن کے وجود کو ختم کردیا ہے۔
کمروں میں سورج کی روشنی کو پھیلانے کا ذریعہ آنگن ہی ہوتا تھا۔ لیکن آج کل گھر یا فلیٹ میں داخل ہوں تو پر شکوہ آسمان سے باتیں کرتی عمارتوں کے یہ فلیٹ کبوتروں کے ڈربے جتنے لگتے ہیں۔ باہر سے گھر میں داخل ہوں تو نیم تاریکی کا احساس ہوتا ہے۔ گھر کی بجلی فیل ہوجائے اور جنریٹر نہ ہو تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ جیسے آج کل کے ہوٹل، کہ جہاں کی مدھم روشنی میں مینو تک پڑھنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔
اب آنگن نہیں رہے تو کپڑے سکھانا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے کہاں رسی پر رنگ برنگی پوشاکیں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ایک لمبی قطار میں جھولتی رہتیں۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پلاسٹک کے حلق نما ہینگر پر چمٹوں کی مدد سے سمٹے سمٹائے چھوٹے بچوں کے کپڑے تک دھوپ وہوا کو ترس رہے ہیں اور سکھائے جانے والے بڑے کپڑے جگہ کی تنگی کی بناءپر آتے جاتے ہمارے منہ پر طمانچہ مار کر جتاتے ہیں کہ دیکھو تم خود تو محروم ہوتے ہی تھے ہمیں بھی دھوپ اور ہوا تک کے لئے ترسادیا۔ ہمارے لڑکپن میں لڑکیاں اسکول وگھر کے کام سے فراغت پا کر اپنے اپنے آنگنوں میں پیلا، فیروزی، گلابی، رنگ کٹوریوں میں گھول کر قوس قزح کی اوڑھنیاں بڑے انہماک سے ابرک وکلف ڈالکر رنگا کرتیں۔ ایک لڑکی گھٹنوں کی مدد سے ہاتھوں میں ان ڈوپٹوں کو کس کر پکڑ کر بیٹھ جاتی اور دوسری چننے لگتی۔ باریک سے باریک چنت کی چاہ میں انگوٹھوں پر چھالے آجاتے، پر ہمارا انہماک کم نہ ہوتا۔
ہماری بوڑھی ماما کہتی تھی کہ رات میں زیر سماں آنگن میں نہ سویا کرو۔ ایک چادرپلنگ کے اوپر ضرور تان لو کیونکہ سفید پوشاک میں جب آسمان سے پریوں کے تخت گذرتے ہیں تو ان کا سایا لڑکیوں پر ہوجاتا ہے۔ ہم نے گرما کی کئی راتیں اس نظارے کے دید کے اشتیاق میں آنکھوں میں کاٹ دیں اور آخر کار ایک رات ہماری تمنا بر آئی۔ ہم نے رات کی تاریکی میں سفید سفید پروں کو لہراتے دیکھا۔ ہمارے تجسس وخوشی کا عالم ہی عجیب تھا۔ لیکن جب ان پریوں کا تخت بالکل ہمارے سر پر سے گذرا تو ہم نے دیکھا کہ یہ سفید بگلوں کا جھنڈ تھا جو بڑے منظم انداز میں مائل پرواز تھا، اور سچ مچ پریوں کے تخت جیسا ہی لگتا تھا۔
میری پڑوسن ایک لمبے عرصے تک حیدرآباد سے باہر رہیں اور جب اپنی محدود آمدنی سے محدود بچت لے کر لوٹیں تو پھر مکان خریدنا تو کجا زمین تک بھی اتنی رقم میں کسی اچھے محلے میں نہ مل سکی۔ سب نے انہیں مشورہ دیا کہ دو قسطوں میں زیر تعمیر فلیٹ لے لیں۔ لیکن ان کا جواب تھا کہ’ ان کئی منزلہ اپارٹمنٹس میں نہ زمین اپنی ہوتی ہے نہ آسمان‘ نہ تلوؤں کو گیلی مٹی کی نمی ملتی ہے، نہ چودھویں رات کی چاندنی ہی فلیٹ میں جھانکنے کی گستاخی کرتی ہے۔ یوں بھی عمر زیر زمین جانے کی ہے۔ اور صرف روح ہی عرش کی بلندی پر جائے گی۔ میں اپنے کمزور وناتواں جسم کو اتنی اونچائی پر کیوں لے جاؤں کہ کل کو میرے جسم بے جان کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے چار کاندھوں کی بجائے لفٹ کی ضرورت پڑے اور اگر بجلی بند ہوجائے تو نماز جنازہ بھی وقت پر ادا نہ ہوسکے۔ سچ کہو کہ میرے مرنے کے بعد مجھے غسل کہاں دوگے؟ کفناؤگے کہاں؟ بیڈ روم میں؟ ڈرائنگ روم میں، کچن میں یا باتھ روم میں؟ کیونکہ ابھی ہمارے حیدرآباد میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح مردہ خانے نہیں ہیں جہاں اولاد رشتے دار دم نکلتے ہی ان سرد خانوں میں چھوڑ آتے ہےں کہ ساری ذمہ داری مردہ خانے والے اٹھاتے ہیں اور Week End پر وہ صرف شرکت کرنے آتے ہیں۔ نابابا نا مجھے چھوٹا سا ننھا سا ہی سہی، سوپ بھر آنگن والا گھر دلاوو کہ مجھے ہمیشہ حسرت ویاس کے درمیان عمارت کی بلندی اور اپنی پستی کا احساس نہ ہو۔
ہمارے ایک دوست نیویارک سے انڈیا آئے۔ ہمارے گھر آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ہم کچھ پریشان سے ہوگئے کہ ان کا شایان شان نہ سہی تو خاطر خواہ انتظام گھر پر کرنا اور وہ بھی اس مقام پر کافی پریشان کن مرحلہ تھا۔ لیکن ان لوگوں کے آنے کے بعد احساس ہوا کہ ان تمام برسوں میں ان کی سادگی، برتاوؤ، عادتوں میں کوئی نمایاں فرق نہیں آیا ہے۔ پھر بھی حتی الامکان انہیں آرام پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ اپنے کام میں ایسے مشغول ہوئے کہ کافی دیر بعدخیال آیا کہ مہمان صاحب کہیں نظر نہیں آرہے ہیں ۔ورانڈہ‘ہر کمرہ چھان مارا۔ جب باہرآنگن میں نظر دوڑائی تو گھنے درخت کی چھاؤں میں پودوں، پھولوں کے درمیان بنا چادر بچھائے نوار کے پلنگ پر انہیں محو خواب پایا۔ پتہ نہیں کس نوکر نے اسٹور روم سے استعمال نہ ہونے والا برسوں پرانا پلنگ ان کی خواہش پر بچھادیا تھا۔ جب وہ نیند سے جاگے تو ہم نے شرمندگی کے مارے صفائی پیش کرنی چاہی کہ شاید گھر والوں کے شور شرابے کے باعث انہیں یہاں سونا پڑا۔ پر ان کا جواب تھا ’بھابھی! آج برسوں سے زیر سماں کسی درخت کی چھاؤں میں دل سونے کو ترس گیا تھا۔ یہاں سو کر ایسا لگا کہ برسوں کی کلفت دور ہوگئی ہے۔ آپ کے گھر میں کہیں مہندی کا پودا ضرور ہوگا۔ میں نے مہندی کے پھولوں کی خوشبو اپنے نتھنوں میں محسوس کی ہے۔ چالیس سال پہلے ہمارے آنگن میں یہ خوشبو مہکا کرتی تھی‘۔ میں ان کی آنکھوں میں ماضی کی پرچھائیاں اور محرومی صاف دیکھ رہی تھی۔ آج ہم سب ایک بہتر زندگی کی دوڑ میں کیسے کیسے خواب قبروں میں سلا آئے ہیں۔
مندرجہ بالا شخصیت وطن سے دور ماضی کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے۔ جب کہ نئی نسل ان کے برعکس ہے۔ میرا ماموں زاد بھائی جب یہاں سے گیا تھا تو دو تین سال کا تھا۔ اب بیس سال کی جلاوطنی کے بعد مادر وطن کو آیا ہے تو ایک اجنبیت، ایک جھجک ہمارے درمیان حائل ہے۔ حیران حیران سا ہم کو، ہمارے آنگن کو دیکھ کر اس نے سوالات کی بوچھار کردی۔ پہلا سوال تھا’ آپ میرے ڈیڈی کا بڑی Sisterکا Daughter ہیں؟ اردو مادری زبان رکھنے والے خاندانوں کے سپوت جب اردو کی اس طرح مٹی پلید کریں تو خون کے آنسو رونے کو جی چاہتا ہے۔ ہم نے اس رشتے اور اس اردو دونوں ہی کو قبول کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا۔ نارنگی وسپوٹوں سے لدے ہوئے جھاڑوں کو دیکھ کر اس کی بابت پوچھتا رہا کہ یہ کونسے Tree ہیں؟ پھر ایک طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے اس نے پوچھا ’ یہ الٹا کیوں لٹک رہا ہے‘ وطن کی مٹی ، پھل پھول، جھاڑپودوں ، رشتہ داروں اور تہذیب سے ایسی ہی دوری نوجوانوں کو اتنا کورا اور بےگانہ بنا رہی ہے۔ اسی صورت حال کی سنگینی کا خیال کرتے ہوئے جولائی اور اگست کی طویل چھٹیوں میں اب کم عمر بچے بچیوں کو ننھیال وددھیال میں چھٹیاں گذارنے بھیجا جانے لگا ہے۔ ماں باپ سے دور یہ بچے جب دو ماہ ہمارے ساتھ گذارنے آتے ہیں تو ہم ان بچوں کو ہتھیلی کا چھالا سمجھتے ہیں۔
آپ کے گھر کی بات گھر مےں رہنے کا دور گذر گیا۔ گو آپ گھر کی چار دیواری میں بند ہیں لیکن آپ کے اطراف کی دو تین منزلہ عمارتوں کی کھڑکیوں سے بےشمار آنکھیں آپ کی تنہائی میں مخل ہیں۔ خواہ آپ بیڈ روم میں محو آرام ہوں یا گھر کے کام کاج میں مصروف ہوں۔ آپ کے ہر فعل کے چشم دید گواہ موجود ہیں۔ ہمارے گھر کئی منزلوں پر مشتمل ہوں تو اپنی نجی وخانگی زندگی کا ہر پہلو، ان سب پر ظاہر ہے۔ پوشیدہ رکھنے کا سوال ہی نہیں۔ اپنی بے مائیگی ومجبوری کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن سوائے بے بسی کے اس کا کوئی حل نہیں۔
گھر میں رہنا دشوار ہی نہیں بلکہ تکلیف دہ ہوتا جارہا ہے۔ کب تک بند کمروں ودروازوں میں کوئی اپنے کو مقید کرسکتا ہے۔ بناءتقصیر کی یہ قید ، یہ سزا بھگتنے پر ہم مجبور ہیں۔ مرنے کے بعد دوگززمین تو بہرحال مل ہی جاتی ہے۔ لےکن زندگی گزارنے کے لئے ایک من پسند گھر کا بنانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ہمارے ایک کرم فرما نے ہم سے خط لکھنے کا اصرار اور وعدہ کچھ اس طرح لیا کہ۔۔
اپنے آنگن کی مہکتی ہوئی پھلواری میں                  چاندنی پھول کھلائے تو مجھے خط لکھنا
اور ہم برسوں اپنا وعدہ نبھاتے رہے۔ اور پابندی سے انہیں خط لکھتے رہے۔ پھر یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ انہوں نے اس کی توضیح چاہی۔ ہمارا جواب تھا کہ فلیٹ میں رہ کر جو ان کے شعر کے ہر لفظ سے محروم ہوگیا ہو اب ایسے دم گھٹنے والے ماحول میں وہ کیا لکھے اور کیوں کر لکھے۔ ہمیں فرصت کے اوقات میں شعری مجموعے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ جب ہماری نظر ایک شاعر کے اس شعر پر پڑی کہ۔
وہ چاند اترنے کو تو آمادہ تھا لیکن            کیا کیجئے آنگن ہی میرے گھر میں نہیں تھا
تو ہماری سونچ شاعر کے شاعرانہ تصور وخیال سے کافی مختلف تھی۔ پتہ نہیں شاعر نے واقعی آسمان کے چاند کی بات کہی ہے یا اس کی مراد کھڑکی کے چاند سے تھی۔ لیکن ہمارے ناقص ذہن میں اس شعر کی تشریح یوں آتی ہے کہ کسی گاؤں کی گوری نے شہری بابو سے شادی کرنے سے محض اس لئے انکار کردیا کہ وہ فلیٹ میں رہنے لگا تھا۔۔
٭

No comments:

Post a Comment