Tuesday, December 8, 2020

Taboot By Nafeesa Khan..تابوت از نفیسہ خان

تابوت

                                                                                                نفیسہ خان





میں لوٹنے کے ارادے سے جارہا ہوں مگر

سفر۔  سفر ہے۔  میرا  انتظار  مت  کرنا

اکرام شروع ہی سے ایک سنجیدہ مزاج ذہین طالب علم تھا جس کا سارا وقت کتابوں کے ساتھ پڑھائی میں گزرجاتا، انجینئرنگ ڈپلوما کرنے کے ساتھ ہی اسے ایک کمپنی میں اچھی نوکری مل گئی۔ چار سال تک وہ بڑی محنت سے اپنا کام کرتا رہا، کمپنی میں آفیسرس اوروہ خود اپنے کام سے پوری طرح مطمئن تھا کام پرجانے کے لئے کمپنی ہی کی بس وقت مقررہ پرلے جاتی اورگھر کے قریب چھوڑجاتی تھی۔ آرٹی سی بسوں کے انتظاراورپھر دھکے کھانے کی کبھی ضرورت نہ پڑی تھی صبح آٹھ بجے کا نکلا شام چھ بجے تک گھرلوٹ آتا۔ اپنے افراد خاندان اورچند گنے چنے مخصوص دوستوں کے ساتھ شام گزارنے کا وقت اسے مل جاتا، مطالعہ کے ذوق کی تکمیل بھی ہوجاتی لیکن نوکری کرتے ہوئے تین چارسال بھی نہیں ہوپائے تھے کہ اٹھتے بیٹھتے امی ابا نے دوسروں کے بیٹوں کے باہر جاکر خوب کمانے کا ذکر کرکرکے اس کا ناطقہ بند کرنا شروع کردیا تھا۔ بہنوں کی شادی کی بات نکلتی تواماں ٹھنڈی آہیں بھرنا شروع کردیتیں کہ باپ کے وظیفے کی قلیل رقم اوربیٹے کے آٹھ ہزار روپلی میں کیا خاک بہنوں کے ہاتھ پیلے ہوں گے چھوٹا بھائی ابھی اسکول میں ہے توبڑا بھائی کونسا ہاتھ پیر مار زیادہ آمدنی کے ذرائع ڈھونڈھنے کوشاں ہے بھلا۔ شام توبس آرام کرتے رہتے ہیں صاحبزادے صبح آٹھ تا شام چھ بجے یعنی دس گھنٹوں میں آٹھ گھنٹے سخت محنت اور دوگھنٹے کی مسافت کے بعد کیا چند گھنٹے اپنی ذات کے لئے مخصوص کرنے کا بھی اسے حق نہیں تھا۔؟ لیکن جب وہ پچیس سال کا ہوگیا اوربہنیں بھی بیس بائیس کی سرحد پھلانگنے لگیں جوڑے گھوڑے کی رقم وجہیز کی مانگ روز بروز بڑھتی ہی جانے لگی۔ ابا کے چہرے کی جھریاں گہری اوراماں کے ماتھے کی شکنیں بڑھنے لگیں اوررات دن ان کی بڑبڑاہٹ کی آواز اونچی ہوتی گئی۔ دونوں بہنوں کی گردنیں مایوسی شرمندگی اورناکردہ گناہوں کے بوجھ سے جھکنے لگیں تواسے اپنی حیثیت پست اورکمائی حقیر ہونے کا احساس ہونے لگا باوجود بھرے پرے خاندان ووطن عزیز میں زندگی بسرکرنے کی دلی تمنا کے اسے ماں باپ کے اصرار اورگھر کے معاشی موقف کومستحکم کرنے کے لے شہربدرہوکر سعودی عرب کے لئے رخت سفر باندھنا ہی پڑا۔ اسے مختصر ساکمرہ اپنے مطالعہ کی میز کرسی،اپنا چھوٹا سا ایکیوریم اس کے پانی کے بلبلوں کے درمیان تھرکتی مچلتی رنگ برنگی خوبصورت ننھی منی مچھلیاں بہت عزیز تھیں ان سب سے جدا ہوتے ہوئے اس کا دل تڑپ تڑپ گیا پھر اس نے دل کودلاسہ دے لیا کہ دوچار سال میں خوب کما کروہ لوٹ آہی جائے گا۔ سبھی اس کے فیصلے پرخوش تھے بجز دادی ماں کے اکرام کواپنے سینے سے بھینچے اپنی لوث محبت کا پرتوخدا کرے کہ ہربشر پرپڑے کہ بس ایک وہی تھیں جویہ نہیں چاہتی تھیں کہ اکرام گھرسے بے گھرہوجائے باقی سبھی کی آنکھیں باوجود نمناک ہونے کے مستقبل کے سنہرے سپنوں کے تصور سے چمک رہی تھیں۔

زندگی میں پہلی بار جب ہوائی جہاز میں وہ سوار ہوا تو اس کے ہمراہ صرف اداسیاں تھیں۔ خوفناک خیالات کے بگولے وسوسوں کا ہجوم چین وسکون برباد کررہے تھے۔ جب تمام مسافرین اپنی نشستوں پربیٹھ گئے اورآمد ورفت کے دروازے بند ہوگئے ہوئی جہاز رن وے پردوڑتا ہوا اچانک ہوا میں اٹھ گیا تواس نے محسوس کیا کہ اس کے پیر اس کی اپنی سرزمین سے اکھڑ گئے ہیں اوراب وہ اپنی مرضی کامالک نہیں بلکہ ہوا کے دوش پراڑنے والا سوکھا پتہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ بچوں کی طرح بھپک پڑا۔ بارباردستی سے وہ چہرہ چھپانے کی کوشش کرتا رہا تھا ساتھ والی سیٹ پربیٹھے دوسرے لڑکے نے آنسوو


¿ں سے تربہ تراس کا چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اس نے ہلکے سے اس کی کلائی پراپنا ہاتھ رکھ دیا تھا اس لمس نے ایک لمحے کے لئے احساس دیدیا کہ کوئی کہیں نہ کہیں دکھ درد سمجھنے وسمیٹنے اوربانٹنے والامل ہی جاتا ہے جب ان جیسے کئی نوجوان جدہ ایرپورٹ پراترے توہرچہرے اجنبی، ہرآواز بیگانی، زبان لب ولہجہ سب کچھ نہ صرف یہ کہ بدلا ہوا لگا بلکہ بے انتہا سپاٹ وکرخت سامحسوس ہوا۔ جان پہچان وملاقات نہ بھی ہوتوجب اجنبی نظریں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں توایک ہلکی مسکراہٹ ہی انسانیت واخلاق کے ناتے ہونٹوں پرعود کرآتی ہے لیکن اہل وطن کا احساس برتری ورعونیت بے وطن ہوکر آنے والوں کواحساس کمتری میں مبتلا کردینے کے لئے کافی تھے۔ یہ پہلا سبق اس سرزمین پرپہلا قدم رکھنے کے ساتھ ہی اسے مل گیا تھا اس وقت اس کی پچیس سال تھی اورپچھلے تیرہ سال سے وہ رات دن سخت محنت مشقت کرتا رہا تھا اس درمیان میں کتنی بار اس نے چاہا کہ وطن لوٹ جائے اسے اپنا شہراپنا محلہ اپنا گھر اپنے رشتہ دار، شادیوں ودیگر تقاریب کی یادستاتی رہتی ہرشادی کا رقعہ اس تک پہنچ کراس کی تڑپ کچھ اور بڑھادیتا، اس کے جدہ آنے کے بعد سے دوبہنوں کی شادی اورایک بھائی کی تعلیم کابوجھ جب بحسن خوبی اپنے کندھوں سے اتارچکا تواس نے وطن لوٹ آنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن اماں نے ہرماہ ان کی بیماریوں گھرکے بڑھتے اخراجات، بہنوں کی سسرال والوں کی لمبی فہرست اس کے سامنے رکھ دی۔ ایک دوسال میں اس نے اتنی رقم بھیج دی کہ ان مرحلوں سے گزرنا بھی آسان ہوگیا اورپھر ایک بار لوٹ آنے کی بات کی توگھر والوں کوپرانا آبائی گھر اس قابل نہیں لگنے لگا کہ اس میں رہا جاسکے اس لئے اکرام کے خون پسینے کی کمائی پراس مکان کی ازسرنوتعمیر شروع کرادی گئی لیکن گھر باپ کے نام پرہی رہا جس میں اس کے ساتھ کے بھائی بہنوں کا پورا حصہ اورحق ہونے کی طمانیت حاصل کرلی گئی۔ تعمیر کے اخراجات اتنے زیادہ ہوگئے کہ مزید کئی سالوں تک وہ وطن یا خود اپنے بارے میں بھی سونچنے کے قابل نہ رہا۔ نہ ماں باپ بہنوں بھائی کویہ احساس ہوا کہ ہزاروں روپے ماہانہ کماکر بھیجنے والے نوجوان کے جذبات کا پاس ولحاظ کیا جانا چاہئے۔ اس کی عمر پینتیس سال کی ہورہی تھی لیکن اس نے کبھی کسی چیز کی خواہش نہیں کی تھی نہ کسی نے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔؟ کیسے رہتا ہے۔؟ کیا کھاتا پکاتا ہے۔؟ کیسے گزرکررہا ہے۔؟ اس کے بے کیف دن ونیند سے محروم بے نشاط راتیں زندگی میں مزید کڑواہٹ گھول رہی تھیں کبھی دوسال بعد ایک آدھ ماہ کے لئے وطن جاتا بھی تواس سے رہن سہن کے بارے میں سوالات پوچھے ضرورجاتے ہیں لیکن ان میں کوئی فکر نہیں جھلکتی۔ کوئی اپنائیت پیار نہیں ہوتا بلکہ یوں لگتا جیسے وقت گذاری کے لئے کسی داستان گو کوافراد خاندان نے درمیان میں بٹھا چھوڑا ہے۔ یا گھر کا بزرگ بچوں کی دل بہلائی کے لئے راجہ رانی کے کانی سنارہا ہو۔ ہرکوئی اس سے کسی نہ کسی چیز کا طلبگار ہی تھا لیکن اس کی عمر اس کی جوانی اس کی تنہا راتوں کے مطالبات کے بارے میں سبھی نے سوچنا چھوڑدیا تھا۔ بہنوں کی شادیوں کے ذمے داری سے سبکدوشی ہوگئی توان کے شوہروں کوخلیجی ممالک بھیجنے کا مطالبہ ہونے لگا پھربہنوں کے گھروں میں ہونے والی ہرولادت کا بوجھ اکرام کے سرپرڈالا جانے لگا۔ آرزو ارمانوں کی تکمیل کی حدیں لامحدود ہوتی گئیں ناتے نواسوں کے چھٹی چھلے سالگرہ عقیقے غرض ہرموقع پرپورے زیورات کی فرمائش کہ جدہ میں کوئی رہے اورتحفے میں سونے کے زیورات نہ دئے جائیں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔؟

آرزو کا سلسلہ کب ختم ہوگا اے شکیل

کھل گئے کچھ گل تو پیدا اور کلیاں ہوگئیں

اکرام کے ساتھ رہنے والے تمام پانچ چھ دوستوں کی شادیاں پچیس چھبیس سال کی عمر میں ہوگئی تھیں اکرام اکیلا ہی ایسا تھا جوپینتیس سال کا ہوکربھی کنوارا تھا۔ دوست اپنی میز کی درازوں یا سوٹ کیس میں اپنی منگیتر یا اپنی بیوی کوچھپائی گئیں تصاویر دیکھ دیکھ کراپنے بے چین دل کی تسکین کا سامان مہیا کرلیتے، جن کے پاس الفاظ کا ذخیرہ اورقلم پرعبورتھا وہ فرصت کے اوقات میں کسی گوشہ تنہائی میں بیٹھے بیوی یا مستقبل میں بننے والی شریک حیات کولمبے چوڑے خطوط لکھا کرتے جو چند سطوربھی ڈھنگ سے لکھنے سے قاصر تھے پلنگ پرنیم دراز، ٹیپ ریکارڈ سینے پررکھے اپنی آواز سے کیسٹ بھراکرتے گویا ان کے منظورنظر ان کے افراد خاندان ان کے روبرو ہوں اوروہ ان سے محوگفتگو ہوں کبھی آواز میں چہک ہوتی ہے توکبھی گلے میں پھندا سا پڑجاتا ہے،آواز رندھ جاتی، جملے ٹوٹ جاتے، الفاظ بکھربکھرجاتے، جب اظہار کے تمام طریقے ساتھ چھوڑجاتے ہیں توبس موٹے موٹے آنسو ہی خوشی وغم کے اظہار کا واحد ذریعہ بن جاتے ہیں۔ لیکن اکرام کی آنکھیں ان سے بھی محروم بڑی ویران سی لگنے لگی تھیں۔نہ تواس کوکبھی محبت بھرے خطوط لکھتے دیکھا گیا تھا نہ ٹھنڈی آنہیں بھرتے نہ کیسٹ میں آواز منتقل کرتے ہوئے۔ اداس۔ اداس سا خاموش اپنے آپ میں گم دکھائی دیتا، دوستوں کے گھروں سے آئے خطوط کے ہرلفظ میں ماں کی تڑپ کا عکس ہوتا کہ بیٹا کب آرہے ہو۔؟ تمہاری شادی کی ساری تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں یہ زیوروہ کپڑا خریدا گیا ہے اوراس کے دوست ان خطوط کوپڑھ کرخوش آئند لمحات کے تصور میں ڈوب جاتے ہیں لیکن اکرام کے پاس وقت گزارنے کا کوئی ایسا خوبصورت سہارا بھی نہیں تھا۔ اس کی زندگی کی یکسانیت اس کے معمول میں کوئی فرق کوئی تبدیلی نہ تھی کبھی کوئی خط کوئی فون آج تک اس کے لئے ایسا نہیں آیا تھا جس میں پیسے یا زیور بھیجنے کا مطالبہ نہ کیا گیا ہوگویا اس کا وجود پیسے پرشروع ہوکر پیسہ پرختم ہوگیا تھا۔ اس کی کمائی پرپورا خاندان پل رہا تھا بلکہ راج کررہا تھا۔ اس لئے اس کی شادی کی کسی کوجلدی نہ تھی حالانکہ کئی رشتے اس کے لئے آچکے تھے، صورت، شکل، قدوقامت میں وہ خوبرونہ سہی، پرجاذب نظرضرور تھا، کئی اچھے رشتے جدہ ہی میں دوست احباب کی توسط سے آنے لگے تھے لیکن ماں باپ کواس کی شادی کی جلدی نہ تھی۔ حالانکہ اس بار وہ کچھ امیدیں لے کر گھرلوٹا تھا۔ مکان میں کافی تبدیلی آگئی تھی پرمکین وہی تھے۔ بجزدادی ماں کے۔ جن کا مشفق وجود اس کی بے وطنی میں خاک میں مل گیا تھا۔گھر میں پیدا ہونے والے اس خلاءکوشاید سب سے زیادہ وہی محسوس کررہا تھا اورنہ ماحول کا خلاءہی کیا بلکہ اس جگہ کوبھی نئے فرنےچر سے پرکردیا گیا تھاجہاں برسہا برس سے کبھی دادی ماں اوران کا پرانا تخت ہوا کرتے تھے۔ اس نے اس بارمصمم ارادہ کرلیا تھا کہ وہ حیدرآباد ہی میں کوئی کام ڈھونڈ لے گا یا اپنا ورک شاپ کھول لے گا لیکن اس دفعہ خاندان ومحلے کے بزرگوں نے اس کی فرمانبرداری کہ ماں باپ کوحج کروانا بھی صاحب استطاعت اولاد کے فرائض میں شامل ہے گویا اس کے مستقبل کے خیالی محل کی اینٹیں پھرایک بارکھسکا دی گئیں اوروہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زندہ جسم اورمردہ احساسات کے ساتھ ہوائی جہاز کے تابوت میں بند ہوکر پھراپنے کام لوٹ آیا۔ اسی سال ماں باپ نے فریضہ حج بھی ادا کرلیا لیکن اکرام اس رقم کی پابجائی کے لئے سالانہ چھٹی پربھی نہ جاسکا۔

اکرام کے متین سنجیدہ صابر وخاموش طبعی سے متاثر اس کے دوست نے اپنی بہن کا رشتہ اس سے طئے کردیا۔ اگر اکرام کے دوست ساتھ نہ دیتے تووہ مزید چند سال مجرد ہی رہتا یا پھر کنوارا ہی مرجاتا دوسرے سال چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔ اپنی نئی نویلی دولہن شہلا کی محبت اس کی توجہ پا کر اس نے پکا ارادہ کرلیا کہ وہ جدہ قطعی نہیں جائے گا۔ نوکری نہ ملے گی توذاتی کاروبار کرلے گا لیکن شہلانے بھی ڈھکے چھپے انداز میں اسے واپس لوٹ جانے پرمجبور کردیا کہ حیدرآباد میں کیا رکھا ہے۔؟ بہت کمالوگے توبس دس پندرہ ہزار جب کہ وہاں تین چار گناہ زیادہ مل رہا ہے تورزق وروزگار کوکیوں ٹھکرارہے ہو۔ اس نے خود بھی جدہ دیکھنے وہاں اس کے ساتھ رہنے کی آرزو کا اظہار کردیا اوراکرام اپنی دلی خواہش وتمنا کا اظہار بھی نہ کرسکا اورہمیشہ کی طرح فرمانبردار بچے کی مانند وہاں کے لئے چپ چاپ سفرپرروانہ ہوگیا جہاں جاتے ہوئے سدا اس نے پیر من من بھرکے ہوجایا کرتے تھے۔ اورہربار وہ ارادہ کرتا کہ اگلی بارجب وہ آئے گا توپھرجدہ نہ جائے گا۔ شادی کے ایک ماہ بعد لوٹ آیا تھا کبھی نہ فراموش ہونے والے حسین لمحوں کواپنی گرہ میں مضبوطی سے اس نے کس کر باندھ لیا تھا کہ کہیں لوح زندگی سے مٹ نہ جائیں، کھونہ جائیں، چند خوشیوں کوبٹورکراس کی پاسبانی کررہا تھا کہ کہیں کسی نظربد نہ لگ جائے لیکن شہلا کا تصوراسے باربار لوٹ جانے پراکسانے لگا تھا۔ کوئی ان چھوا سا احساس حسین تخیل بن کر شہلا کا تصور کے روپ میں ابھرتا اوراس کی تنہائی وسناٹے گنگنانے لگتے طرب ونشاط سے محروم زندگی گزارنے کا وہ عادی ہوچکا تھا اب اضطراب بڑھ رہا تھا، بیخواب آنکھوں کی گواہ جانے کتنی راتیں گزررہی تھیں لیکن شہلا کی میٹھی جلترنگ جیسی آوازیں پیر کی آمیزش کے ساتھ لوٹ آنے کے خیال کوذہن سے نکال دینے کی تلقین ہوتی کہ ابھی تونئی زندگی کی شروعات ہوئی ہے۔ دوسرے ماہ شہلا نے خوشخبری سنائی کہ وہ اب دوسے تین ہونے والے ہیں۔ جیسے جیسے مہینے گزرنے لگے اکرام کا سکون درہم برہم ہونے لگا۔ ساتواں مہینہ پورا ہونے پرشہلا کی وہ تصویر ملی جس میں اکرام کی امانت اپنے وجود کا احساس دلارہی تھی۔ اکرام کی بے چینی بے قراری برداشت سے باہر ہونے لگی اسے خواہش کے ساتھ اپنے فرض کا احساس ہونے لگا کہ کم از کم اس وقت جب کہ شہلا ماں بنے گی اسے شہلا کے پاس ہونا چاہئے تا کہ سب قریبی رشتہ داروں کے درمیان بھی وہ اپنے آپ کوتنہا نہ محسوس کرے۔ اس نے فون اٹھایا اورشہلا کوبڑے پیاربھرے انداز میں یہ تیقن دیا کہ وہ اگلے ماہ سب کچھ چھوڑچھاڑکر اس کے پاس آجائے گا تاکہ وہ باہم مل کر اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزارسکیں لیکن بڑے کڑک تلخ وتحکمانہ انداز میں شہلا نے جواب دیا کہ کونسی بھاری رقم بینک میں رکھ چھوڑی ہے کہ نوکری چھوڑکر آنے کی بات کررہے ہو۔؟ اورآخر ان کے حصے میں آنے والے ایک کمرے میں کیا عمربھراپنا سنسار سمیٹے رہوگے کیا اپنے لئے دوسری منزل بھی تعمیر نہ کروگے۔؟ اکرام اپنا دل مسوس کررہ گیا جدائی کے صدمے فراق کی تڑپ۔ دوری کی اذیت۔ تنہائیوں کے المناک لمحے اس کامقدر بنتے گئے اپنے لوگوں میں بھی اسے کوراپن بیگانگی اورتغافل کا احساس ہونے لگا۔ اس کی ذات سے زیادہ ریالوں کی فوقیت اس کے سامنے ابھرکر آنے لگی مایوسی کا جال اس کے اطراف مضبوط ہونے لگا کہ شاید وطن کی مٹی ہی نے اسے دھتکار دیا ہے لیکن ہرلمحہ شہلا کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہوئے ننھے منے دل کی دھڑکن وہ اپنے سینے میں محسوس کرنے لگا تھا اس کا یک مدہم ساہیولیٰ جھولے کی پینگوں کی طرح اس کے کبھی قریب توکبھی دورہوتا جاتا۔ اس کی سونچ کی اڑان قوت پرواز کی محتاج کب ہوتی تھی اورپھر ہزاروں میل دوربیٹھا وہ اپنے باپ بننے کی خوشخبری سن کرپھوٹ پھوٹ کررونے لگا کہ آج اس کا بیٹا وہاں وجود سبھی کا بانہوں میں ہے توپھرکیوں صرف اس کی گود اس کی بانہیں اپنے بیٹے کوسمیٹنے کے لئے ترس رہی ہیں سب اکرام سے پیارجتاتے ہیں لیکن جب پیاروپیسے میں سے کسی ایک کوچننے کی بات آتی ہے تواس کی ذات پس پشت چلی جاتی ہے، اپنے بیٹے کوبھینچ کرچومنے کا خیال اس کے سوتے جاگتے ارمان بن گیا یوں بھی اس کی راتوں کے آسمان پرکوئی مہ وآفتاب کب چمکا تھا ظلمتیں ہی اس کا نصیب تھیں یوں لگتا کہ زندگی کا پیمانہ صرف تلخیوں سے بھرا گیا ہے اوریہی کڑوے گھونٹ پیتے ہوئے دیار غیر میں وقت گزارنا اس کا نصیب تھا۔

زندگی وحالات سے وہ نباہ کررہا تھا کٹھن مرحلوں سے گزرنے والی سخت کوش زندگی وہ گزاررہا تھا وہ اب اپنے ملک اپنے شہر گھرلوٹ جانا چاہتا تھا لیکن سب نے ملک کر اس کی راہیں مسدود کررکھی تھیں۔اب اس کا دل کام میں نہیں لگتا تھا ماضی کے کھنڈر سے تصورات کا خوبصورت محل بنانا سجانا سنوارنا اس کا مشغلہ بنتا گیا گزرتے دنوں کی یادوں کی تجدید وتدوین سے بڑھ کرمسرت وتسکین کا کوئی اورذریعہ تھاہی نہیں اس کے پاس۔ ایک مسلسل بہتے پانی کی طرح خیالات کا دریا بھی جاری وساری رہتا تھا اس سے فرار حاصل کرنے وہ اکثر خالی الذہن میلوں بلامقصد گھنٹوں سڑکوں پرگھومتا رہتا اس وقت تک جب تک کہ اس کے پیر شل نہ ہونے لگتے۔ دوست احباب سمجھاتے کہ آخر ہزاروں لاکھوں لوگ وطن ورشتہ داروں سے دورکام کررہے ہیں سب کو گھر کی یاد ستاتی ہے لیکن جتنا جذباتی انداز اس نے اپنا رکھا ہے یہ پاگل پن ہے لیکن اکرام کا ایک ہی جواب ہوتا کہ اسے اپنا وہی چھوٹا سا کویلو کا گھر پھر سے مل جائے جہاں اس کے پرسکون دنوں کی یادوں کی مہک ہے۔ اسے وہیں جانا ہے جلد بہت جلد جانا ہے۔ جب کہ سب اسے لوٹنے سے روکتے ہیں جب کہ وہاں کی مٹی اسے بلارہی ہے دوستوں کویقین ہوگیا کہ یا تو اکرام بیمار پڑجائے گا یا پھر پاگل ہوجائے گا لیکن دونوں میں سے ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا بلکہ خالی الذہن سڑک عبورکرتے ہوئے ایک تیزرفتار مرسیڈیز کی زد میں آکر اکرام ہمیشہ کے لئے پرسکون ہوگیا جسم جدہ کی سڑک پرپڑا تھا اورروح بجائے آسمان کے آناً فاناً پرواز کرکے حیدرآباد جاپہنچی ہوگی جس اکرام کوافراد خاندان نے سرزمین حیدرآباد سے دورروپے کمانے کی مشین بنارکھا تھا اسی اکرام کا سترہ سالہ جلاوطن زندگی کا اثاثہ اس کا بے جان جسم دس دن تک مردہ خانے کے برف دان میں حرارت سے محروم جسم، ذہن کے خوش رنگ تانے بانوں سے بیگانہ جسم۔ وطن وگھر لوٹنے کی پرامید آس لگائے راہ تک تک کرہمیشہ کے لئے موندھ جانے والی آنکھوں والا اکرام۔ ایک تابوت میں بند تھا۔ اکرام کی آمد کی اطلاع کے ساتھ بچوں بڑوں کا جمع ہوجانے والا جم غفیر ایئرپورٹ پرکہیں نظرنہیں آرہا تھا۔ اکرام کا نیم جاں چھوٹا بھائی چند ذمے دارلوگوں کے ساتھ اس گیٹ پرکھڑا تھا جہاں سے ضروری کارروائی سے نبٹنے کے بعد اسے اکرام کا تابوت حاصل کرنا تھا۔

جیتے جی برسوں میں تڑپا۔ تب نہ لی تم نے خبر

مرگئے پر پوچھتے ہوکیا ہوا۔؟ کیونکر ہوا؟

 

٭ 

No comments:

Post a Comment