Tuesday, December 22, 2020

تہی دامن ۔Tahi Daaman

تہی دامن نفیسہ خان کچھ ایسے کم نصیب بھی ہیں اس جہاں میں پیاسے کھڑے ہوئے ہیں سمندر کے آس پاس پروین نے شادی سے گھرلوٹ کراپنے کمرے میں قدم رکھا تواس کی جھلملاتی ساڑی کے پلوکا عکس الماری میں لگے قدم آئینے میں چمک اٹھا اس کی نظریں بے ساختہ آئینے پراٹھ گئیں جہاں اس ساڑی میں لپٹا اس کا سراپا تھا ناقدانہ انداز سے اپنے سراپا کا جائزہ لینے لگی۔ دبلا پتلا لیکن متنا سب جسم وقد۔ نہ اس کا شمار حسین وخوبصورتوں کی فہرست میں نہ بدصورتوں کے شمار میں۔ کھلتا ہوا گندمی رنگ۔ ناک نقشہ بھی قابل قبول تھا۔ بال کافی گھنے اورجھولتے ہوئے تھے جودوچوٹیوں کی منزل سے گذرکرایک چوٹی اورپھربڑھتی عمر کے ساتھ خضاب کے محتارج ہوکر اب ایک ہیرکلپ کی گرفت میں آگئے تھے جوانہیں سلیقے سے باندھے رکھنے میں مددگار ثابت ہورہا تھا ورنہ اس کے بال بھی اس کی زندگی کے شیرازہ کی طرح بکھرجاتے۔ لیکن اس کی زندگی بکھری کہاں ہے....؟ خود کوسمیٹتے سمیٹتے اب وہ اس مقام پرآگئی ہے کہ جہاں اس کے اپنے وجود کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچا ہے۔ یہ بہن جسے وادع کرکے وہ گھر لوٹی ہے آج پچیس سال سے ان دونوں کا ساتھ تھا آج وہ بھی اپنی سسرال سدھارگئی ہے اس تمام عرصے میں اس کا اپنی بڑی بہن کے کمرے اس کے پلنگ اس کے کپڑوں اس کے زیوراس کے دکھ سکھ میں ساجھا تھا۔ پروین نے سونے ڈبل بیڈ پرنظرکی جہاں اس کی چھوٹی بہن ٹیڑھی میڑھی توکبھی ہاتھ پیر پھیلائے بے خبر سویا کرتی اوراس کی بڑھتی عمر کودیکھ دیکھ کر پروین کی نیند اڑجایا کرتی کہ کہیں اسی کی طرح اس کی بہن بھی شادی کی عمر کے اس دور سے نہ گذرجائے جس کے بعد لڑکیوں کی شادی ایک پریشان کن مسئلہ بن جاتی ہے اورگذرتا وقت مہینوں سالوں میں تبدیل ہوتا جاتا ہے اوربے خواب راتوں کا آغاز شروع ہوجاتا ہے جس کاسلسلہ مایوسیوں پرجاکر ختم ہوجاتا ہے۔ پروین نے اپنی دونوں بہنوں کی شادی کے لئے کوششوں کا آغاز اسی دن سے شروع کردیا تھا جب انہوں نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرلیا تھا کیونکہ ماں نے اس وقت اس جہان فانی سے کوچ کیا تھا جب کہ لڑکیوں کوماں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ماں کی ناگہانی موت کے بعد گھرسنسار کی ساری ذمے داریاں اچانک اس کے کمزورکاندھوں پرآن پڑیں تھیں جب کہ ان دنوں اس کا مقصد حیات تھا توبس یہی کہ اعلیٰ تعلیم اوربڑی چوڑی ڈگریاں حاصل کرے۔ ہرمقابلے کے امتحان میں شریک ہوہراس انٹرویو میں شرکت کرے جواسے اچھی سے اچھی نوکری کی ضمانت دے سکے تا کہ گھر کے کمزورمعاشی موقف کوبہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکے۔ شان سے سراٹھا کرسماج میں جینے کا ارمان تھا۔ ماں کی اچانک موت کے صدمے کواس نے بڑے حوصلے کے ساتھ برداشت کیا اوراپنی دونوں بہنوں وبھائی کے لئے وہ جگہ لے لی جواس کی ماں نے خالی کردی تھی۔ باپ ٹوٹ سا گیا تھا کہ مرنا چاہئے تھا اسے جوپچھلے پانچ سال سے مختلف بیماریوں سے بدحال ہوگیا تھا لیکن قدرت کا کھیل کہ تیماردار بیوی آنا فانا چل بسی اوروہ ان بیماریوں وذمے داریوں کے ساتھ دکھ جھیلنے زندہ رہ گیا۔ لیکن پروین ایک مرد آہن کی طرح ڈٹ کران آلام کا مقابلہ کرنے کا عزم کرچکی تھی۔ ایک فرض شناس مرد کی طرح خاندان کی کفالت وذمے داریوں کونبھانے کے فیصلے نے اس کی زندگی کا رخ پلٹ دیا تھا ایک اچھی سرکاری نوکری نے اسے دفتر کی کرسی پرلابٹھایا توبس وہ بیٹھی ہی رہ گئی جب کہ اس کے ساتھ کی تمام لڑکیاں ایک ایک کرکے اٹھتی گئیں اپنے گھر بارسے لگ گئیں لیکن باپ بھائی بہنوں نے پروین جیسی سونے کی چڑیاں کے آشیانے کوبنانے کا خیال دل وماغ سے جھٹک دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ کوئی رشتہ کوئی پیام آبھی گیا توگھربھرکے افراد کے چہرے پرہوائیاں اڑنے لگیں سب سے پہلے باپ ہی ٹال جاتا کہ ابھی وہ بیٹیوں کی شادی کے موقف میں نہیں ہے کسی نے پروین سے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کیا چاہتی ہے....؟ حالانکہ بہنوں کے دل کا حال ایک دوسرے پرروز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے لیکن سب نے پروین کی زندگی کے اس پہلو کوتاریکی میں رکھنے میں عافیت سمجھی۔ ورنہ باپ کا وظیفہ مہینے بھرکے راشن کی بھی بھرپائی نہ کرسکتا تھا۔ پروین کی تنخواہ گھر کی گاڑی چلانے کے لئے پروین سے زیادہ ضروری تھی۔ پروین اپنی دونوں بہنوں کوڈگریوں کے حصول کی دوڑمیں شامل کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ جلد سے جلد ازدواجی بندھن میں بندھ جائیں جب کہ لوگوں کی غلط سوچ نے اس پرانا پرستی وخود غرضی کاالزام لگایا کہ وہ اپنی طرح اپنی بہنوں کواعلی تعلیم وعہدوں سے آراستہ کرنا نہیں چاہتی بس کسی طرح انہیں گھر سے باہر ڈھکیلنے کی چکرمیں ہے۔ لیکن وہ دودھ کی جلی چھانچ بھی پھونک پھونک کرپینے کی عادی ہوچکی تھی اس سے زیادہ اس حقیقت کوکون جان سکتا تھا کہ تعلیم۔ عہدے۔ خود مکتفی زندگی کا بھرم سب کچھ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب مستقبل کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک لڑکی کوچاہ ہوتی ہے اپنے گھر کی جہاں وہ دلہن بن کرجائے اوربیوی وماں بن کراپنی نسوانیت کی تکمیل کرے۔ اپنے آفس کے الگ تھلگ کمرے میں تنہا بیٹھی اکثر اس کے خیالات کی کشتی تصورات کے لامحدود سمندر میں ہچکولے کھایا کرتی.... فون کی گھنٹی بج اٹھتی تواس کا دل کہتا کاش یہ کسی اورکا فون ہوتا جواپنے آفس میں بیٹھے بیٹھے اس کی خیر خبر لے لیا کرتا ہے کہ کام کے دوران بھی بیوی کی محبت فائیلوں پرحاوی ہوتی ہے اورفون کے دوسری طرف سے آواز آرہی ہے کہ....” کیا ہورہا ہے جان!! بہت مصروف ہوبہت تھک گئی ہو....؟ دیکھو ایسا کرتے ہیں کہ آج اپنے ٹفن باکس کے حوالے کرکے ہم قریب کی کسی ہوٹل میں کھانے چلتے ہیں۔ کام جلد نبٹا کر میراانتظار کرنا۔ لنچ انٹرول میں تمہیں لینے آجاؤں گا“۔ محبت کی چاشنی میں ڈوبے الفاظ کی حلاوت اورچہرے پرپھیلی مسکان اس وقت یکلخت غائب ہوجاتی جب مسلسل بجنے والی فون کی گھنٹی رکنے کا نام نہ لیتی اورچپراسی دھڑام سے دروازہ کھول کراندرآجاتا کہ شاید میڈم اپنی کرسی پرنہ ہوں۔ لیکن میڈم تواپنی جگہ پرساکت سی بیٹھی سوچوں میں گم ہوتی.... وہ اپنے بارے میں کم اوربہنوں بھائی کے بارے میں زیادہ سوچتی.... بہن کی شادی پرشارجہ سے بھائی نے پچیس ہزار کا ڈرافت بھیج کر خون لگا کرشہیدوں کی فہرست میں شامل ہونے کی مقدورکی تھی جب کہ شادی کے اخراجات باوجود انتہائی ہاتھ روکنے کے تین لاکھ سے تجاوز کرگئے تھے۔ جوڑے کی رقم کااندازہ پچاس ہزار تھا لیکن بھاو تول کے بعد نرخ ایک لاکھ ٹہرا تھا۔ پروین نے حامی بھرلی کہ کہیں برسرروزگار شریف لڑکا ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ صاحبزادے اب تک بسوں میں دھکے کھاتے رہے تھے شادی کے بعد بھی مزید ان دھکوں کوبرداشت کرنے کی ان میں تا ب نہ تھی۔ اس لئے سسرال سے ہیروہونڈا کامطالبہ جائز تھا۔ فرج۔ ٹی وی۔ وی سی آر۔ واشنگ مشین۔ فرنیچر۔ کے نام پرڈائنگ ٹیبل۔ صوفہ سیٹ۔ شوکیس۔ ڈریسنگ ٹیبل۔ میلے دان۔ پھربرتن کراکری سب بڑی بہوکا لایا ہوا ہے اس لئے اس میں چھوٹے کی ساجھے داری معیوب بات ہوتی اوربڑی بہوکے سامنے چھوٹی کی ناک نیچی نہ ہواس لئے ان سب چیزوں کی مانگ بجاتھی اس کے علاوہ پچاس جوڑے کپڑے اورپندرہ بیس تولے سونا چاندی وغیرہ وغیرہ توہرکوئی اپنی بیٹی کے استعمال کودیتا ہی ہے اس لئے پس وپیش نہیں ہونا چاہئے تھا آخر کوبنے گی دولہن ہی.... اورچونکہ ہم امت محمدیہ سے ہیں اس لئے مہرشرعی ہوگا یہ تولازم ہے۔ ہربات کوپروین قبول کرتی گئی تھی کہ اس کے دل میں وسوسوں وخوف نے گھرکرلیا تھا کہ کہیں بات نہ ٹوٹ جائے اسی طرح مانگ مانگ میں ہاتھ روک لے گی تو اس کی بہن دلہن نہ بن پائے گی وہ سو چتی کہ اخباروں میں صفحے کالے کرنے والے نوجوان جو بحث مباحثوں میں جہیز نہ لینے کی قسمیں کھانے میں ان دنوں اپنا ثانی نہیں رکھتے اپنا نام پتہ۔ تعلیم ونوکری کے بارے میں اخبار میں تفصیل کیوں نہیں دیتے کہ لڑکیوں والے راست ان سے رابطہ قائم کرسکیں اوربغیر کسی حیل وحجت کے سہولت سے چند گھنٹوں میں نکاح وشادی کی تقریب کا اہتمام واختتام ہوجاتا اورنئی زندگیوں کا خوشی خوشی آغاز بھی ہوجاتا۔ یہاں اپنی پندرہ سولہ سال کی کل کمائی اس نے بہنوں وبھائی کی تعلیم پر۔ بھائی کے حصول وروزگار کی خاطر ویزا حاصل کرنے پراوران تینوں کی شادیوںپرخرچ کردی تھی۔ بھائی کے قدم جم گئے تووہ بھی اپنی بیوی بچوں کوساتھ لے گیا کہ حیدرآباد میں رہ کربن بیاہی نند اوربیمارخسر کی خدمت وگھربار سنبھالنے کی ذمہ داری کا بوجھ اس کی بیوی روبینہ پرڈالنا زیادتی ہے۔ پروین نے بوجھل دل لیکن مسکان بھرے چہرے کے ساتھ ان کووداع کیا۔ رات کے پچھلے پہر جب وہ ایرپورٹ سے لوٹی تھی تواندھیرے میں اس کے پیر تلے اپنی روئی کے گالوں جیسے نرم گول گپے تین سالہ بھتیجے کا چھوڑا ہوا کھلوناکچلاگیا تھا اوروہ پھوٹ پھوٹ کررہ پڑی تھی۔ پچھلے دوسال سے وہ اس کے سینے سے لگ کرسویا کرتا تھا۔ اب اس کی آنکھوں کے سوتے سوکھ نہیں رہے تھے وہ کوئی معصوم بچی نہ تھی کہ پلاسٹک کا کھلونا ٹوٹنے پررورروکر جان ہلکان کرلیتی۔ دل کے جانے کتنے زخموں کورفوگری وہا ب تک کرتی رہی تھی لیکن اس دن ان سب کے ٹانکے ایک ایک کرکے ٹوٹ گئے تھے۔ بہن کی شادی کے موقعے پرڈرافٹ کے ساتھ بھائی نے ایک تسلی آمیز محبت بھرا خط بھی بہن کوبھیجا تھا....”آپا! ایک ایک کرکے تمام ذمے داریاں یوں سے آپ سبکدوش ہوچکی ہیں ماشاءاللہ سے آپ کی تنخواہ بھی معقول ہوگئی ہے۔ شوہر بچوں کا جھنجھٹ توآپ نے پالا ہی نہیں نہ ہماری طرح بیٹوں کی تعلیم کا خرچ نہ بیٹیوں کی شادی کی فکر.... آپ کوآفس سے گھربنانے کا قرض بھی مل جائے گا اس لئے اب آپ جھٹ پٹ ایک اچھا سا مکان بنالیجئے کیونکہ ہمارا ان تین چارچھوٹے کمروں والا مختصر سا مکان ہمارے حیدرآباد آنے پرمیری بیوی بچوں کے لئے ہی ناکافی ثابت ہوتا ہے اورروبینہ ہی رہ جاتی ہے کہ باہر سے لائے ہوئے سامان کوکہاں سجائے .... ؟“ پروین نے الفاظ کے اس وار کوبھی برداشت کرلیا کسی نے اندازہ بھی نہیں لگایا کہ گھاو ¿ کتنا گہرا ہے وہ یہ نہ پوچھ سکی کہ سالانہ لاکھوں کماکر جب بھائی کا موقف اتنا مستحکم ہے کہ وہ شاندار مکان تعمیر کرسکتا ہے توپھراس کی نظریں گھرپرکیوں ہیں....؟ پروین نے یہ خط باپ کوپڑھ کرسنایا تھا۔ باپ کی زبان گنگ اورآنکھیں اشکبار تھیں۔ نہ زبان سے کچھ کہا نہ قلم اٹھا کرمکان پروین کے احسانوں کے بدلے اس کے نام کرکے اس کے محفوظ مستقبل کی ضمانت دی۔ گھر میں کام کرنے والی بڑی بی نے بھی جھاڑولگاتے لگاتے ایک ایک لفظ سنا اوریوں ہوئیں کہ....”ہاں بی بی.... واسع میاں نے سچ ہی لکھا ہے باپ کی جائیداد کا حقدار توبیٹا ہی ہوتا ہے۔ تم توچار آنے حصے کی حقدار ہو....“ پروین نے آنسوو ¿ں کے گھونٹ کے ساتھ اس حقیقت کے زہرکوپی لیا۔ اسے تواپنی حیثیت ہی چار آنے کی لگ رہی تھی۔ لیکن کتنے سوال تھے جواس کے ذہن میں آندھی کی طرح شورمچارہے تھے۔ وہ اپنے آپ سے جواب طلب کررہی تھی کہ اس گھر میں اس خاندان باپ۔ بھائی، بہنوں کے لئے جو اس نے اتنی ساری قربانیاں دیں تواس کا احساس کسی کوکیوں نہیں ہوسکا۔ وہ توایک بیٹی تھی پرائے گھر کی امانت۔ پھراس امانت کولوٹانے کی فکر کسی اور کو دامنگیر کیوں نہیں ہوئی....؟ اس کی کمائی پراس کا اپنا حق تھا پھر اس میں اتنے حصے دارکیوں شامل ہوگئے۔ وہ تنہا فرض شناس اولاد کاکردار نبھاتی رہ گئی جب کہ اس کی زندگی سے وابستہ اس ناٹک کے تمام کردار ایک ایک کرکے اسٹیج چھوڑکرچلے گئے اب نہ توتماشہ ہے نہ تماشہ بین.... اس نے اپنی بیش بہا زندگی کے ماہ وسال بھائی بہنوں پر نچھاورکردیے کیا اس کا یہی صلہ تھا کہ وہ تنہا بہ تقدیر رہ جائے....؟ کیا یہ اس کی خطا اس کی تقصیر تھی جس کی سزاءجس کا خمیازہ بھگت رہی ہے کہ اب وہ اس چھت کی بھی حقدار نہیں جس کے تلے اس نے زندگی کی چالیس بہاریں گذاردیں بلکہ یوں کہئے کہ خزاں رسیدہ دن ورات اپنی سوچ کے دائروں کے محورکے گردگھومتے گذاردیں اورجن کے لئے یہ سب کچھ کیا وہ اتنے لاتعلق سے اپنے گھربسائے بیٹھے ہیں کہ بہن کا گھربسانے کا خیال تک انہیں نہیں آتا۔ الٹا اس تذکرہ پرایک تمسخرآمیز جملہ دوہرایا جاتا ہے کہ....” اب کون انہیں بیاہ لے جائے گا....؟پھر ان کے قابل کوئی ادھیڑعمر کا آدمی بھی توملے“.... باپ کویہ ہیبت کہ سچ مچ اگر کسی آفس والے نے پروین کی تگڑی تنخواہ کی لالچ میں اس سے شادی کرلی تواس کا خود کا کیا ہوگا کون خدمت کرے گا....؟ کون دواو ¿ں وڈاکٹروں کا خرچ برداشت کرے گا؟ دوسرے بہن کوتشویش کہ آپا نے اگر شادی کرلی تواس کی کفالت کون کرے گا....؟ کیونکہ اس کا شوہر ایک لاپرواہ قسم کا شخص تھا جوگھر میں کم اورباہر زیادہ رہتا تھا جانے کن کن برائیوں میں ملوث تھا کہ ہزاروں کا روپیہ بھی اس کی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہی کافی نہ ہوتا تھا توبھلا بیوی کی ہتھیلی پراپنی کمائی رکھنے کا سوال ہی کہاں اٹھتا تھا۔ بیوی کی قدر ومنزلت کا تو تصور ہی اس کے پاس نہ تھا بیوی کی توسط سے سالی کی چشم عنایت کا طلبگار رہتا۔ سال کے آٹھ مہینے وہ بہن ہی کی روٹیاں توڑا کرتا اورحق سمجھ کربڑے دھڑلے سے توڑتا.... بہن کا احسان سمجھ کرنہیں کہ آپا کی کمائی کھانے والا کوئی ان کا نام لیوا ہے بھی تونہیں۔ پروین اپنے آپ میں پیچ وتاب کھاتی رہ جاتی کہ وہی کیوں اتنا خود غرضانہ رویہ نہ اختیارکرسکی وہ بھی توعدیل سے شادی کرکے اپنی دنیا بسا سکتی تھی۔ عدیل اس کا آئیڈیل تھا اس نے بھی ہرہر طرح سے قدم پرپروین کوسہارا دیا تھا اس کی دلجوئی کی تھی پروین سے شاید وہ شادی بھی کرلیتا اگرپروین تذبذب کا شکار نہ ہوتی وہ شادی توکرنا چاہتی تھی پروقت ومدت کا وہ تعین نہ کرسکی پلوجھاڑ کرسب سے جدا ہونے کا تصور بھی وہ نہ کرسکی اورعدیل موہوم سی امید کے سہارے بیش بہا زندگی کوضائع کرنا عقلمندی نہیں سمجھتا تھا کیونکہ تخیل وحقیقت میں زمین وآسمان کا فرق تھا تصورجتنا پرکیف ہوتا ہے حقیقت کبھی اس کے برعکس ہوتی ہے اوروہ بہلاو ¿ں میں زندگی گذارنے کا قائل نہ تھا اس لئے کمائی پوت بیوی کا انتخاب کرچکا تھا جس کے ساتھ وہ ایک معیاری بھرپورزندگی گذارہا تھا۔ رات دن اپنی نظروں کے سامنے عدیل کودیکھ کراوراس کا اپنایا ہواگریز کا انداز پروین کے لئے سوہان روح بناہوا ہے اس کے باوجود اس نے اپنے آپ پرمکمل قابو رکھا ہوا ہے آرزوارمانوں کے انبوہ کثیر اس کے دردل پردستک دیا کرتے ہیں لیکن اس نے تمام دروازوں کومقفل کرلیا ہے کیونکہ اب کسی کی آمد کی امید نہیں اپنے خانہ خراب کی تنہا.... واحد.... آزردہ.... شکست خوردہ مکین وہ خود ہے اورساتھ میں اس کی زندگی سے وابستہ مہیب سناٹے اور دل کی وحشت کا یہ عالم ہے کہ تمام دیواریں ڈھا دینے پرآمادہ وبرسرپیکار.... مجردزندگی گذارنے پربظاہر لوگوں کے تجسس کا وہ منہ توڑجواب دیتی ہے کہ”کیا شادی وشوہر کے بناءکوئی عورت زندہ نہیں رہ سکتی وہ مردوں کی طرح کمارہی ہے خودمختار زندگی گذاررہی ہے کبھی شادی کی ضرورت محسوس ہوگی توشادی کربھی لے گی....“ ان الفاظ سے وہ دوسروں کولاجواب کردیتی ہے لیکن ان کھوکھلے الفاظ سے خود کودلاسہ دینے میں کامیاب نہیں ہوپاتی کہ گھرسنسارکا سکھ ہی کچھ اورہوتا ہے اپنے قدموں پرکھڑے رہ کرسراٹھا کرجینے کا سلیقہ اس نے سیکھ لیا ہے لیکن کامیابیوں سے ہمکنار ہوکر بھی محرومیوں کوفراموش نہیں کرپارہی ہے۔ بس ایک موہوم امید ایک دھندلی سی آس کہ شکستہ ٹوٹی پھوٹی بناءپتوار کی کشتیاں بھی توکبھی کنارے لگ ہی جاتی ہیں۔ اب اس نے کسی اورکے بارے میں سوچنا چھوڑدیا ہے اب اس کی زندگی کا عنوان وزینت اس کی خود کی ذات ہوکر رہ گئی ہے۔ ناگہاں وقوع پذیر ہونے والے حادثات زندگیوں کی بنیادیں ہلادیتے ہیں لیکن یہاں تواس کا ہرعمل سوچا سمجھا اورحالات کے لحاظ سے اس کی مرضی کے مطابق ڈھالیا گیا تھا تفکرات وحادثات اس کے قدموں کی دھول تھے لیکن اب مستقبل کی فکر نے اس پریلغار کردی ہے نہ وقت نے اس کا ساتھ دیا نہ اس نے وقت کے ساتھ چلنے کی کوشش کی کہ اپنے اصول جوعزیز تھے اسے.... آج اصولوں کی تلوار کی تیزدھارپرکھڑی وہ لہولہان ہورہی ہے اوردوردورتک کوئی مسیحا نظرنہیں آتا۔ آج اس کا مقصد ہستی کچھ بھی نہیں خود غرض رشتوں کے درمیان کھڑی وہ ہاتھ مل رہی ہے۔ اسے دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ کوئی گداگرکاسئہ مطالبات ہاتھ میں لئے کسی رہگذرپربیٹھا ہے کہ کوئی سخی حاتم اس کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں کچھ تھمادے لیکن جنہوں نے صرف لینا سیکھا ہے دنیا نہیں ان سے سخاوت کی امید بھی کیسی....؟ آج بھی وہ منتظر ہے ایک روشنی کی کرن کی جواس کی حیات پرتسلط جمائے اندھیروں کومٹا سکے۔ اس کی قربانیوں کا اجردے سکے۔ اس کے باپ کی زندگی کے گنے چنے دن ختم ہونے سے پہلے اسے اپنا ہم سفر بنالے اس کے مجروح شکستہ احساسات جذبات اورارمانوں کی خاموش چیخوں کوخوشیوں کے شادیانوں میں بدل دے وہ شاید دست بدعا ہے کہ۔ع تیرا یہ حکم مانگ.... ہر اک چیز مجھ سے مانگ میری دعا کہ دے ۔میرے پروردگار دے ٭

No comments:

Post a Comment