Friday, December 25, 2020

انتظار ۔نفیسہ خان

کہتے ہیں لوگ موت سے بدتر ہے انتظار میری تمام عمر کٹی انتظار میں....!! یوں سننے میں یہ لفظ کتنا پیارا سا لگتا ہے لیکن اس میں سموئے گئے کرب کے لمحوں کووہی جان سکتا ہے جواس کیفیت سے گذرتا ہے اورکوئی اس کی چبھن سے بے نیاز ہوممکن ہی نہیں۔ ہرکسی کی زندگی میں ان لمحوں کی کسک ضرور ہوتی ہے نہ صرف بنی نوع انسان بلکہ چرند پرند بھی ہرروز اس سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ دن بھرجنگلوں میں چھپے رہنے والے جنگلی جانوروں کوتک انتظار ہے تاریکی پھیلنے کا تا کہ پیٹ کا دوزخ بھرسکیں۔ ادھر گھونسلوں میں بال وپر سے بے نیاز ننھے منے بچے بھی ماں کی چونچ میں بھرلانے والے منتظرہوتے ہیں گویا یہ کسی ایک فرد کی زندگی کا ناسورنہیں بلکہ بیشمار سسکتے لمحوں کی زندہ ان مٹ حقیقت ہے۔ شعور کی سرحدوں کوپہنچنے تک ہرفرد کا اپنا ایک زاویہ نگاہ بن جاتا ہے۔ اس کا ایک خواب ہوتا ہے جسے وہ تعبیر کی صورت میں عملی جامہ پہناناچاہتا ہے جس کے انتظار میں وہ اپنی عمرعزیز کے قیمتی سال گذارتا جاتا ہے لیکن انتظار کی مدت طویل ہوتی جاتی ہے جب کہ عمر گھٹ کرمختصر ہونے لگتی ہے خوشیوں کے سبک لمحے دبے پاو ¿ں گذرجاتے ہیں جب کہ انتظار کی گھڑیاں منجمد ہوجاتی ہیں۔ خوشگوار انتظار کی ابتداءتواسی لمحے سے شروع ہوجاتی ہے جب کہ تخلیق انسان کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ ایک قطرہ خون کوگوشت پوست کا روپ دھارنے کے لئے نومہینے انتظارکرنا پڑتا ہے خوشیوں بھری یہ سوغات جب گود میں آجاتی ہے تواس کے پروان چڑھنے کاانتظار کہ کب لخت جگر بڑے ہوجائیں کہ ان کی اپنی ضروریات کی وہ خود تکمیل کرسکیں۔ آج کل کی ماو ¿ں کوبچوں کے شروع کے تین سال تیس سال جیسے لگتے ہیں۔ ایک ایک دن انگلیوں پرگنتی ہیں کہ کب وہ نرسری اسکول جانے کے قابل ہوں گے اورکب انہیں سکون کی سانس لینا نصیب ہوگا لیکن ماں کی ممتا ہے اسکول میں بچوں کوچھوڑکرکام نبٹایا نہیں کہ ان کی واپسی کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ جن کی شرارتوں سے بیزار ونالاں ہوکر ہزاروں روپئے فیس بھرکرنرسری میں چھوڑآئی ہیں ان کے انتظار میں قدم دہلیز تک جا جا کرلوٹتے رہتے ہیں اورابھی تعلیم کی داغ بیل پڑی نہیں کہ ابتداءمیں انتہا دیکھنے کا انتظار .... ان کی پڑھائی مکمل ہونے کا انتظار.... امتحان لکھو توریزلٹ کا انتظار .... ریزلٹ آجائے توکالج میں سیٹ ملنے کا انتظار....مستقبل کے اتنے لمبے چوڑے پلان کہ ہم ہتھیلی پرتھوڑی جمائے ان کی عالمانہ گفتگو سنتے رہتے ہیں کیونکہ ہم نے ہمارے ماں باپ کو ہمارے مستقبل کے بارے میں اتنے رنگین خواب بنتے ہوئے نہ کبھی دیکھا نہ دوسروں کی اولاد سے اس طرح مقابلہ ومسابقت کرتے پایا۔ وہ توکہتے رہے کہ یہ ماہانہ آمدنی ہے.... یہ خرچ ہے....یہ بچت ہے۔ اس میں ضروریات زندگی وتعلیم کی تکمیل ہونی ہے شادیاں کرنی ہیں۔ نہ لمبی چوڑی جہیز کی فہرستیں نہ مطالبے۔ لیکن اب تومسابقت کا دور ہے ستیاناس ہواس مسابقت کا جہاں نیکی شرافت.... ایمانداری.... اخلاق کے میدان میں مسابقت نہیں ہوتی بلکہ اعلیٰ معیار زندگی کی دوڑمیں بھاگے جارہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس کی کوئی منزل نہیں ہے.... دوڑتے دوڑتے یاتوتھک کربیٹھ جاو ¿ یا منہ کے بل گرپڑو.... ہردوصورتوں میں سوائے تھکن بیزاری اورمدعا حاصل نہ ہونے کا احساس دل میں گھرکرتا جاتا ہے۔ جھلاہٹ بڑھتی جاتی ہے۔ چند روزہ حیات جہاں چھوٹی موٹی خوشیوں سے لطف لینے میں گذاری جاسکتی ہے وہ بھی زیادہ سے زیادہ پانے کی تمنا میں مایوسی کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایک گرہستن خاتون کی آنکھ تواذاں سے پہلے ہی کھل جاتی ہے سجدوں سے فراغت پائی کہ پوپھپٹے سے پہلے دودھ کی پیکٹ کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ وہ آجائے تواخبار ”سیاست“ کا انتظار خواہ کوئی دوسرا انگریزی یا تلگواخبار پڑھ لیں لیکن جس طرح چائے سگریٹ زردہ کے عادی لوگ اپنے خاص برانڈ ہی کی چیزں کے طالب ہوتے ہیں اوران کے بغیر بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بھی اس ”سیاست“ سے ایسی وابستگی ہے کہ اسے پڑھے بناءہماری تشفی نہیں ہوتی.... اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے کام والی کا انتظار.... وہ بھی سواندیشوں اوروسوسوں کے درمیان شدومد سے شروع ہونے لگتا ہے کہ پتہ نہیں وہ آج کام پرآئے گی بھی کہ کوئی بہانا بنا کرپٹ ماردے گی۔.... واش بیسن میں پڑے جھوٹے برتن دیکھ دیکھ کر دل ہول کھانے لگتا ہے۔ باربار کام والی کا ہیولیٰ دیدہ نمناک میں لہراتا رہتا ہے اورسانس کی طرح سے آتا جاتا رہتا ہے۔ اس وقت تک دل کی بیقراری کوقرار نہیں آتا جب تک کہ ہماری منتظرنظریں کام والی کوگھر میں داخل ہوتا ہوا نہ دیکھ لیں.... یہ توتھا صبح صادق کی اولین ساعتوں کا انتظار کا اختتام.... اس کے بعد شروع ہوتا ہے دوسرا مرحلہ جس میں صدر خاندان اوربچوں کے جاگنے کا انتظار شامل ہے یہ انتظارتاقیامت ختم نہ ہو اگرآپ پہلے پیارومحبت سے پھرباآواز بلند اوربعد میں صبر کا پیمانہ چھلک جانے پران پریلغار نہ کردیں۔ کیونکہ ایک عورت ہوکر پیدا ہونا اوربیوی بن کر گھر کی پوری ذمے داری بحسن وخوبی انجام دینا گناہ عظیم ہوگیا۔ ہرکوئی اپنے اپنے فرض سے ناآشنا.... لاعلم.... بلکہ لاپرواہ ہے کہ جس محترمہ نے خوشی خوشی گرہستی کا بوجھ پنے شانوں پراٹھانے کی حامی بھری ہے تواسی کوجھیلنا ہے چائے ناشتے پانی کا انتظام کرنا ہے.... بچوں کے ٹفن باکس.... واٹرباٹلس.... کتابوں کے ضخیم بیاگس جماتے جماتے اسکول ویان کے انتظار میں ہلکان ہونا ہے.... اس روزمرہ کی دھاپوش سے نبردآزما ہوکر گھڑی پرنظرپڑتی ہے توساڑھے آٹھ بج چکے ہوتے ہیں جب کہ خود اپنی ڈیوٹی پرپہنچنے کا وقت آتا جارہا ہے۔ ابھی بکھرے بستر.... بکھرے برتنوں کوسمیٹنا باقی ہے.... میلے کپڑوں کومیلے دان تک پہنچانا ہے جہاں بیشمار کپڑے دھوبی کا انتظار کررہے ہیں۔ ان تمام کاموں کونبٹا کرگرہستن بیبیاں جب اپنے دفتر.... کالج یا اسکول پہنچتی ہیں توہائے.... کوئی ان کی سج دھج دیکھے.... کچھ دیر پہلے سرجھاڑمنہ پھاڑ ہونقی صورتیں لئے بولائی.... بوکھلائی.... پھر کی کی طرح پھرنے والی یہ خواتین پورے اعتماد وبھروسہ کے ساتھ اپنی دھلی دھلائی کلف دارساڑیوں یا خوبصورت شلوار سوٹس میں.... ہلکے سے میک اپ کے ساتھ اپنے شانوں سے پرس لٹکائے پھولوں جیسی تروتازہ لگتی ہیں۔ جب اپنی کرسی پربراجمان ہوجاتی ہیں اورماتحتین باادب آکر کھڑے ہوجاتے ہیں توایک فاتحانہ مسکراہٹ ان کے لبوں پرکھیل جاتی ہے۔ وہ اپنے فرض کی انجام دہی میں بخالت ولاپرواہی نہیں کرتیں اپنے کام میں ڈوب جاتی ہیں۔ لیکن دماغ کے کسی کونے میں شام کا انتظام ہے کہ گھر پہنچ کر بہت سے ادھورے کام پورے کرنے ہیں۔ اماں کوہلکی سی حرارت تھی ان کے لئے دوائی لے کر جانا ۔ بچوں نے آج noodles بناکر رکھنے کی تاکید کی ہے.... میاں کے دوست رات کے کھانے پرمدعو ہیں اس کی تیاری کرنا ہے۔ اللہ اللہ تھکے تھکائے گھرپہنچنے شوہر اوربچوں کا انتظار کرنے لگے.... بچے بیچارے توایک خاص عمر تک اپنے بندھے بندھائے وقت پرضرورآجاتے ہیں لیکن شوہر نامدار کا آفس سے گھرآنے کا خاص وقت مقرر ہوتوپھردوستوں کی محفلوں کا کلب سے لوٹنے کا وقت کوئی مائی کا لال.... یا باپ کی بیٹی ہرگزمقرر کرہی نہیں سکتی کیونکہ شوہرکے انتظارمیں پلکیں بچھائے بیٹھنا اسے کھانا گرم کرکے دینا بیوی کی اطاعت فرمانبرداری وفرائض میں شامل ہے جب کہ کسی برہن کا اپنے محبوب کے انتظار میں نہ صرف دن رات بلکہ عمر گنوادینا بے شرمی وگستاخی ہی نہیں بلکہ پاگل پن ودیوانگی ہے۔ حالانکہ بقول منوررانا۔ع تمام عمر کو آنکھیں بنا کے راہ تکو تمام کھیل محبت میں انتظار کا ہے گھروالوںکوکمائی پوت خاتون کی تنخواہ کا مہینے کی پہلی تاریخ کوشدید انتظار رہتا ہے لیکن خاتون کے توروزشام میں جملہ افراد خاندان منتظررہتے ہیں کہ وہ کب کام سے لوٹے اورکب گرم گرم چائے یا کافی ملے۔ ہمیں جہاں لڑکوںکے جلد سے جلد بڑے اوربرسرروزگارہونے کا انتظار ہوتا ہے وہیں دیکھتے ہی دیکھتے منڈوے پرچڑھ جانے والی بیلوں جیسی بیٹیوں کودیکھ کر دل بیٹھتا جاتا ہے تعلیم کی تکمیل کے بعد عزت وآبروکے ساتھ ان کے ہاتھ پیلے کردینے کا نہ صرف ارمان ہوتا ہے بلکہ ایک ایسے داماد کاانتظار شروع ہوجاتا ہے جوہرطرح سے بیٹی کوخوش رکھ سکے۔ ماں باپ کی نیکی اوربیٹی کی خوش قسمتی معجزہ دکھائیں تووہ دن آہی جاتا ہے جب لڑکیوں کے خوابوں کے شہزادوں کا انتظار ختم ہوجاتا ہے اوربیٹیاں ہنسی خوشی اپنے اپنے شریک حیات کے ساتھ وداع کردی جاتی ہیں۔ وہ سسرال سدھاریں تواب ان کے فون کا انتظار.... صرف ان کی خیرخبروخط کے لئے پوسٹ میان کا انتظار نہیں ہوتا بلکہ مبارک خبرسننے کے لئے بھی کان منتظررہتے ہیں اورخط لکھیں توجواب کا انتظار تورہے گا ہی نا....؟ اس لئے۔ع خط لکھ کے اور جان مصیبت میں ڈال لی اب روز انتظار رہے گا جواب کا....!! ادھر بوڑھے ماں باپ جن کے لخت جگر ہزاروں میل دورہیں اوربینائی کی لودن بہ دن دھیمی پڑتی جارہی ہے انہیں انتظار ہے اس دن کا جب کمزورناتواں وجود کو وہ آکر سمیٹ لیں گے۔اپنے سینوں سے لگالیں گے.... لیکن۔ع نہ دل میں تاب نہ آنکھوں میں نور ہے لیکن وہی تڑپ ہے وہی انتظار باقی ہے گردش دوراں کوپیچھے ڈھکیلنا ممکن نہیں لیکن انتظار کی صعوبتوں کوجھیلتے ہوئے مہ وسال انتظار کی صلیب کندھوں پراٹھائے جی رہے ہیں۔ انتظار کے لمحے چین وسکون کے دشمن ہوتے ہیں۔ نہ صرف کٹھن بلکہ صبر آزما اورکبھی کبھی جان لیوا بھی ہوجاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں فرصت تھی کہ بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے۔ ہردیوان یا مجموعہ کلام کواٹھاکردیکھئے سینکڑوں اشعار معشوق کے انتظار کے جاں گسل لمحوں کے عکاس ہوتے ہیں.... وہ تو شعراءکی جوانی کی روداد بیان کرتے ہیں لیکن آج کل اہل حیدرآباد خواہ بوڑھے جوان بچے ہوں بناءلحاظ مردوزن اگرکسی انتظام کی تکلیف۔ کوفت وتڑپ سے گذررہے ہیں تووہ چیزیں ہیں.... پہلی.... ایک دن آڑ نلوں میں آنے والا پانی اوردوسری.... وقت بے وقت گھنٹوں بند ہوجانے والی بجلی کا پھر سے جلوہ گرہونے کا انتظار.... لفظ انتظارہماری زندگی کا ایک جزلاینفک کیوں بنا ہوا ہے....؟ ولادت کے لئے نوماہ تومقرر ہیں پرپروان چڑھتے چڑھتے کتنے قسم کے انتطار کی سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ کہاں کہاں.... کن مقامات پرانتظار کے کٹھن مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے یہ ہمارے دل داغ داغ سے پوچھئے.... آٹو.... بس.... ریل.... ہوائی جہاز کی آمد کا انتظار توہرشہری کا نصیب ہے۔ سرکاری دواخانوں کی لمبی قطاروںمیں انتظار کے جان لیوا مرحلوں سے بچنے کے لئے ہم نے مہنگے سے مہنگے خانگی دواخانوں کا رخ کیا لیکن یہاں بھی تواس عذاب سے نہ چھٹکارا پاسکے۔ اپنی باری کا انتظارکرنا ہی پڑا.... ڈاکٹر صاحب اورباری بھی آئی توچھوٹی سی بیماری کے لئے بھی ڈاکٹروں نے اتنی لمبی چوڑی مختلف قسم کے معائنوں .... ایکسرے.... اسکیاننگ وغیرہ کی فہرست بنائی گویا چھوٹی سی خطا کی بہت بڑی سزاءتجویز کی گئی ہو.... اس فہرست کودیکھ کرجو مریض چلتا ہوا دواخانے تک جاتا ہے وہ رپوٹس کے انتظار میں فریش ہوجاتا ہے اوراگر رپورٹ آنے میں تاخیر ہوتوبسترکولگ جانے والا یہ مریض گورتک پہنچ جاتا ہے.... بس یہیں وہ جھجھک جاتا ہے.... ٹھٹھک کررک جاتا ہے کیونکہ اسے ملک الموت کا انتظار نہیں ہوتا.... اس لئے کہ موت سے ڈرتا ہے۔ ہرمعاملے میں بشر آگے ہی آگے بڑھنا چاہتا ہے لیکن عمر آگے بڑھتی ہے تووہ پریشان ہوجاتا ہے بڑھتی عمر کا باعث ہے پھر بھی آخری آرام گاہ یعنی قبر کی پرسکون خاموشی کا نہ متلاشی ہے نہ منتظر.... حالانکہ یہ وہ مقام آخر ہے جہاں پردکھ درد ومسائل سے نجات مل جاتی ہے۔ پرجینا چاہتا ہے کیونکہ قبرکی تاریکی سے خائف ہے خوفزدہ ہے.... زندگی پربھی خوف وہراس اورنامناسب حالات کے اندھیارے چھائے ہوئے ہیں لیکن روشن مستقبل کا انتظار ہے کہ۔۔ع پھر رات نہ آئے زندگی میں اس دن کا ہے انتظار کب سے

No comments:

Post a Comment