Friday, October 25, 2019

عذاب جان ۔ نفیسہ خان Azab e Jaan by Nafeesa Khan

عذاب جان
نفیسہ خان







ماں کا وجود خاندان میں جب تک قائم رہتا ہے۔ تب تک اس کی محبت اس کی کشش اس کی اولاد کو دور دراز مقامات وملکوں سے اپنے وطن اپنے گھر کی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ گھر بنائے رکھنا۔ اس کے ہر فرد کا خیال، اس کی ضروریات وخوشیوں کی تکمیل ، پسند نا پسند کا احساس رکھنا بھی ایک عبادت ہے۔ اور اس خود غرض، خود پرست دنیا میں اپنی ساکھ قائم رکھنے والا وجود خوشیوں کی سوغات بانٹنے والی ہستی ماں ہی کی ہوتی ہے۔ اس لئے ماں کی محبت کے دعوےدار اپنی پہلی فرصت میں شہر حیدرا?باد میں چھوڑ ا?ئے اپنی ماں کے گھر کی رونق لوٹانے وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں۔ جیسے ہی چھٹیوں کا اعلان ہوتا ہے چوطرف سے فون کھڑکنے لگتے ہےں۔ دن تاریخ وقت مقرر ہوجاتے ہیں۔ پروگرام قطعیت پاجاتے ہیں کہ کون کب امی جان کے گھر آرہا ہے۔ کہاں جانا ہے۔ کتنی دعوتیں کس کے گھر پر ہیں کتنی پکنک پارٹیاں کن مقامات پر ہوں گی۔ تمام پروگرام قطعیت پاگئے تو قریبی رشتے داروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کوئی لندن سے آیا تو کوئی امریکہ کے مختلف شہروں سے، کوئی خلیجی ممالک سے آیا تو ہم جیسے گاوؤں کھیڑوں سے حیدرآباد پہنچے۔ اس طرح ہم سب جب اپنے مختصر سے آبائی مکان میں جمع ہوتے ہیں تو گھر کا سکوت شور شرابے سے اور اداسی رونق سے بدل جاتی ہے۔ وطن کے کھانے سالن کے مزے زبان سے چھوٹتے نہیں۔ اس لئے فرمائشوں کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور ان کی خوشبو سے گھر مہکتا رہتا ہے۔ ہنسی، قہقہوں ، بچوں کی کلکاریوں سے دیواریں جھنجھناتی رہتی ہیں لیکن سرشام ٹی وی کے کمرے میں افراد خاندان، بلا لحاظ عمر اس طرح جمع ہونے لگتے ہیں جیسے اذاں کے ساتھ مسجد میں محمود و ایاز۔ مصلیوں کی صف میں بندہ و بندہ نواز کا فرق مٹ جاتا ہے۔
ٹی وی کے سامنے عمر، رشتوں ، چھوٹے بڑوں کا لحاظ ختم ہوجاتا ہے۔ بےچارا ایک اکلوتا ٹی وی اور بےشمار چیانلس۔ سب کی جداگانہ پسند ہے۔ لیکن جو جیتا وہی سکندر کے مصداق جس کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ہو وہی سب پر حاوی رہے گا یا تو اس کی اپنی مرضی چلے گی یا پھر اگر وہ انصاف پسند ہے تو سب کا دل کچھ اس طرح خوش کرتا رہے گا کہ کسی چینل کا کوئی سیریل یا پروگرام ا?پ کے پلے نہیں پڑے گا گویا۔

کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھانا متی نے کنبہ جوڑا۔ کم عمر بچے کارٹون فلم کے شیدائی ہیں تو ان سے کسی قدر بڑے بچے اپنے تجسس کی خاطر کچھ کھلے ڈھکے سین دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان سے عمر میں زیادہ جو ہیں ایم ٹی وی پر فدا ہیں۔ تو نوجوان بیک وقت زی، اے ٹی این، سونی، اسٹار پلس وغیرہ سب ہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ نانی امی بھی موتیا بند ا?پریشن کے مابعد کا صاف چشمہ صاف کرتی ہوئیں اپنے کمرے سے ہانک لگاتی ہیں ”کےا الف لیلیٰ سیریل شروع ہوگیا “ قبل اس کے کوئی جواب دے الف لیلیٰ شروع ہونے کی میوزک کے ساتھ ہی وہ اپنی لڑکھڑاتی چال کے ساتھ اپنی مخصوص کرسی پر ا?کر براجمان ہوجاتی ہیں اور کسی کی مجال ہے کہ چینل بدل دے۔ ایسے میں دوسرے چیانلس پر بہترین سیریلس کا وقت ہوتا رہتا ہے۔ بچے بغاوت پر اترا?تے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان پچاس ساٹھ سال کا فاصلہ ہے اور ہم ان دو قطبین کے درمیان اپنے ا?پ کو خط استوا محسوس کرتے ہیں جس کی حیثیت زیرو ڈگری ہے۔ ان دونوں کی رسہ کشی میں ہم کھینچ تان کا شکار ہوتے ہیں۔ بچوں کو روکئے تو ا?ج کل وہ کہاں کے اتنے فرمانبردار ہیں کہ سر تسلیم خم کریں گے۔
پھٹ سے کہدیں گے۔۔
وقت اس سے بڑھ کر ہم پر اور کیا ڈھاتا ستم
جسم بوڑھا کردےا اوردل جواں رہنے دیا
نانی امی تلملا کر بڑبڑانے لگتی ہیں۔ ادھر انہیں سمجھانا اور ادھر بچوں کو ڈانٹنا روز کا معمول بن جاتا ہے۔ لیکن نہ وہ اپنا وطیرہ چھوڑیں گی۔ نہ یہ اپنے ا?پ کو سدھاریں گے۔ ہم قدامت وجدیدیت کے دوراہے پر کھڑے ہاتھ ملتے رہتے ہیں۔ بچوں کی فریاد ہے کہ صبح اٹھتے ہی مولوی صاحب قرا?ن پڑھانے ا?جاتے ہیں۔ اس کے بعد صبح سے شام تک اسکول، وہاں سے لوٹ کر کھیل بھی نہیں پاتے کہ ٹیوشن ماسٹر ا?موجود ہوتے ہیں۔ مغرب کے بعد ہی انہیں فرصت ملتی ہے تو کیا وہ ایک دو گھنٹے ٹی وی پر اپنا من پسند پروگرام بھی نہ دیکھیں اب انہیں ٹی وی سے باز رکھنے کا ہمارے پاس جواز بھی کیا ہے اور جبکہ بچے بھی ایک گھر کے نہیں بلکہ مختلف مقامات، ماحول سے ا?ئے ہوئے ہوں ، مختلف اخلاقی اقدار کے حامل ہوں۔ ان میں خاندانی اوصاف کم ہوں اور شائستگی کا فقدان ہو۔ ان کا اپنا مخصوص انداز فکر ہو تو سخت گیر رویہ اختیار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ورنہ چھٹیاں گزار کر بجاے انمول یادیں اپنے ساتھ لے جانے کے بڑوں کے دلوں میں بھی تلخیاں بھرجانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ لیکن نانی امی واماں جان کے دل کو ٹھیس لگتی ہے کہ ان کا وجود گھر والوں کے لئے باعث احترام نہیں رہا بلکہ مذاق کا موضوع بن گیا ہے کہ بچوں کی ننھی سی زبان بھی اب گز بھر لمبی ہوگئی ہے۔ انہیں شک ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ بچوں کی اس گستاخی کے پیچھے ہماری شہ ہے، ہماری ا?نکھ ہے۔ ہم لوگوں نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے کہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔
ماحول واسکول کو قصوار ٹھہرائیں یا اپنی پرورش میں کوتاہی کا اعتراف کریں۔ بیوی شوہر پر غصہ نکالے، شوہر بیوی کو مورد الزام ٹھہرائے، ایک دوسرے کو ہدف نشانہ بنا کر دل کی بھڑاس تو نکالی جاسکتی ہے لیکن حل تلاش کرنا ممکن نظر نہیں ا?تا۔
گھر بھر مہمان ہوں تو عورتوں کا زیادہ وقت باورچی خانہ کی نذر ہوجاتا ہے۔ ٹی وی کاسوچ ا?ن ہوا کہ گھریلو کام ٹھپ ہوجاتے ہیں۔ سب کی نگاہوں کا مرکز ہمہ وقت بس ٹی وی ہی ہے۔ گھر کے نوکر بھی بھاجی ترکاری پیاز کی ٹوکری وچاقو سنبھالے ٹی وی کے سامنے فرش پر ا?بیٹھتے ہیں کہ ایک پنتھ دو کاج۔ لچھمی دبے الفاظ سے کہتی ہے بی بی تلگو سنیما ا?رہا ہے وہ لگادیجئے نا۔ میں اس پر برس بڑتی ہوں کہ مفت ا?ئی کیمپ میں ا?پریشن کروانے کے بعد ایک ا?نکھ تو گنواچکی ہے اب اگر اس طرح دوسرا دیدہ بھی ٹی وی پر گاڑے بیٹھے گی تو وہ بھی پھوٹ جائے گا۔ ادھر امی جان بڑبڑاتی رہتی ہیں کہ سالن میں اب پہلے جیسے مزے ہی نہ رہے۔ وہ سل بتے پر پسے ہوئے لعاب دار مصالحوں کا مزہ اب مکسی میں پسے مصالحے میں کہاں ہے۔ کھانے پکانے میں ہماری دلچسپی ہی نہیں تو اچانک ہماری نظریں ماما پر اٹھ جاتی ہیں جو ہنڈیا میں کفگیر ہلاتے ہلاتے باورچی خانے کے اس کونے تک ا?گئی ہے جہاں سے ٹی وی نظر ا?تا ہے۔ جب کسی کام میں پوری توجہ شامل نہ ہو تو اس کام کا بخوبی انجام پانا ممکن نہیں ہوتا۔ قورمے کے مصالحے کبھی کچے رہ جاتے ہیں تو کبھی ٹی وی دیکھنے میں محو ہو کر بھونتے بھونتے جل جاتے ہیں۔ خشکہ گلتی بن جاتا ہے تو دودھ ابل کر فرش پرٹپکنے لگتا ہے، پھلکا پھولتے پھولتے پٹاخ سے پھٹ جاتا ہے۔ یہ رہی نوکروں کی مگر افرادخاندان کا حال ان سے مختلف ہے۔ ساری کا فال ٹانکنے والی ا?پا بھی ساڑی فال لئے معہ سوئی دھاگوں کے ڈبے کے ٹی وی کے سامنے بچھے تخت کے ا?خری کونے پر جا بیٹھتی ہیں۔ بچیاں گڑیاں کھیلتے کھیلتے گڑیوں سمیت اس طرح کھنچی چلی ا?تی ہیں جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کھینچتا ہے۔ لڑکے لوڈو کےرم بورڈ کا کھیل ادھورا ہی چھوڑ کر دوڑ پڑتے ہیں۔ بڑے ابا جو کسی میگزین کی ورق گردانی میں مصروف تھے وہ بھی خراماں خراماں ا?موجود ہوتے ہیں۔ ہاں بس اتنا خیال ضرور رکھتے ہیں کہ نوجوانوں سے ذرا ہٹ کر بیٹھیں ساس صاحبہ بھی بیٹھیں گی ضرور یہ احتیاط برتتی ہیں کہ دامادوں کی نگاہ کی زد میں نہ ہوں۔ کسی کی ا?ڑ یا پیٹھ کے پیچھے نشست ہو۔ نظریں ٹی وی پر، پلو سرپر، دامادوں سے بظاہر روبرو نہ ہونے کی جستجو، لیکن اشتیاق ٹی وی تک کھینچ لایا ہے۔ رشتے اتنے معتبر و برتر کہ نہ کسی مذاق و لطیفے پر کھلکھلا کر ہنسنے کی چھوٹ نہ پوری طرح لطف اندوز ہونے کا موقعہ۔ جہاں ایسا ویسا کوئی شوخ سین ٹی وی کی چھوٹی اسکرین پر ا?گیا تو اپنی نشست پر کسمساکر رہ گئیں۔ نہ اٹھتے بنتا ہے۔ نہ دیکھتے بنتا ہے عجیب بن جاتا ہے۔ چھوٹی بہو نہ صرف اپنے ننھے بچوں کو ہی بلکہ ان کی دودھ کی شیشی پوتڑوں کی باسکٹ کو بھی ٹی وی کے سامنے سمیٹ لاتی ہے کہ پروگرام چھوڑ کر بار بار نہ اٹھنا پڑے اور خلل نہ ہو۔ اس مکمل انتظام کے باوجود اگر منے میاں اپنے سیدھے ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کر کے صرف کرن انگلی اپنی ممی اور ٹی وی کے درمیان نچاتے ہیں تو وہ اتنی قہر ا?لود نظروں سے اسے دیکھیں گی کہ بےچارے بچے کو اپنی معصوم خطا پر بہت کچھ قطع کرنا پڑجاتا ہے۔ بچوں کو کمبخت ماری بھوک بھی تو جلد لگ جاتی ہے۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اتنی نئی فلم کازی ٹی وی پر پریمیر شو چل رہا ہے۔ اسے مس کرنا کس قدر تکلیف کا باعث ہے۔ بادل ناخواستہ بڑی بہو نے اٹھ کر رکابی میں سالن ڈالا پھر ٹی وی کے سامنے ا?کر بیٹھ گئیں۔ خود کی گود میں بچہ، بچے کی گود میں رکابی، نظر ٹی وی پر، ہاتھ رکابی میں اور نوالے بچے کے منہ میں۔ انہماک کا یہ عالم ہے کہ یہ احساس تک نہیں کہ نوالے بچے کے منہ میں جارہے ہیں یا ادھر ا ±دھر بھٹک رہے ہیں۔ ساس صاحبہ خشمگیں نگاہوں سے بہو کو گھورے جارہی ہیں۔ بنا کسی کو مخاطب کئے دل کی بھڑاس نکال رہی ہیں کہ یہ بھی بچوں کی پرورش کا کوئی طریقہ ہے۔ ذرا دیوانگی کا عالم تو دیکھو۔ چین سے بیٹھ کر بچوں کو کھانا کھلانا بھی ان لوگوں کے لئے دوبھر ہے۔ میرا جواب ہوتا ہے کہ جب اس عمر میں گورکنارے بےٹھ کر ہم بھی سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہوگئے ہیں تو ان کو کیوں دوش دیں۔ ان کی تو عمر ہی زندگی کا لطف اٹھانے کی ہے۔ یوں بھی ہمارے دخل ومداخلت کو وہ کب برداشت کرسکتی ہیں۔
حیدرا?باد میں جس طرح ٹریفک کا اڑدھام ہے ایسے ہی مچھروں کی بہتات ہے۔ خصوصاًہر شام تو ان کی بین ٹی وی کی میوزک پر حاوی لگتی ہے۔ بھائی جان بنا ہوا پانی غذا کے شاید جی بھی لیں مگر کچھوا چھاپ بتی کے بغیر گذارا ممکن نہیں۔ وہ اپنی کرسی کے قریب یہ بتی سلگالیتے ہیں تو بھابی جان اوڈوماس کی ٹیوب چپکے سے پاس کرتی جاتی ہیں کہ کم از کم کرسیوں کے نیچے پاو ¿ں کو سوئیاں چبھنے کا احساس نہ ہو۔ ایک بچے نے کہا ”ہاں ہاں اوڈوماس لگالیجئے“ مچھروں سے بچئے، کیونکہ بقول نانا پاٹیکر ”ایک سالا مچھر ا?دمی کو“--- دوسرے لڑکے نے لپک کر اس کا منہ دبوچ لیا۔ اس کے باوجود معنی خیز مسکراہٹیں سبھی کے لبوں پر کھیل گئیں۔ اب ا?پ اسے بے غیرتی کہئے کہ بی حیائی۔ رفتہ رفتہ ہم اس ماحول میں ڈھلتے جارہے ہیں۔
یہ بات عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہ جس شدت سے کسی بات کی مخالفت کی جاتی ہے اتنا ہی برعکس اس کا رد عمل ہوتا ہے۔ مشرقی اقدار پر مغربی تہذیب کے غلبے کا شکوہ کرنے والے دہائی دیتے ہی رہ گئے اور مغربی تہذیب کا جیتا جاگتا، تھرکتا، لچکتا، مٹکتا، بل کھاتا پاپ سنگر، باوجود کئی رکاوٹوں وقانونی حد بندیوں ومقدمات کے۔ سرزمین ہند پر کروفر کے ساتھ ، کسی اوتار کی طرح پرتپاک استقبال کے درمیان وارد ہوا۔ اپنے پلاسٹک سرجری زدہ چہرے پر بالوں کی باریک سی لٹ لہراتا۔ ہوائی بو سے اڑاتا، جس طرح ا?یا تھا ویسی ہی سرخرو کامران، کروڑوں روپیوں کی ہیر پھیر کو پس پشت چھوڑ کر ہزاروں دلوں کو اپنے تھرکتے قدموں سے روند کر اپنی ٹوپی دوسرے نیتا کے سرڈال کر چلا بھی گیا۔ لیکن ا?ج تک ٹی وی پر اس کے پروگرام سے لطف اٹھانے ومسحور ہونے والوں کی کمی نہیں۔ اگر وہ نہ بھی ا?تا تو ہم اسے ایم ٹی وی پر ضرور دیکھ لیتے۔
حسینہ عالم کے انتخاب کا شو بنگلور میں نہ ہوسکے اس کے لئے مورچہ وجلوس نکالے گئے خود سوزی کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ بھوک ہڑتالیں کی گئیں۔ لیکن حسن وخوبی کا خوبصورت امتزاج، انچ وسینٹی میٹر کی پیمائش کے مطابق ڈھلی ہوئی کندن کی طرح چمکتی، اٹھلاتی، حسینائیں شاید پہلی بار ہندوستان ا?ئیں ہوں۔ لیکن ان نیم برہنہ قطار در قطار حسینان عالم کو ہم ہندوستانی برسہا برس ٹی وی پر دیکھتے ا?رہے ہیں۔ اور ہم مورچہ وجلوس نکال کر ، مشرقی تہذیب کی دہائی دے کر، اس مقابلے کو روکنے میں کامیاب ہوبھی جاتے ہیں تب بھی دنیا کے کسے حصے سے یہ نظارہ ہم دیکھ ہی لیتے۔ انہیں دیکھنے نہ بنگلور جانے کی ضرورت تھی نہ ہزاروں کا داخلہ ٹکٹ خریدنے کی پریشانی۔ ہماری اتنی استطاعت کہاں کہ ان سب اخراجات کی بھرپائی کرسکیں۔ بس ایک سوچ ا?ن کردیا اور وہ چار دیواری میں وارد ہوگئیں۔ جب ہم ہی مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں تو اس کو کوسنے سے کیا فائدہ۔ مغربی تہذیب خود ہی ہمارے گھروں میں در ا?نے کا سوال کہا ں ہے۔ ہم ہی اپنی خون پسینے کی کمائی خرچ کر کے مغربی لباس مغربی رہن سہن کے انداز کا گھریلو سامان، وی سی ا?ر ، ٹی وی کیسیٹس سب ہی کچھ ہزاروں روپئے خرچ کر کے خرید رہے ہیں۔ ہم پر معاشی پریشانیوں کا بار گراں ہے اس کے باوجود خواہ ہمہ منزلہ بنگلے ہوں یا گاو ¿ں کھیڑوں کے جھونپڑے نما گھر شاذ ونادر ہی کوئی چھت ایسی نظر ا?ئے گی جہاں اینٹینا لگا ہوا نہ ہو۔
ٹی وی کا جادو سر چڑھ کر ایسا بولنے لگا ہے کہ دوران پروگرام، قریب کی مسجد میں خوش الحان موذن صاحب کی اذاں عشائ کی نماز کا بلاوا دینے لگتی ہے تو ہم پیدائشی مسلمان ہیں اس لئے بچوں کے ہاتھ اور ہمارے پلو احتراما سروں پر ا?جاتے ہیں۔ ایک دو افراد خاندان نماز کو اٹھ بھی کھڑے ہوتے ہیں۔باقی لوگ بعد ازاں سر سے پلو، جھٹک کر پھر ٹی وی دیکھنے میں ڈوب جاتے ہیں۔ سائنسی ترقی وایجادات نے سہولتیں ہی سہولتیں بہم پہنچادی ہیں کہ اب فون رسیو کرنے کے لئے بھی نہ تو ٹی وی سے نظر ہٹانے کی ضرورت ہے نہ وہ اپنی جگہ سے ہلنے کی۔ کارڈلس فون بازو رکھا ہے۔ بلکہ ہاتھ سے چھوٹتا ہی نہیں۔ جبکہ دنیا عاقبت چھوٹتی جارہی ہے۔
شادیوں ، تقاریب، دعوتوں ، پکنک، پارٹیوں کے ہنگاموں کے بعد، چھٹیاں گزار کر ہم پھر سے اپنے جائے معاش پر گو کہ لوٹ ا?ئے ہیں لیکن دل و خیالات ماں کے ا?نگن ہی میں بھٹک رہے ہیں۔ ٹی وی پر ہمیشہ کی طرح ایک سے بڑھ کر ایک پروگرام پیش ہو رہے ہیں۔ ہمارے شوہر صاحب بار بار ا?وزیں دے رہے ہیں۔ لیکن جی اس کمرے میں قدم رکھنے کو بھی نہیں چاہتا کہ بہت سے چہرے ، بہت سی باتیں ، بہت سے جملے، بہت سی یادیں ، بے چین کئے جارہی ہیں۔ کہیں سینیےمیں ایک ہوک، ایک کسک سی اٹھتی ہے کہ یہ ٹی وی سچ مچ عذاب جان تھا“۔۔


No comments:

Post a Comment