Sunday, October 27, 2019

تنہائی۔نفیسہ خان۔ Nafeesa Khan






تنہائی
نفیسہ خان


ہر فرد کی زندگی کا عذاب

زندگی کسی کے لئے سزا ہے تو کسی کے لئے جزا۔ کوئی زندگی کی صلیب کو اپنے کاندھے پر اٹھائے گھسیٹ رہا ہے کہ یہ خدا کی رضا ہے۔ دل رنجور ہے، دکھی ہے، غموں سے چور ہے، پھر بھی جیتا ہے۔ تنکا تنکا جمع کر کے آشیاں بنایا تھا۔ لیکن خرمن آرزو میں آگ لگ گئی اور وہ کچھ نہ کرسکا۔ ایک خاموش تماشائی بن کر رہ گیا۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ ماہ وسال کیسے بیت گئے اور ایک دن اچانک محسوس ہوتا ہے۔ کہ زندگی کا رواں دواں کارواں اسے تنہا چھوڑ کر بہت آگے نکل گیا ہے۔ یہ حالت ہر اس عورت اور مرد کی ہوتی ہے جو زندگی میں مجرد رہ جاتے ہیں۔ بالکل تنہا وبے بس۔ وہ سونچتے رہ جاتے ہیں کہ کہاں کس مقام پر وہ سماج، خاندان رشتے داروں اور حالات سے سمجھوتہ نہیں کرپائے۔ زندگی کے نشیب وفراز میں کہاں کونسی ٹھوکر ان کو تنہائیوں کے حوالے کر گئی۔ کونسی زنجیر کی کڑی کہاں درمیان سے ٹوٹ گئی۔ رشتوں کی گرہ کیسے کھل گئی ۔ اس کو کس کر باندھنے کی کیوں اپنوں نے کوشش نہیں کی ؟
مجردمرد ہو یا عورت، پچاس سال کی عمر کو پہنچنے کی بعد ان پر تنہائی گراں گذرنے لگتی ہے۔ دل میں ایک پھانس سی اٹک جاتی ہے کہ کاش ان کا بھی کوئی جیون ساتھی ہوتا ان کے دکھ درد بانٹنے والاہوتا۔ بڑھتی عمر کی ساتھ یہ کاش ، کاش، کاش، کاش، ہر دھڑکن کے ساتھ کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ شادی نہ کی ہو تو وہ تنہا ہے۔ شریک حیات کی موت ہوگئی ہو تو وہ اکیلا ہے۔ علیحدگی ہوگئی ہوتب بھی اپنی یا اپنی شریک زندگی کی زیادتیاں یاد کر کے وہ ہر دم سلگتے رہتے ہیں۔ بعض بدقسمت لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک چھت کے نیچے ساتھ رہتے ہوئے بھی خیالات کے ٹکراؤ کی وجہ سے ایک دوسرے سے اتنی دور ہیں کہ ایک کے دل پر گذرنے والی کیفیت سے دوسرا قطعی لاعلم ولاپرواہ ہے۔۔
تنہائیوں میں اپنی کسی کا گذر نہ ہو
جس طرح جی رہے ہیں کسی کو خبر نہ ہو
تنہائی وہ عذاب ہے جسے جھیلنا بڑا تکلیف دہ بڑا کربناک ہوتا ہے۔ خصوصاً جب بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور جوانی ایک ایک کر کے ٹوٹے دھاگے کی موتیوں کی طرح پھسل کر ماضی کے سنگین فرش پر بکھر بکھر جاتے ہیں۔ ماں، باپ، بہن ، بھائی بھرا پرا خاندان گھٹتے گھٹتے مختصر ہونے لگتا ہے اور کسی دن آپ کو لگتا ہے کہ خاندان کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے آپ کی عمر اتنی آگے نکل گئی کہ شادی کر کے گھر بسانے کا دور گذر گیا۔ ماں باپ نے اپنی بیٹیوں کی شادی کا بوجھ بیٹوں کی سر ڈالدیا اور بہنوں کی ہاتھ پیلے کرتے کرتے بھائیوں کے بال سفید ہوگئے۔ کسی نے ان کی جذبات کو جاننے تک کی کوشش نہیں کی۔ ایک کے بعد ایک سب سسرال رخصت ہوگئیں اور ماں باپ دنیا ہے سے رخصت ہوگئے۔ یہ وہ مجرد لوگ ہیں جو معاشی مسائل کے مارے ہوئے ہیں۔۔
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
دوسری طرف وہ عورتیں ہیں جو تعلیم یافتہ، سگھڑ ، شریف خاندان کی چشم وچراغ ہیں۔ نہ جانے کتنے خواب خوش آئند زندگی کے دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنی عمر عزیز کے چالیس سال گزاردیئے ہیں لیکن بند کواڑوں پر کسی نے دستک نہیں دی۔ نانی امی کہتی تھیں کہ ہر مرد وعورت کی جوڑی اللہ کے پاس سے بن کر آتی ہے۔ تو پھر خدا اپنے ان بندوں کو کیسے بھول گیا؟ قصور اللہ کا ہے یا خطا بندے کی ہے کہ بر ڈھونڈھنے ، چھاٹنے، پھٹکنے میں سال پر سال ہوگئے۔ تو معلوم ہوا کہ پت جھڑ کا زمانہ آگیا۔ بہن ، بھائی، سہیلیاں سب اچھے سے یا برے سے اپنے گھر آباد یا برباد کر کے چلے گئے لیکن ان الھڑ لڑکیوں سے پختہ عمر کی عورتیں بن جانے والیوں کے گھر نہ آباد ہی ہوتے ہیں نہ برباد۔ ایک لق ودق صحرا بن کر رہ گئے کہ جہاں دور دور تک کوئی نخلستان بھی نہیں۔ خواہ وہ خود مکتفی ہوں زندگی میں آسودگی ہو، بظاہر مطمئن بھی لگتے ہوں لیکن تنہائی میں جھانکئے۔ سائیں سائیں کرتا گھر یا کمرہ جہاں سب کچھ ہے بشمول قریبی رشتے داروں کےلیکن زندگی میں ایک خلاءسا ہے۔ نہ کوئی پیار دینے والا نہ رنج وغم بانٹنے والا ۔ نہ دل کی بات سننے والا، نہ سخت سست سنانے والا۔ نہ روٹھنے پر منانے والا۔۔
عمر بھر خوابوں کے چلمن سے لگے بیٹھے رہے
میں نے ساری زندگی حالات سےپردہ کیا
ایک قسم مجرد عورتوں کی وہ ہے جو اپنی ضد یا بات منوانے کی سزا بھگت رہی ہیں کہ ماں باپ نے وہاں شادی نہیں کی جہاں ان کی مرضی تھی ۔ تو تمام زندگی اس ایک یاد کے ساتھ گذاردینے کی قسم کھالی۔ کبھی غلطی ماں باپ اور خاندان والوں کی ہوتی ہے سوفیصدی مناسب رشتہ ہونے کی باوجود بھی بس اپنی اڑ پر قائم رہتے ہیں۔ کہ یہ رشتہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ اس رشتے سے خوش نہیں ہیں۔ پہلے زمانے کی فرمانبردار اولاد (آج کل کے زمانے میں شاید ایسا ممکن نہیں) گھر کے ماحول کو میدان جنگ بنانے سے گریز کرتے ہوئے ماں باپ کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالدیا کرتی تھی لیکن چند ایک اپنی ہٹ پر قائم رہتے ہوئے باقی زندگی تو نہیں تو کوئی اور بھی نہیں کی مصداق تنہا گذارنے کو ترجیح دیتے۔ وقت گذرتا گیا عمر کے رنگین لمحے رنگ برنگی تتلیوں کے پروں کے رنگوں کی طرح چھوٹتے چلے گئے لیکن ایک چہرے کا نقش بہت واضح اور ان مٹ تھا جو کبھی صفحہ ماضی سی مٹایا نہ جاسکا۔ ہر دکھ سکھ خوشی وغم میں وہ اور ابھر کر نظروں کے سامنے آتا گیا۔ ۔
ایک تمنا کوئی ایسا تو بڑا جرم نہ تھی
آنکھ تا مرگ چھلکتا ہوا پیمانہ بنے
کبھی موت میاں بیوی میں سے کسی ایک کو چھین لیتی ہے تو سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ یہی خدا کی مرضی ہوتی ہے۔ حالانکہ تنہائی جان لیوا ہے ۔ دکھ ہر قدم پر خون کی آنسو رلاتا ہے۔ ساتھ گذاری ہوئی زندگی کی حسین ورنگین یادیں دلاسا بھی دیا کرتی ہیں۔
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں اب اپنے ماضی کو
خود اپنے نقش قدم کچھ پتہ نہیں دیتے !
مسرتوں کے لمحے سبک قدم کتنے !
گذرے یوں ہیں کہ آہٹ ذرا نہیں دیتے
لیکن جہاں علیحدگی ، آپسی جھگڑے، تکرار، خیالات کےٹکراؤ، خاندانی دشمنوں کی وجہ سے ہوتے ہوں تو وہاں ضمیر کی آواز کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ ہر بار وہ یاد کرتے ہیں اپنی کوتاہیاں اس کی زیادتیاں۔ اس کے ظلم اپنا صبر، اپنے اخلاق سے گری ہوئی گفتگو اس کے رواں دواں آنسو۔ اپنا سخت رویہ اس کی منت سماجت ، کبھی اپنا ٹھکرادینا، کبھی ہندوستانی سماج وروایات کی پابند عورت کا علم بغاوت بلند کر سارے بندھن توڑ کر اپنے پیچھے سب کو حیران وششدر چھوڑ جانا یہ ایک ایسا کرب ہے جو تنہائی میں قطرہ قطرہ خون چوستا رہتا ہے۔ ضمیر کی آواز کبھی سرگوشیوں میں تو کبھی بازگشت کی صورت میں گونجتی رہتی ہے۔۔
بدظنی سے اور بڑھتے ہیں دلوں کے فاصلے
ہے یہی بہتر کہ ہم آپس میں سمجھوتہ کریں
یوں کبھی ہوتا ہے کہ روزمرہ کے معمولات سے فراغت پا کر اچھے خاصےموڈ میں آپ گھر سے کسی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے نکلتے ہیں۔ نہ دل ودماغ میں کوئی یاد، نہ کوئی خلش۔ آپ بھی خوشیوں سے سرشار، رنگ برنگے قمقموں سے جگمگاتی محفل کا ایک حصہ ہیں کہ اچانک کسی بچے کی تیز کلکارتی آواز آپ کی توجہ کھینچ لیتی ہے اور اچانک آپ کے ذہن میں بجلی سی کوند جاتی ہے۔ آپ کو اپنا ناتہ نواسہ یاد آجاتا ہے۔ جس سی بچھڑے ہوئے آپ کو دوچار سال گذر گئے۔ ہزاروں میل دور امریکہ کے کسی شہر میں پروان چڑھ کر وہ اب پانچ سال کا ہوگیا ہوگا لیکن جب آپ سے پچھڑا تھا تو ایسی ہے کلکاریوں سی آپ کا گھر گونجتا رہتاتھا۔ بس پھر کیا ہے محفل کی تمام قمقمے ایک ایک کر کے گل ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ بھری محفل میں بھی آپ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہےہیں۔ باوجود لاکھ ضبط کے آپ کی آنکھیں بھرآتی ہیں۔ گلا روندھنے لگتا ہے۔ آپ کو یوں لگتا ہے کہ جس گھر کو بسانے، سجانے، جمانے اور بچوں کو بڑا کرنے میں آپ نے اپنی عمر عزیز کے اتنے سال گذاردیئے آج سائیں سائیں کر رہا ہے۔ میں نے اپنے دوست کو گھر پر تنہا پا کر بچوں کے بارےمیں پوچھا تو اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کو جواب دیا ’سب کو چگنے لیے چونچ اور اڑنے کے لیے پرجو آگئے ہیںٗٗ۔۔
ہائے وہ وقت کہ جب عالم تنہائی میں
کوئی پرساں نہ رہے دیدہ گریاں کی سواء
ہر ایک کی زندگی میں تنہائی وکرب کے بے شمار لمحے آتے ہیں جب وہ ایک اکائی بن کر رہ جاتا ہے وہ ان لمحوں میں کسی کو جھانکنے نہیں دیتا۔ کسی کی شراکت ، دخل اندازی ومداخلت اسے قبول نہیں ۔ کسی کا گذر منظور نہیں۔ اپنے ہی خیالات میں غلطاں وپیچاں وہ ڈوبتا ابھرتا رہتا ہے کہ:
رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے
کٹ گئی عمر رات باقی ہے











No comments:

Post a Comment