Tuesday, July 21, 2020

رہائی۔ افسانہ ۔ از نفیسہ خان

رہائی


نفیسہ خان


ابودادا اپنے محلے میں وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے اس نام کے سوا شاید ان کا کوئی نام تھا ہی نہیں اور جو تھا بھی تو اس سے واقف کوئی نہ تھا.... آس پاس.... پڑوس میں ان کی ایک الگ پہچان تھی.... ایک جداگانہ شخصیت کے مالک تھے ناک نقشہ مکمل سفید رنگت.... اونچا پورا قد.... ملیح چہرے پرمتانت اور دنیا بھر کی سنجیدگی.... کبھی کسی نے انہیں کھل کھلا کر ہنستے نہیں دیکھا.... بہت ہوا تو بند لب پھیل گئے اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پرمچل کر دم توڑ گئی.... کونسی خوبی تھی جو ابودادا کی ذات سے منسوب نہ کی جاسکے۔ ایک مکمل اچھے انسان.... ایک فرض شناس شہری.... ایک ایسے مسلمان جن کی مثال پیش کی جاسکے۔ ایک بہترین پڑوسی.... ایک اچھے شوہر.... ایک شفیق باپ.... جس طرح ان کی شخصیت ان کا کردار بے داغ تھا .... لباس بھی وہ ویسا ہی اُجلا.... بے داغ وبنا شکن والا استعمال کرتے تھے۔ اب جلد میں جھلکنے والی خون کی سرخی کو ضعیفی نے بے رنگ کردیا تھا اس لئے ان کا چہرہ۔ ان کے سر وداڑھی کے بال اور لباس سب کچھ ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوگئے تھے۔ ابودادا کی زندگی کے پچھلے تقریباً اسی سال ماضی وحال کے سمندر میں تھپیڑے کھا کھا کر منجدھار کے حوالے ہی رہے.... نہ تو کنارا ملا نہ ہی ہمیشہ کے لئے ڈوب کر تہہ آب ہوسکے۔۔
بزرگ ومحترم ابودادا سے میرا کوئی رشتہ نہ تھا.... سوائے انسانیت کے ہم نہ دوست تھے نہ ہم عمر.... لیکن ہم ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے گویا بناءبات چیت وخط وکتابت کے بھی ہمارے درمیان ایک ایسا تعلق تھا کہ ان کے ہر جذبے ہر احساس کی مجھے خبر ہوجاتی۔ شاید ہر انسان کی مٹی کا خمیر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ لیکن چند انسان ضرور ایک ہی مٹی اور ایک ہی خمیر سے بنا کر روئے زمین پر بھیج دیئے جاتے ہیں جب یہ بکھری اکائیاں کبھی ایک دوسرے سے ملتی ہیں یا اتفاقاً سر راہ ٹکراتی ہیں تو خود بخود ایک دوسرے کی طرف کھینچتی چلی جاتی ہیں.... ان کی قربت.... ان کی صحبت.... ان کی گفتگو سب کچھ دل کو بہت بھاتی ہیں تسکین کا باعث ہوتی ہیں.... ابودادا میرے وجود کی ایک گمشدہ اکائی تھے جن سے مل کر میں نے محسوس کیا کہ ہمارے درمیان بظاہر کوئی مماثلت نہیں۔ نہ تو ہم جنس.... نہ ہم عمر.... نہ رشتے داروں کی طویل فہرست میں ان کا نام شامل نہ دوستوں کی گنتی میں داخل.... ہزاروں لوگوں سے اتفاقیہ مختصر سی اچانک ملاقات ہوجاتی ہے اور پھر یوں ہوتا ہے کہ ہم ان سے کبھی نہیں ملتے.... ملنا چاہتے بھی نہیں۔ ذہن سے وہ ملاقات بھی فراموش ہوجاتی ہے۔ پھر کبھی ملاقات ہو تو یاد داشت پر بہت زور دے کر سونچنا پڑتا ہے کہ کہاں.... ؟ کب؟ اور کیوں ملے تھے....؟ لیکن ابوداد ا سے چند لمحوں کی ملاقات دل وذہن پر نقش چھوڑچکی تھی۔ عام آدمیوں سے کچھ الگ شخصیت.... جسمانی طور پر سب کے درمیان لیکن ذہنی طور پر بالکل تنہائ.... بار .... بار ان سے ملنے.... ان سے بات کرنے.... ان کے کمرے میں ان کے اطراف بکھری ہوئی کتابوں کو سمیٹنے.... بوسیدہ اوراق سے کچھ ان کہی کہانیوں کو سننے کی چاہ ہمیشہ شدت اختیار کرتی جاتی۔ میں جتنا کریدتی جاتی وہ اتنا ہی عہد ماضی کو مٹی میں دبانے کی کوشش کرتے مجھے اپنے کمرے کی ہر چیز چھونے۔ صاف صفائی کرنے اور پڑھنے کا حق ابودادا نے مجھے دے رکھا تھا۔ کم گوئی ان کا وصف تھا۔لیکن کئی دیوان.... کئی ناول .... کئی نامکمل جملے۔ جہاں جہاں ان کا قلم لگا تھا ایک اَن کہی داستان سنانے کے لئے کافی تھے۔ میں نے یہ راز پالیا تھا کہ ابودادا کے تاریک دل کے کسی گوشے میں ایک جگنو اب بھی چمک رہا ہے ان کی ہر سانس سے وابستہ جذبے کی میں گواہ تھی کہ ان کی محبت عبادت کے حدود سے بھی آگے ہے۔ انہوں نے کسی شرارے کسی چنگاری کو سینے کے حدود سے باہر آنے کی اجازت کبھی نہ دی۔لیکن ابودادا کے آتش کدہ دل میں جلنے والے الاؤ سے شاید میں واقف تھی۔ میں ہی وہ تنہا ہمراز تھی جو اس تپش اس جلن کو محسوس کرسکتی تھی۔ ان کے خاموش اضطراب کی چشم دید گواہ بھی میں ہی تھی.... کتنا صابر شخص کہ نہ چہرہ مضحمل نہ تشنگی کا پرتو.... تصنع سے کوسوں دور.... خلوص کا پیکر.... پیار محبت شفقت کا عمیق سمندر جس میں ڈوب ڈوب جانے کو جی چاہے حسرت ویاس کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دیا.... نظر شناسی کا ہنر میں نے انہیں سے سیکھا....
ابودادا نے اپنی زندگی کو دو متوازن پڑلوں میں بانٹ دیا تھا ایک دینی ودنیوی فرائض کا دوسرا پڑلا بظاہر خالی نظر آتا تھا لیکن اس میں جمیلہ بیگم کی پاک محبت پاکیزگی کا کفن اوڑھے دفن تھی.... یہ کیسا جذبہ تھا کہ جمیلہ بیگم کی ہر سانس ہر دھڑکن۔ ان پر گذرنے والی دکھ سکھ کی ہر کیفیت کو وہ اس طرح محسوس کرتے جیسے کوئی ان دیکھا ان چھوا رابطہ درمیان میں ہو۔ پتہ نہیں ابودادا کے سینے میں یہ کونسا وائرلیس سیٹ نصب تھا جو پچھلے ساٹھ سال میں کبھی ناکارہ.... غیر کارکرد نہ ہوسکا۔ خواہ دو قدم کی دوری ہو یا سمندر پار کی مسافت حائل ہو۔ ان کا دل گواہی دیتا جاتا اور ان کادماغ جمیلہ بیگم کی ان کہی وپوشیدہ ضروریات کی غیر محسوس طور پر کفالت اس طرح کرتا کہ زندگی بھر انہیں خبر بھی نہ ہوسکی کہ کس کس طریقے سے کہاں کہاں کرہ  ارض کے کن کن مقامات پر وقت وزمانے کی کڑی دھوپ وتمازت سے بچانے کے لئے ابودادا کا سایہ ان کے ساتھ ساتھ رہا ہے۔
ابودادا گویا جی رہے تھے تو شاید اس لئے کہ جانے کب کہاں ان کے دل میں پیوست الارم بج اٹھے کہ ایک پچھتر سالہ ذیابیطس وبی پی کے مرض میں مبتلا نحیف وناتواں کمزور ضعیف بیوہ کو ان کی ضرورت ہے.... تمام عمر جمیلہ بیگم یا تو ابوداد ا کے جذبات اور محبت کی گہرائیوں سے لاعلم رہیں یا جان بوجھ کر انجام بن جانے کا ناٹک کرتی رہیں۔ جمیلہ بیگم کی دونوں بیٹیاں وبیٹا ابودادا کے گرویدہ رہے۔ پڑوسی کے ناتے تینوں بچوں کو ترقی کی اونچائیوں پر پہنچانے کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ ان بچوں کی بھی انگلی تھامے ان کے ساتھ ساتھ رہے اس وقت تک جب تک کہ بچوں کے قدم بیرون ملک میں جم نہیں گئے.... پھر ایک دن ایسا آیا کہ بچوں کے ساتھ رہنے کے لئے جمیلہ بیگم نے بھی ترک وطن کردیا.... لیکن ابودادا نے گھر کا اپنا وہ کمرہ کبھی نہیں چھوڑا جس کی کھڑکی کے ایک زاوئیے سے ایک دوسری کھڑکی نظر آتی تھی جس کی بند کواڑوں کے شیشے سے چھن کر کچھ روشنی ان کے کمرے۔ ان کے دل کے ویران وتاریک گوشوں تک پہنچتی رہتی تھی ایک سچے مسلمان کے لئے نامحرم کا خیال تک گناہ ہے لیکن تمام دروازوں کو بند کردینے کے باوجود ایک آدھ روزن رہ جاتا ہے جو احساس کی بےداری کا باعث بن جاتا ہے۔ ابودادا کی مرادوں کی کشتی کبھی حصول کے جزیروں تک پہنچ ہی نہ پائی.... لیکن ابودادا نے مایوسیوں کے اندھیرے میں اسے غرقاب بھی ہونے نہ دیا.... امید وبیم میں نوجوانی بیتی.... جوانی ایک مبہم سے خیال سے ایک دلی سکون حاصل کرنے میں گذاری۔ کبھی شیرازہ ہستی کو بکھرنے نہ دیا۔ ہوش وخرد کا دامن نہ چھوڑا وہی ہر ایک سے تپاک سے ملنا.... کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا جذبہ ایثار علم وفراست سادگی کے اس پیکر میں کونسے اوصاف ایسے تھے جو نہ ہوں۔ کبھی کسی سے گلہ شکوہ شکایت نہ تھی وہ گلہ کرتے بھی تو کس کا....؟ شکایت تھی بھی تو کس سے ....؟ ان کے چہرے پر تشنگی کا کوئی پرتو نہ تھا حالانکہ وہ تصنع سے کوسوں دور تھے۔ سب کی دلدہی ودلداری اور ضرورت کی تکمیل ان کا شیوہ تھا۔ اور اپنا ہر معاملہ خدا کی مرضی پر چھوڑدیتے تھے۔ پھر بھی نہ کٹر پسندی کے قائل تھے نہ مذہبی جنونیت میں مبتلا تھے۔ نہ اتنے عبادت گذار کہ تہجد پڑھیں اور سدا مصلے پر بیٹھے رہیں لیکن پانچ وقت کی نماز کے سختی سے پابند تھے دنیاوی نا انصافیوں وتکالیف سے نبرد آزما ہونے کی تاب نہ ہوتی تو مصلے پر جا بیٹھتے اور تلاوت میں ڈوب جاتے.... گویا اپنے آپ کو ان سب سے بچانے کے لئے ان کے پاس یہی ایک ڈھال بچ گئی تھی۔ دل ودماغ ہی نہیں بلکہ روح تک کو تازگی وبالیدگی عطاکرنے والا لحن ہر جذبے کے زیر سایہ مختلف ہوتا تھا جسے میں اور صرف میں ہی محسوس کرسکتی تھی۔ کوئی وقتیہ خوشی نے پل بھر کو مسرت دیدی تو اس آواز میں عجیب سی سرشاری ہوتی آواز معطر اور کھلی سی لگتی.... اداس ہوتے تو یاس بھری آواز میرے دل پر کوڑے برساتی۔ بے چین ومضطرب ہوتے تو آواز کا ارتعاش میرے وجود میں ایک بے چینی ایک ہلچل سی پیدا کردیتا.... اپنا کام ادھورا چھوڑ کر میں ابودادا کے کمرے کی طرف یوں لپک پڑی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کے رونے کی آواز سن کر دوڑ پڑتی ہے.... میں ابوداد کے کمرے کے دروازے سے لگ کر بیٹھ جاتی .... ان کی پشت میری طرف ہوتی .... لیکن میرے قدموں کی بے آواز چاپ کی گونج انہیں سنائی دے جاتی.... آواز کا ارتعاش کم ہونے لگتا ایک ٹھہراو ان کے لحن میں آنے لگتا جیسے دہکتے شعلوں پر کسی نے پانی ماردیا ہو کچھ ہی دیر بعد وہ تلاوت ختم کر کے میری طرف دھیمے قدموں سے آکر جو بھی پڑھا مجھے پر دم کرتے.... بھیگی آنکھوں میں تشکر ہوتا.... انہیں یہ احساس شدت سے ہوتا کہ اس بھرے پورے گھر وخاندان کا ہر فرد ان کی خدمت وآرام کے لئے دوڑا چلا آتا اور حتی الامکان خیال رکھتا ہے لیکن ان کے اندر بسنے والے مکین کو جاننے اور اسے سکون پہنچانے کی سعی بجز میرے کوئی نہیں کرتا۔ان کی پھونک سے مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اس ایک پھونک کے ساتھ ان کے سینے میں دبا غبار.... ساری مایوسیاں.... نامکمل آرزو وتمنائیں سب باہر آگئی ہیں اور انہیں اگلنے کا یہی ایک طریقہ ان کے پاس تھا۔ کیونکہ ہر جذبہ الفاظ کا محتاج نہیں ہوتا میرے اور ابودادا کے درمیان الفاظ کا استعمال کم۔ حرکات وسکنات۔ آواز ولحن کا رابطہ زیادہ تھا۔ آخر کیوں ان کی زندگی کی بند کتاب کو پڑھنا میں نے اپنا نصب العین بنالیا تھا ان کا اصرار کہ اس کتاب کا ہر ورق کورا وسادہ ہے میرا یہ یقین کہ بے رنگ روشنائی کی تحریریں میں پڑھ سکتی ہوں۔ 

ابودادا اسّی سال کی عمر میں بھی بظاہر صحت مند لگتے تھے ان کی آواز کچھ کم مسحور کن نہ تھی اس عمر میں بھی جب دھیمے دھیمے سروں میں غزل گاتے تو ان کی مسلی کچی  کلیووں کی مہک فضاءمیں بکھرجاتی.... انہیں صرف تصوف مذہبی ودینی کتابیں ہی پڑھنے کا شوق نہ تھا بلکہ ادبی ذوق بھی تھا ان کے کمرے کے شیلف میں کئی دیوان ۔ رسالے ناول بھی تھے۔ ایک پورٹیبل ٹی وی بھی تھا۔ گراما فون کی جگہ اب ٹیپ ریکارڈ نے لے لی تھی لیکن چند سالوں پہلے تک بھی پیارے سے کتے والے ہنر ماسٹر وائس کے ریکارڈس گراما فون پر بجتے سنائی دیتے۔ کمرے میں پنکج ملک کی آواز .... ”یہ راتیں یہ موسم یہ ہنسنا ہنسانا مجھے بھول جانا.... انہیں نہ بھلانا.... بھلانا.... یا پھر زہرہ بائی امبالے والی۔ اختری بائی فیض آبادی کے علاوہ سریندر کا .... کیوں یاد آرہے ہیں گذرے ہوئے زمانے “.... یا نور جہاں کا کس طرح بھولےگا دل ان کا خیال آیا ہوا....“ یا پھر طلعت محمود کا....” محبت ہی نہ جو سمجھے وہ ظالم پیار کیا جانے“.... سنائی دیتا....اس وقت ابودادا اپنی آرام کرسی پر آنکھیں بند کئے نیم دراز ہوتے۔
اپنے نواسے افروز کی شادی اس کی مرضی کے مطابق نازنین سے نہ ہوپائی۔ ان دونوں کے خوابوں کا شیش محل چکنا چور ہوگیا۔ جس صدمے۔ درد وتکلیف سے وہ لوگ گذرے اس سے کہیں زیادہ دکھ ابودادا کے سینے میں جاگزیں ہوا۔ جدائی کے تیر نے ان دونوں کو لہولہان کردیا لیکن ٹیس۔ چبھن۔ کسک ابودادا نے محسوس کی۔
ایک لمبے بن باس کے بعد جمیلہ بیگم بیمار جسم وجاں کے ساتھ اپنے بچے کچے رشتے داروں سے ملنے لوٹ آئیں تھیں۔ وطن کی مٹی بلارہی تھی۔ یہاں پیوند خاک ہونا جو لکھا تھا نصیب میں۔ طویل سفر کی تھکان تو تھی ہی۔ اجڑا۔ اجڑا آبائی مکان دیکھ کر اتنی غمزدہ ہوئیں کہ دل نے دھڑکنا بند کردیا۔ مرنے آئیں بھی تو اسی گھر میں جس کی بند کھڑکی کے شیشوں سے چھن کر روشنی کی رمق ابودادا تک آتی تھی۔ ابودادا نے یہ خبر بڑے سکوت کے عالم میں سنی۔ لیکن میں ابودادا کو دیکھ کر بدحواس سی ہوگئی میں نے ان کے کمرے کے کونے میں اپنے آپ کو سمٹ لیا۔
ابودادا کو اب کس منہ سے کیا تسلی دیتی؟ میری تسلیوں سے وہ اب بہلنے والے بھی کب تھے۔ابودادا کے بیٹے بلال نے آکر اطلاع دی کہ ”ابو.... جمیلہ خالہ کا جنازہ آخری سفر کے لئے تیار کردیا گیا ہے۔ آپ چل رہے ہیں نا....؟“ .... ابودادا نے اپنے آپ کو سنبھالا آرام کرسی سے اٹھنے کی کوشش میں لڑکھڑا گئے۔ بلال نے اپنا ہاتھ بڑھا کر سہارا دینے کی کوشش کی لیکن اس نے محسوس کیا کہ اس کے ابوبید کی طرح کانپ رہے ہیں۔ بیٹے کے مضبوط بازو بھی ان کو سہارا نہ دے سکے اور وہ اپنی کرسی پر ڈھیر ہوگئے۔ آج سے ساٹھ سال پہلے بھی انہوں نے اپنے آپ کو اتنا ہی کمزور محسوس کےا تھا جب بینڈ باجوں کے پرشور ہنگاموں کے درمیان جمیلہ بیگم کی اسی گھر سے ڈولی اٹھ کر بجائے ابودادا کی چوکھٹ پر رکنے کے آگے بڑھ گئی تھی تب بھی ایک قابل۔ ذہین۔ وجیہہ بیگم کی ڈولی کو اپنے گھر اٹھالاتا۔ سدا کا کم گو.... کم ہمت۔ بزدل شخص آج پھر ویسا ہی مجبور تھا کہ اشکبار آنکھوں.... سسکیوں وکلمہ طیبہ کے ساتھ ڈولا اٹھایا جارہا تھا تو بھی ابودادا میں اتنی ہمت نہ تھی کہ یہ چھوٹا سا فاصلہ طئے کر کے زمین پر رکھے جنازہ کو اٹھا کر اپنے شانوں پر رکھ سکیں۔ ان کی ساٹھ سالہ محبت زمین پر دھری تھی پر کاندھوں پر اٹھانے کی جسارت وہ جٹا نہ پارہے تھے۔ ساری زندگی فاصلے پاٹ نہ سکے۔ ایک فاصلہ ایک دوری تا حیات قائم رہی۔ جس نا محرم کا چہرہ آنکھ بھر کر نہ دیکھا تو پھر موت کے بعد یہ دوری قربت میں تبدیل ہو یہ شاید انہیں گوارا نہ تھا۔ قدموں کی چاپ بتارہی تھی کہ جنازہ آگے بڑھ رہا ہے ابودادا نے کرسی کے ہتھے پر ہاتھ جما کر اپنی پوری قوت سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن ہاتھوں کی گرفت ہی مضبوط نہ تھی کہ ان کے جسم کو کھڑا کرنے میں مدد کرسکتی۔ وہ ہانپتے ہوئے لاچاری کے عالم میں کرسی ہی پر گر پڑے آٹھ دہوں کا یہ صحت مند دکھائی دینے والا جسم.... اس میں دوڑنے والا خاموش خون۔ اس طرح ان کی رگوں پر پر دباؤ ڈال کر اس آخری لمحے دغا دے جائے گا۔ مفلوج کرجائے گا یہ ابودادا نے شاید کبھی سونچا بھی نہ تھا۔ 

جمیلہ بیگم کے جنازہ کو نامحرموں غیروں نے بھی کاندھا دیا لیکن نہ دے سکے تو ایک ابودادا .... یہ عمر بھر کا فاصلہ تادم مرگ طئے نہ ہو شاید قدر ت کو یہی منظور تھا۔ فالج کسی بجلی کی طرح ان کے جسم ودماغ پر گرا تھا۔ کچھ دیر تک ہاتھ پیر کانپتے رہے پھر کٹی ہوئی ڈالیوں کی طرح جھول گئے زبان لڑکھڑانے لگی۔ غزل کے الفاظ جب ابودادا کی دل میں اترجانے والی آواز میں ڈھل کر ان کے لبوں سے نکلتے تو روح تک سرشار ہوجاتی آج اس آواز کو اظہار کا جامہ پہنانے کی کوشش میں وہ مر مر کر جی رہے تھے۔ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ہونٹوں پر رک رہے تھے۔ بلال کی بانہوں میں ابودادا کا مفلوج جسم لٹک رہا تھا۔ کسی دواخانے کے بستر پر پڑے ابودادا جانے اب کونسی ساعت کے منتظر ہیں۔ پتہ نہیں دل میں چھپا جگنو اب بھی جگ مگ کر رہا ہے۔ ےا ابودادا نے اسے سب کی نظروں سے بچا کر چپکے سے تاریکی میں چھوڑدیا ہے۔
ابودادا اب اپنے بل بوتے پر جی نہیں سکتے باقی ماندہ زندگی ڈاکٹروں کی دواؤں اور گھر والوں کے التفات اور رحم وکرم کی نذر ہوگئی ہے ان کے بہترین اوصاف کی عکاس ان کی اپنی شخصیت کا پنچھی ان کے جسم کی قید سے آزاد ہوگیا تھا اور پلنگ پر پڑا ابودادا کا مفلوج جسم وذہن مانند ایک خالی پنجرے کے تھا۔ جس میں ابودادا کا کوئی وصف نہ تھا کوئی خوبی نہ تھی۔ گویا کہہ رہے ہوں۔
بستر پر کچھ اس طرح سے بکھرا ہے میرا جسم
جیسے میری ٹوٹی ہوئی تصویر پڑی ہے
پنجرے میں مقید اس پنچھی کو رہائی مل گئی تھی جو ساٹھ سال سے اپنے ہی پنجرے کی تیلیوں سے سر ٹکراٹکراکر تڑپتا رہا تھا۔۔
٭