Sunday, November 22, 2020

Lawazima Afsana By Nafeesa Khan. لوازمہ افسانہ از نفیسہ خان

 

لوازمہ

نفیسہ خان

 


"میں تم کو پہلیچ بولدیا تھا کہ میرے سوب لوگاں حیدرآباد سے آئیں گے لوازمے کا کھانا دینا ہے.... بولا تھا....؟ نئیں بولا تھا....؟؟؟؟ شکور میاں کی آواز شادی کے شامیانے میں گونج رہی تھی....گھگھیائے ہوئے عبدالرحیم بےچارے من بھر کی منڈی ہلارہے تھے کہ.... ”ہو سمدھی بھائی.... تمہیں بولے تھے سو میں کرانا جی.... کیا کمی کراسو میں....؟ تمہیں لوازمے کا خاصہ بولے تو میں سادا چاول نئیں پکاکو۔ بگارا کھانا پکائیوں۔ چٹپٹا گوشت کا سالن بنایا.... کھٹا بولے تو کدو ہڈیاں ڈال کو دالچہ حاضر ہے۔ اتّا میٹھے کے نام پر گڑ کی بجائے شکر کھوپرا ڈال کو میٹھا کھانا بنایا ناجی.... اب اور کیا تو بھی لوازمہ ہونا....؟ کائےکو اڑلارئیں....؟ کیا کمی کراسو ؟ سب لوگاں کے سامنے ہماری کھلی کائےکواڑارئیں.... یہ شادی میرے گاؤں میں کرتا تو اتّا خرچا نئیں ہوتا تھا ایک بڑے جانور کو کاٹ لیتا۔ آئے سو براتیاں اور پورا محلہ دوستاں عقد کی پہلوار رات کو اجڑی بوٹی کا سالن بائیکاں کی گھڑی جواری کی گرم گرم روٹیاں کھالیتے۔ صبح صبح پورے ایک بڑے جانور کا دالچہ اور کھانا پکائے تو سوب بھی صبح سے شام تک کھا کھا کو دعایاں دےکو جاتئیں۔ یاں کیا جی.... تم آتے سو آتے برس رئیں۔“

عبدالرحیم کویلی والے کی آواز گلوگیر ہوگئی وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے پتہ نہیں کویلیاں بیچتے تھے یا پھر ان کے دیہات کا نام کویلی تھا۔ عبدل کی بات سن کر حیدرآباد سے آئے ہوئے شکور میاں کے لوگ جو زیادہ تر میوہ فروش تھے ہونٹوں پر ہنسی دبائے بادل نخواستہ سپلائنگ کمپنی سے منگوائی گئی میلی دھبہ دار شطرنجی پر بچھے لال دستر خوان پر بیٹھ گئے۔ اسٹیل کی رکابیاں لگادی گئیں۔ اسٹیل کے بڑے سے بیسن پاٹ میں کھانا اور بکٹ میں دالچہ لئے میزبان آپہنچے رکابی کی ایک طرف دو چھوٹی کٹورےاےں تھےں۔ ایک میں مےٹھا دوسرے میں گوشت کا سالن بوٹی اور ہڈی کے تناسب سے رکھا گیا تھا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور اس سے زےادہ کوئی طلب بھی نہ کرے بس اسی پر توکل کرنا ہے اور بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کرنا ہے.... عبدالرحیم گلی گلی گھوم کر پرانے لوہے وپلاسٹک کی خرےداری کرتے اور شہر لےجا کر بےچ آتے تھے ان کا گھر دو کمروں پر مشتمل تھا جو آٹھ اور چھ مربع فےٹ کے تھے۔ اور اسی گھر میں شادی کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔ سب نے مل کر تھوڑی بہت مدد کی تھی جب جا کر اپنی تیسری بیٹی کو وہ آج وداع کر رہے تھے آٹھ فیٹ والے کمرے سے منسلک چھ فیٹ والا کمرہ تھا۔ ایک دیوار سے صندوقوں پر صندوق جمے ہوئے تھے اس پر بستر کپڑے پڑے تھے دوسری دیوار کے ساتھ چاول اور دیگر چھوٹے موٹے سامان سے بھرے تھیلے رکھے گئے تھے۔ انہیں تھیلوں سے ٹیک لگائے سیمنٹ کے خالی تھیلوں کو جوڑ کر بنائی گئی چٹائی پر لال مدرا بچھا کر دولہن کو بٹھایا گیا تھا۔ سنہری چمکیاں ٹکی نائیلان کی دوڈھائی سو روپےوں کی ساڑی پہنے وہ پھولے نہیں سمارہی تھی مجھے دیکھ کر اس نے بصد احترام سلام کیا پاس بیٹھی سہیلی نے گھونگھٹ ہٹا کر مجھے دولہن کا چڑھاوا بتایا جو تین ماشے سونے کے پھول اور گلے میں آدھا تولے کا سات ٹکڑوں والا کالی پوت کا لچھا تھا مہندی سے لال ہاتھ پیر کی انگلیوں میں چاندی کے موتی چور کے چھلے تھے اور دولہن کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی....

حسرتیں ہیں کیا دل میں کھل کے کہہ نہیں پاتیں

باپ کی غریبی کو بیٹیاں سمجھتی ہیں

دولہن نے کچھ کھسکتے ہوئے میرے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی۔ میں سمٹ کر بیٹھ گئی کہ پالتی مارکر بیٹھنے کی جگہ بھی وہاں نہیں تھی۔ مہمان عورتوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پیچھے سرکتے سرکتے میں دیگچوں کو جالگی ڈرتھا کہ کہیں برتنوں کا بھانڈا دھڑام سے نیچے نہ گر پڑے۔ گرمی اپنی شدت پر تھی پسینہ چوٹی سے ایڑی  تک پہنچ رہا تھا پسینے اور تنگ جگہ کی وجہ سے میری کاٹن کی ساڑی کا کلف نہ صرف یہ کہ ٹوٹ گیا بلکہ ہتھیلی میں مسلے ہوئے کسی بےکار کاغذ کی شکل اختیار کر گیا۔ بھڑکدار رنگ برنگی ساڑیاں پہنی ہوئیں خواتین میری حالت پر ہنس رہی تھیں ایک معمر دیرینہ جان پہچان والی صاحبہ نے میری طرف جھکتے ہوئے دبی زبان سے پوچھا کہ .... ”تم سیدھا سادا لباس پہن کر کیوں آئی ہو ہمیشہ ہی تمہارا یہی وطیرہ رہا ہے کیا حیدرآباد کی شادیوں میں بھی تم ایسے ہی جاتی ہو؟ میں نے بہانا بنایا کہ بھئی یہاں شادیاں صبح تا نصف النہار ہوتی ہیں اس لئے میں اسکول سے سیدھا شادی میں آجاتی ہوں تیار ہو کر آنے کا وقت ہی نہیں رہتا۔ اب بھلا میں بڑی بی کو کیا بتاتی کہ حیدرآباد وساگر کا درمیانی فاصلہ حالانکہ صرف دیڑھ سو کیلومیٹر ہے لیکن ان دوجگہوں کی شادیوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے یہاں ایک لڑکی کو شرافت وعزت کے ساتھ وداع کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں یہاں تعلیمی ومعاشی طور پر مسلمان اتنے بچھڑے ہوئے ہیں کہ یومیہ مزدوری سے دو وقت کی روٹی جٹانا دوبھر ہے وہاں بچوں کی تعلیم اور بچیوں کی شادی اور دولہے والوں کی مانگ پوری کرنا مشکل ہے جہاں دولہن کا عروسی جوڑا اور زیور بھی بالکل معمولی ہوتا ہے وہاں شرکاءدولہن سے اچھا زیور وکپڑ ے زیب تن کریں۔ کیا یہ مناسب ہوتا ہے....؟

عبدل میاں نے آکر جھک کر نوے ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے مجھے سلام کیا جسے حیدرآبادی زبان میں پیٹ میں منڈی ڈالنا کہا جاتا ہے۔ میری مبارکباد قبول کرتے ہوئے کہا کہ ”.... آپ سب کی مہربانی سے اور میری حیثیت کے مطابق شادی کررؤں.... چل کو جہیز دیکھ لیوؤ....“ شامیانے میں ایک طرف اسٹیل کی الماری.... اسٹیل کے پائیپوں سے بنی مسہری پر سارا جہیز رکھاتھا۔ تو شک پر دوتکئے رکھے تھے ان پر شولاپور کی سوزنی بچھی تھی اسٹیل کی بارہ رکابیاں، دو کٹورے دومشقاب چھ چمچے ، چھ گلاس۔ قرآن۔ رحال۔ جانماز۔ دوچاربگونے۔ پانچ جوڑے کپڑوں کے جن میں تین معمولی ساڑیاں تھیں اور دوبقول دیہاتیوں کے چھپانے کی ساڑیاں (بھاری ساڑیاں) تھیں۔ عبدل میاں تعریف طلب نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور میری نظریں ساگر سے ہٹ کر حیدرآباد کی تصنع آمیز زندگی کا احاطہ کر رہی تھیں جہاں شادی خانے اب صرف عمارتوں پر نہیں بلکہ چوطرف سے باغات سے گھرے ہوئے لاکھوں کا کرایہ وسجاٹ ضروری ہے۔ فوارے آبشار ہی نہیں بلکہ قدموں تلے بھی پانی رواں دواں ہو۔ آتش بازی بھی ہو تو بات ہی کیا ہے برقی قمقموں سے نظریں چکا چوند رہتی ہیں۔ بینڈ باجے دف کے ساتھ سدیوں کے تلوار ولٹھ بازی کے کرتب ہوتے ہیں۔ وسیع وعریض ہرے بھرے لان پر اطلس کی مصالحہ ٹکی چھتریوں کے اسٹالس بنے ہوتے ہیں ایک میں چائے۔ کافی تو دوسرے میں کول ڈرنکس وآئسکریم.... تیسرے میں سادھے ومیٹھے پان۔ چوتھے میں گلاب موتیاچنبیلی۔ چمپا کے پھولوں سے آپ کی تواضع ہوتی ہے تو پانچویں میں مشین کے اندراچھلتے کودتے گرم گرم پاپ کارنس کو دیکھ کر بچوں کا دل تو بلیوں اچھلتا ہے لیکن نوجوانوں کا دل کچھ کم بےقرار نہیں ہوتا۔ گوکہ مستورات کی بیٹھک کا انتظام الگ ہوتا ہے لیکن آدم وحوا کی اولاد کی چہلیں چلتی رہتی ہیں۔ ویڈیو گرافر دولہن کے ساتھ ساتھ ہر اس دوشیزہ کے چہرے کو اپنے کیمرے میں قید کرلیتا ہے جو نہ صرف خوبصورت بلکہ پرکار بھی ہوتے ہیں تقریباً سبھی لڑکیاں بیوٹی پارلر سے ہوکر آتی ہیں اس لئے چھل چھل کرتی ہوئیں زلفیں آج کل شانوں پر پریشان رہتی ہیں کہ بلاوجہ دل زلف ِ گرہ گیر کا اسیر بن جاتا ہے کبھی نظروں کے خاموش پیام پہنچتے ہیں تو کبھی بچے گلاب کے مہکتے پیام پہنچاتے نظر آتے ہیں۔ بقول شاعر۔

نہ چھیڑوں میں تو خود چھیڑیں اگر چھیڑوں تو شرمائیں

انہیں پیاری اداؤں پر شرارت ناز کرتی ہے

دوسری طرف بچوں کی سواری کے لئے ٹٹو.... بڑوں کے لئے گھوڑے اور مزید معتبر وقابل عزت واحترام ہستیوں کے لئے بگیوں کا انتظام بھی کیا جارہا ہے اب لے دے کے آصفیہ دور کے میانے میں جو فی الحال نظر نہیں آرہے ہیں جانے کونسی دیمک چاٹ گئی کہ باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ دولہے کے اسٹیج سے منسلک اسٹیج پر وہ لڑکیاں جنہیں ان میانوں میں بےٹھ کر سسرال کو وداع ہونا تھا نہ جانے کس مجبوری کے تحت میوزک پارٹی کے نام پر ناچتی گاتیں ، مٹکتی تھرکتی نیم عریاں لباس میں اوچھی حرکتیں کرتی ہوئی ہماری تہذیب کی دھجیاں اڑاتی نظر آتی ہیں۔ عورتیں.... مرد.... بزرگ.... بچے سب ہی لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں نہ کسی میں اخلاقی جرائت کہ اس بےہودگی کے خلاف ایک لفظ بھی کہیں کیونکہ اتنا پر تکلف کھانا کھانے کے بعد نمک حرامی بھی تو نہیں کی جاسکتی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بطور احترام اس دسترخوان کا کھانا اپنے آپ پر حرام کرلیں۔ لیکن نہیں۔ وہاں تو میزوں پر جگہ پانے کے لئے باضابطہ دوڑ ہوتی رہتی ہے کیونکہ دولہا کے آنے اور نکاح ہونے تک دس بج جاتے ہیں اگر آپ رقعوں میں بعد نماز مغرب کی تحریر پڑھ کر بعد عشاءبھی چلے جائیں تو فنکشن ہال کی کرسیاں گنتے ہوئے وقت گذاری کرنی پڑے گی اور کیا ضروری ہے کہ آپ نمازوں کا حوالہ دے کر اپنے آپ کو پنج وقتہ نمازی ظاہر کریں صرف دس یا گیارہ بجے شب بھی تو لکھا جاسکتا ہے۔ مہمانوں میں عمر رسیدہ۔ بلڈ پریشر وذیابطیس ، دل و دوسرے امراض میں مبتلا لوگ بھی ہوتے ہیں ان کا خیال بالکل نہیں رکھا جاتا۔ مدعو افراد میں وہ مذہبی رہنما اور اہل قلم بھی ہوتے ہیں جن کی باتیں سماج سدھار کی ہوتی ہیں لیکن وہ بھی ایسی دعوتوں میں پیش پیش ہوتے ہیں لوازمے کا یہ حال ہے کہ حلیم چونکہ اب آؤٹ آف ڈیٹ ہوگئی ہے تو مرگ ورومالی روٹی۔ اسپرنگ رولس۔ لقمی کباب۔ کئی اقسام کی چکن کی ڈشس اور ورقی پراٹھے۔ فرائیڈ فش۔ بوٹی کباب۔ کڑھائی گوشت۔ کبھی دل کبھی گردوں کی وضع قطع کی نان۔ دو قسم کی بریانی تین قسم کے میٹھے معہ آئسکریم۔ اتنی ساری چیزیں رکھنے کے لئے ٹیبل بھی تنگ دامنی کا اظہار کرتا ہے باوجود ایک کے بعد ایک ڈش سپلائی کرنے کے اکثر بیروں کو مشقاب ہاتھوں میں تھامے انتظار کرنا پڑتا ہے جب میزوں پر اتنی چیزوں کے لئے جگہ نہ ہو تو پھر کمبخت مسلمانوں کے پیٹ میں اتنی جگہ کہاں سے آگئی کہ یہ سب کھا بھی لیتے ہیں اور ماشاءاللہ ہضم بھی کرلیتے ہیں۔ عموماً ہندوستان کے عام مسلمانوں کی پس ماندگی وغربت پر واویلا مچایا جاتا ہے ایسی تقاریب کو دیکھ کر غیر مسلم لوگ حیران ہوجاتے ہیں کہ ان مسلمانوں کی جیب میں اتنا پیسہ کہاں سے بھر گیا کہ اس بےدردی سے جھوٹی آن بان وشان کا مظاہرہ ہو رہاہے ان تعیشات میں غلطاں رہنے والو.... کےا ہم ہماری پچھلی نسل کی بربادی کے چشم دےد گواہ نہیں ہیں....؟ ہمارا وہ دور ختم ہوگیا جب مغلوں ونظام کا دورِ حکومت تھا۔ حیدرآباد دکن کے گلی کوچوں مدرسوں میں دعا گونجا کرتی کہ ۔ 

تا ابد خالق عالم میں ریاست رکھے

تجھ کو عثمان بصد جلال سلامت رکھے

لیکن نہ ریاست رہی نہ جلال رہا سب کچھ نیست ونابود ہوگیا اور اب صرف جلی ہوئی رسی کا بل رہ گیا ہے۔ یہ بل بھی کچھ ڈالر.... کچھ پونڈ کچھ ریالوں کا بھرم ہے تو کہیں باپ دادا کا چھوڑا ہوا بزنس یا جائیدادوں کا زعم ہے۔ کہیں کہیں مسلمانوں میں بھی اب سود۔ شراب۔ نشیلی اودیات کا نمبر دو کی کمائی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ بناءمحنت کی کمائی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کس بےدردی سے پیسہ خرچ ہو رہا ہے جو خون پسینے کی کمائی سے پیسہ کماتا ہے اسے ایک ایک روپیہ عزیز ہوتا ہے۔ وہ فضول خرچی یا شان وشوکت کی نمائش نہیں کرتا۔ جو صحیح معنوں میں شریف النفس ۔ تعلیم یافتہ۔ سلجھے ہوئے ماحول میں پرورش پاکر اپنے بل بوتے پر ترقی کرتا ہے وہ اس طرح کم ظرفی کا تماشہ نہیں کرتا۔ ایک طرف امارت ہوتی ہے تو دوسری طرف عبدل میاں کے گھر جیسی غربت ہوتی ہے جن کی بیٹی سسکیوں کے درمیان وداع ہو رہی تھی گھونگھٹ کے کونے میں بندھے ”گود“ کے وزن سے اس کا گھونگھٹ سرک سرک جارہا تھا اس گود میں کھوپرے کی دو بٹیوں کے درمیان مٹھی بھر چاول دو چھوارے سوا روپیہ بندھا تھا ایسا ہی گود لال کپڑے میں باندھ کر دولہا کی کمر سے کس دیا گیا تھا۔ سفید پائجامہ اور گلابی پالیسٹر کی قمیض۔ سر پر جناح کیپ ہاتھ میں نظر بد سے بچانے والا چاقو پکڑے سب کو سلام کرتے ہوئے دولہا میاں دولہن کا ہاتھ تھامے ریت کی خالی لاری کی طرف بڑھ رہے تھے جس میں بارات آئی تھی اور اب معہ دولہن وجہیز کے لوٹ رہی تھی۔ دولہا میاں ڈرائیور کے بازو کیبن میں بیٹھ گئے دولہن کو اس کے ماموں نے گود میں اٹھا کر لاری میں سوار کردیا تمام باراتی بھی جب لاری کے پچھلے حصے میں سوار ہوگئے تو پچھلے تختے کو بند کر کے تھپتھپاتے ہوئے کلینر نے زور سے .... رائٹ .... رائٹ کی ہانک لگانی شروع کی۔ ڈرائیور نے لاری اسٹارٹ کی اور میں دست بدعا ہوگئی کہ.... ”اللہ سب کچھ اس دولہن کی زندگی میں رائٹ ہی رائٹ ہو.... کوئی ساڑی یا ڈوپٹہ اس کی نازک گردن کا پھندنہ بنے .... کوئی اسٹو نہ پھٹے.... کوئی زہر بہ نام دواغلطی سے نہ پی لے.... کوئی ہیٹر لگی بکیٹ کے پانی میں ہاتھ نہ پڑے.... اے پروردگار اس معصوم دولہن کو اپنے حفظ وامان میں رکھیو.... آمین“۔ 

آگیا ہے وقت اس شب کی سحر پیدا کریں

متحد ہو کر جہانِ معتبر پیدا کریں....!

راہزن کو چھوڑ کر ہم راہبر پیدا کریں

جو ہو پابند محبت وہ نظر پیدا کریں

دشمنوں نے جو بنائے ہیں گھروندے توڑدیں

آؤ سب مل کر زمانے کی کلائی موڑدیں

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر