Wednesday, March 3, 2021

آرس۔۔۔ مصرف بینائی سے انتخاب - نفیسہ خان

 

آرس۔۔۔ مصرف بینائی سے انتخاب

نفیسہ خان

 

 

 


گاؤں کی بیٹی سب کی بیٹی کہلاتی ہے سو ہم کو بھی نہ صرف ایسی بیٹیوں بلکہ بیٹوں کی بھی شادی میں شرکت کے لیے اکثر نہ صرف تلنگانہ بلکہ آندھرا ، مہاراشٹرا اور ٹاملناڈو کے دور دراز علاقوں تک پہنچنے کے لیے کبھی بس ، کبھی کار ، کبھی ٹرین تو شاذ و نادر ہوائی سفر بھی درپیش ہوتا ہے ۔ ایک تو گھنٹوں کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے اور دوسرے زیر بار بھی ہونا پڑتا ہے۔ لیکن خلوص اپنائیت اور محبت کے دعوت ناموں کا ڈھیر لگتا گیا یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ساری امت محمدیہ نے شادی خانوں پر یلغار کردی ہو ۔ ہم یہ سوچ کر پریشان کہ ایک تو ہماری ضعیفی و جان ناتواں اور اتنی ساری شادیوں میں شرکت کا چوطرف سے اصرار بڑھتا ہی جارہا تھا ۔ ایک دن میں دو تین جگہ شرکت بھی ناقابل عمل مرحلہ بن کر ہمارے سامنے کھڑا تھا ۔ مسلمانوں نے دعوت دینے کے بھی نت نئے طریقے رائج کرلیے ہیں ۔ رنگ بہ رنگ رقعے نظر نواز ہوتے رہے ، مانجھوں کے بلاوے کے لیے پیلے تو سانچق کے سنہری ، مہندی کی رسم کے ہرے ، شادی کے دن کے لال تو ولیمہ کے کوئی اور جاذب نظر رقعے سامنے پڑے تھے اور زبان حال سے ہر رقعہ اپنی معاشی حیثیت و سماجی رتبے کا مظہر تھا اور ہماری کسمپرسی کا منہ چڑھا رہا تھا ۔یہ چمکتے رقعے دل موہ رہے تھے بلکہ ہمارا تمسخر اڑارہے تھے کہ تم اور تمہارے جیسے بیوقوف لوگ لاکھ قلم گھس لیں ہم اپنی تمام فضول خرچیوں ، بیجا رسومات و اخراجات کے ساتھ نہ اپنی خو بدلیں گے نہ اپنی ڈگر سے ہٹیں گے ۔ لیکن ہاں آپ جیسے تمام بزرگوں کی دعاؤں کے طالب ضرور رہیں گے ۔ نئی تہذیب کے پروردہ والدین جو ہمارے اور تیسری پیڑھی کے درمیان ایک کڑی ہیں دست بستہ آپ سے مخاطب ہوں گے کہ ہماری موجودگی و شرکت نہ صرف باعث مسرت ہوگی بلکہ بابرکت بھی ہوگی ۔ بچوں کا اصرار کہ پاشاہ نانی آپ آرہی ہیں نا ؟ تایا نانا کس دن پہونچ رہے ہیں ۔ تائی ماں وقت مقررہ پر ضرور آجایئے گا ، مانجھے فلاں ہال میں ہیں ، سانچق ، مہندی ایک ہی چھت کے نیچے فلاں جگہ ہے ۔ شادی فلاں محلے میں ہے ۔ ولیمہ فلاں فنکشن گارڈن میں ہے ۔ میوزک پارٹی کا اہتمام بھی ہے اور ہم حیران ان کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں کہ ایک شادی خانے سے دوسرے شادی خانے کا فاصلہ ہمارے گھر سے اتنے کیلومیٹر تو ضرور ہوگاکہ ایک دو شادیوں میں ہم اگر شریک ہوجاتے ہیں تو حیدرآباد کی بے ہنگم ٹریفک میں جتنا وقت لگ جاتا ہے اتنی دیر میں علی الصبح خوشگوار اور نرم گرم دھوپ ، صاف ستھری سواریوں و آمد و رفت سے بے نیاز سڑک پر ہم فراٹے بھرتے ہوئے اپنے گاؤں پہونچ سکتے ہیں ۔ ایسی ہی شادیوں میں شرکت کرتے ہوئے ہم اتنے تھک گئے تھے بلکہ خوفزدہ ہوگئے تھے کہ دروازے پر کسی کی آمد کی اطلاع سے وحشت ہونے لگی تھی کہ کہیں ان کے ہاتھ میں کوئی رقعہ نہ ہو لیکن لوگ آپ کو کہاں بخشنے والے ہیں ، دعوت نامے آتے ہی رہے اور باوجود لاکھ حیلے بہانے ڈھونڈنے کے رخت سفر باندھا ہی پڑا ۔ اس بار جو رقعہ ہمارے ہاتھ میں تھا بڑا سیدھا سادہ ، نہ مہنگا کاغذ ، نہ شوخ رنگ ، نہ افشاں سے چمکتے حروف اور سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ رقعہ کسی پوسٹ میان یا کوریئر بوائے یا درمیانی شخص نے نہیں پہنچایا تھا بلکہ تہذیب و اخلاق کے پروردہ دلہن کے والدین نے صرف رقعہ پہنچانے کے لیے ایک دن میں آنے جانے کے آٹھ گھنٹے بذریعہ بس سفر طے کیا تھا جبکہ قریبی رشتے دار بھی اکثر SMS یا فون پر مدعو کرنے کا طریقہ رائج کرچکے ہیں ۔ ہماری شرکت اس لیے بھی ضروری تھی کہ برسہا برس کے دوستانہ تعلقات تھے ۔ خلوص و نوازِشوں کا سلسلہ لامتناہی تھا نہ صرف ساگر بلکہ حیدرآباد ، مکہ ، مدینہ ، جدہ ہر جگہ یہ لوگ ہماری میزبانی کے لیے ہمارے ساتھ ساتھ رہ چکے تھے ۔ نکاح کی تاریخ آپہنچی تو ہم نے رقعہ کے متن پر نظر ڈالی تو ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے کہ ہم نے اپنی اتنی لمبی عمر میں نہ اس محلے کا نام سنا تھا نہ ہی اس شادی خانے کا ۔ آجکل حیدرآباد اور اس کے اطراف پھیلے ہوئے نت نئے محلوں سے ہم بالکل ناواقف ہیں خصوصاً جہاں گلیاں در گلیاں ہوں اور پرپیچ راستے ہوں ۔ ہم رقعہ تھامے ہر نکڑ ، ہر موڑ ، ہر دکاندار سے ، ٹھیلہ بنڈی والوں سے ، آٹو رکشا والوں سے پتہ پوچھتے پوچھتے آخر اس مقام تک پہنچ ہی گئے جو ہماری منزل مقصود تھی ۔ وہی گاؤں و دیہات کی آؤ بھگت ، وہی پرانی محبتیں ،وہی خلوص ،وہی اپناپن لیے بچوں بڑوں کا والہانہ انداز سے لپٹ جانا ۔ گلے ملنا ، خوشی کے مارے اس ملاقات پر آنکھیں نم کرلینا ، دوڑ دوڑ کر استقبال کرنا ، یہ ساری باتیں ہمیں بار بار یہ احساس دلارہی تھیں کہ اگر ہم اس شادی میں شرکت نہ کرتے تو یہ سارے التفات سمیٹنے سے محروم رہ جاتے جو ہم کو چند اور سال پوری جولانی سے جینے کی امنگ پیدا کرتے ہیں ۔ ہماری رہنمائی کو چند لڑکے آگے بڑھ آئے ۔ مستورات کا انتظام دوسری منزل پر تھا ، بغیر ریلنگ کی عمودی سیڑھیوں کا راستہ بے حد تنگ تھا جسے دیکھ کر تو ہمارے اوسان خطا ہوگئے کہ اوپری منزل کو پہنچ کر دلہن کے سر پر دست شفقت رکھ کر دعائیں دینے سے پہلے کہیں عزیز و اقارب کو ہماری مغفرت کی دعا مانگنے کا وقت نہ آجائے اور ہم خاک نشین نہ ہوجائیں لیکن جب ہاتھ میں ہاتھ ہو اور اپنوں کا ساتھ ہو تو پندرہ بیس سیڑھیاں کیا چیز ہیں ۔ دشوار گذار طویل ترین مسافت و فاصلہ بھی طے ہوجاتا ہے ۔ پھولتی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے ، ہانپتے ہوئے جب آخری سیڑھی پر پہنچے اور شہ نشین پر نظر پڑی تو گویا ساری کلفت و تھکن دور ہوگئی ۔ ہمارے لبوں پر مسکراہٹ بہت واضح تھی اور یوں عیاں ہوئی تھی کہ دور دور تک سب کو اسکا پرتو نظر آگیا ۔ دلہن کا اسٹیج سجا تھا ، سرخ مخمل کے مہاراجہ صوفے و کرسیاں رکھی ہوئی تھیں لیکن دلہن اپنی ہم جولیوں کے ساتھ تخت پر بچھی مسند پر گاؤتکیہ سے لگی اس طرح بیٹھی تھی کہ زانو موڑ کر فرش سے لگا ہوا تھا اور دوسرے پیر کے گھٹنے کو کھڑا کرکے اس پر تھوڑی ٹکی تھی ۔ گلابی عروسی جوڑے کا بڑا سا جھلملاتا گھونگھٹ اسکے چہرے پر پڑا تھا ۔ میں نے قریب پہنچ کر گھونگھٹ ہٹایا اور سلام کیا تو اس نے میری آواز سن کر بے ساختہ اپنی پلکوں کی چلمن اٹھائی اور جھک کر مجھے مودبانہ سلام کا جواب دیا اور پھر سمٹ کر اپنی جگہ اسی انداز سے بیٹھ گئی ۔ میں سوچتی رہ گئی کہ اس کو دعائیں دوں یا اس کی شرم و حیا کو نہاروں یا ان ماں باپ کی تعظیم کروں جنہوں نے اس لڑکی کو اتنا تو سکھانے کی زحمت کی کہ ایک دلہن کا انداز کیسا ہو کہ محفل میں جہاں اس پر مدعو خواتین کی نگاہیں مرکوز ہوتی ہیں اور ان کی توجہ کا اہم مرکز ہوتی ہے تو وہ نہ صرف خود کو بلکہ اپنے خاندان ،اپنے ماں باپ ، اپنے مذہب ، اپنی دینی و دنیوی تعلیم و تربیت کی علم بردار اور عکاس ہوتی ہے ۔ میری آنکھوں میں تو یہ بھولی بھالی معصوم سی شرمیلی بس گئی ۔ کیونکہ آج کل تو دلہن یا تو ویڈیو گرافر کو نت نئے پوز دیتے ہوئے نظر آئیں گی یا پھر آس پاس بیٹھی لڑکیوں و خواتین سے پٹر پٹر باتیں کرتی رہیں گی ۔ نہ جانے اس دن اس وقت ایسے کونسے اہم مسائل درپیش ہوتے ہیں کہ ان کا حل ڈھونڈھنا ضروری ہوتا ہے کہ باتوں کا سلسلہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا ۔ بیباک نظریں پوری محفل کا جائزہ لیتی رہتی ہیں جبکہ محجوب نگاہیں دلہن کا زیور ہوتی ہیں لیکن آجکل نہ نگاہیں جھجکتی ہیں نہ پلکیں جھکتی ہیں شاید انہیں یہ یقین کہ نظریں وہی چراتے ہیں جن کے دل میں چور ہو ، نگاہیں ان کی جھکتی ہیں جو اپنے کئے پر نادم ہوتے ہیں ۔ بولتی ان کی بند ہوتی ہے جو مقابلہ کرکے سامنے والے کو لاجواب کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ ہماری لڑکیوں بہوؤں و دلہنوں میں ماشاءاللہ ایسی کوئی خامی یا خرابی نہیں بلکہ خوبیاں ہی خوبیاں ہیں ۔ بفضل تعالی نہ صرف تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اعلی تعلیم یافتہ ، ہر فن مولا ہیں ۔ کمپیوٹر کی ماہر ہیں آئی فون ، اسمارٹ فوٹ ، ٹیبلٹ غرض ہر چیز پر دسترس حاصل ہے ۔ شاپنگ کو نکلیں تو دکانداروں کے چھکے چھڑادیں ۔ برسرروزگار ہوں تو پوری مستعدی سے گھر و باہر کی ڈیوٹی انجام دیں ۔ خانہ دار ہوں تب بھی کسی معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں برگر پیزا سے لیکر ہر مغلائی و چینی ڈش منٹوں میں تیار کرلیں گی ۔ نل ، بجلی ، بینک کی بل آن لائن ادا کردیں گی ۔ ان تمام خوبیوں کے ساتھ اگر آپ نوجوان دلہنوں ، بہوؤں ، بیٹیوں کی موجودہ طرز زندگی و تبدیلیوں کو حد سے تجاوز کرجانے کا نام بلکہ الزام دیں تو زیادتی ہوگی بلکہ آپ قابل سرزنش بھی ہیں ۔ نئی نسل کا عتاب آپ پر نازل ہوگا ۔ اور اگر آپ انہیں روکنے کی کوشش کریں گی تو ان لڑکےوں کے ساتھ ان کے ماں باپ و اہل خاندان کو بھی ناگوار گذرے گا ۔ حالانکہ اپنے آپ پر ناقدانہ نظر خود ان کی اصلاح کا باعث بن سکتی ہے ۔ ہم موجودہ نسل کی انفرادی شخصیت کو اپنی مرضی کے مطابق ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں تو ہماری کوششیں رائیگاں جاتی ہیں ۔ برسہا برس کے بعد ایک بھولی بھالی معصوم چہرہ دلہن کو میں نے گھونگھٹ میں چہرہ چھپائے دیکھا تھا حالانکہ اسے بھی گاؤں سے حیدرآباد آئے ہوئے بارہ سال ہوگئے تھے ۔ پھر بھی شہر کا رنگ اس پر نہیں چڑھا تھا ،اتنے دلکش روپ میں اسے دیکھ کر میں سرشار ہوگئی ورنہ دلہن کا پارلر والا میک اپ کچھ اس قدر لیپا تھوپا جارہا ہے کہ اس کے رنگ و روپ کی اصلی ساخت بھی ختم کردی جاتی ہے اور پھر اتنا پیسہ و وقت پارلر پر خرچ کرنے کے بعد کوئی اپنے چہرے کو گھونگھٹ میں چھپالے تو ایسی دلہن کو آپ بیوقوف ہی کہیں گے نا ؟ایسی دلہن ہم کئی دہوں پہلے دیکھا کرتے تھے ۔ اب تو ضلع، دیہات ، قصبے ،کھیڑے میں تک ایسی دلہنیں ناپید ہوگئی ہےں ۔ آج کل شرمیلی ، نظریں جھکائے اپنے قدموں کی چاپ سے تک خائف لڑکیاں عنقا ہوگئی ہیں ۔شادی کے منڈپ تک ماموں گود میں اٹھا کر لایا کرتے تھے اور منڈپ سے دولہا میاں گود یا کندھے پر لاد کر سسرال لے جایا کرتے تھے ۔ کہاں گئےں وہ دوشیزائیں ، جن کی نگاہیں بار شرم سے اوپر نہ اٹھتی تھیں ۔ نسوانیت کا احساس لیے پلکوں کی اوٹ میں وہ غلافی آنکھیں حشر برپا کرتیں ۔ اس کے ساتھ انہیں اپنی اوقات و حدود میں رہنے کا سبق دیا کرتی تھیں ۔آج کل بدلتے وقت کے ساتھ ہر چیز بدل گئی ہے اور شاید بدلنا بھی چاہئے کہ تحفظ عصمت و عفت ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے کھڑے ہیں لیکن بدلتے سماجی اقدار مٹتی ہوئی تہذیب و تمدن کی نشانیاں منفی حالات ، سوچ و فکر سے بے بہرہ ۔ ناآشنا جوانیوں کو کس کے نقش قدم پر چلنا ہے اور کس کی رہنمائی میں چل رہی ہیں ہمارے لیے اب یہ دو نسلوں کا فرق نہیں بلکہ اب تو تیسری پیڑھی کا بھی عالم شباب ہے اور اللہ ہماری عمر دراز کئے جارہا ہے اور ان نسلوں کے خیالات کا آپسی تصادم نہ صرف گھر بلکہ معاشرے و سماج کو بدلنے پر مجبور کررہا ہے ۔ حالانکہ ہماری گھریلو تقاریب و شادی بیاہ کوئی عیش و طرب کی محفلیں نہیں اس لےے جام و جم ہے نہ پی کر بہکنا یا لڑکھڑانا ہے نہ بیہودگی و بدزبانی کا حد سے تجاوز کرنے سے انکا کچھ لینا دینا ہے ۔ بس یوں لگتا ہے کہ پرانے اقدار سے ان لوگوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے ۔ اپنی روش بدل لی ہے ۔ اخلاق و قدریں بدل گئی ہیں انہیں تو ہم بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ

آتے ہیں تیری سمت بھڑکتے ہوئے شعلے

شعلوں سے ذرا دامن تقدیس بچانا

اب نہ پہلے جیسا ماحول ہے نہ کردار ہے ۔ بزرگ بھی ایثار و عمل کے پیکر نہیں رہے اور نئی نسل حد ادب کے حصار سے نکل کر بدطینت ہوگئی ہے ۔ قناعت پسندی مفقود ہوچکی ہے ۔ فکر و عمل کہیں روپوش ہوچکے ہیں ۔ حالانکہ درخشاں تابندہ مستقبل اپنی طرف بلارہا ہے۔ ماں باپ اپنی حیثیت سے زیادہ روپیہ تعلیم پر خرچ کرنے پر تیار ہیں ، لیکن آئی فون ، اسمارٹ فون کمپیوٹر کے رسیا وعادی ہوگئے ہیں ۔ تعلیم میں پچھڑ گئے ہیں اور اب یہ حال ہے کہ بڑوں و بزرگوں نے بھی ہر بات میں مصلحت آمیز رویہ اپنانے میں اپنی عافیت سمجھ رکھی ہے ۔ فہم و فراست ناپید ہوگئے ہیں ۔ ایک عجیب سی بے نیازی تغافل اور دلوں میں رنجش و کدورت آپسی رشتوں کو تلخ کئے جارہے ہیں ۔ پتہ نہیں لبوں کی شیرینی کیوں اور کیسے تلخ گوئی میں بدل گئی ہے ۔ نہ بچے اپنی عادتوں سے باز آرہے ہیں نہ ہم اپنی خو بدلنے پر تیار ہیں ۔ اب تو رشتے داروں کی طرف سے نہ خیریت نہ مزاج پرسی ، نہ پرسش احوال ہے ۔ عجیب بے حسی کا عالم ہے ۔ ہم بدتر حالات کے ماحول میں خود کو محصور کرچکے ہیں ۔ رشتوں کی بے اعتنائی سے دل کڑھتا ہے ملال ہوتا ہے ۔ لیکن نئی پود کو کیا سمجھائیں ، کیا نصیحت کریں جبکہ ناصح کی پند و نصائح سنتے سنتے یہ لوگ بھی عاجز آگئے ہیں جب بھی ہم کچھ کہنے کے لےے منہ کھولتے ہیں تو بچے بول پڑتے ہیں کہ ”اوہ ننو اب بس بھی کریں آپ اس زمانے کی بات کرتی ہیں جب شمالی ہند کا اردوداں تعلیم یافتہ طبقہ دلہن کو عروس کہا کرتا تھا اور دکن کے دیہاتی لوگ آرس بولا کرتے تھے لیکن اب ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں ۔ انگریزی کا بول بالا ہے اور دلہن brideکہلاتی ہے“ ۔ اب آپ ہی بتایئے کہ کیا وہ وقت نہیں آگیا ہےکہ ہم دانستہ اپنے آپ کو بیگانہ و بے زبان بنا بیٹھیں ؟ پھر بھی ہم بوڑھیوں سے چپ کہاں بیٹھا جاتا ہے ۔ ہمارے نقطہ نظر سے اور بقول شاعر

خوش سلیقہ ، نظریں نیچی ، باحیا خاموش سی

اجنبی کتنی بھی ہوں وہ لڑکیاں اچھی لگیں