Thursday, June 6, 2024

زندگی دھوپ، تم گھنا سایہ نفیسہ خان۔ناگر جنا ساگر

 

زندگی دھوپ، تم گھنا سایہ

نفیسہ خان۔ناگر جنا ساگر



اس بار خان صاحب کے گھر اور خاندان میں بہار آئی ہوئی تھی، مہینہ جولائی کے ساتھ ساتھ رمضان کا بھی تھا وہ سب رم جھم بارش کے مزے لوٹنے آئے تھے لیکن یہاں تو گرمی اپنے شباب پر تھی اسکے باوجود شہر حیدرآباد کی رونقیں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھیں۔ بیرون ملک سے آنے والے افراد خاندان کی اس سال حاضری بھی مکمل تھی ورنہ ہوتا یوں تھا کہ شوہر کے رشتے داروں میں شادی ہو یا موت وہی آئے گا اور بیوی اپنے بچوں کو لیکر وہیں رہ جائے گی اور جو بیوی بچے آئیں گے تو شوہر نہ آپائیں گے۔ کبھی ایک بیٹا آتا تو دوسرا غائب رہتا تھا، بیٹی آتی تو داماد جی ندارد ہوا کرتے تھے،لیکن اس بار بات عید منانے کی تھی۔ چھٹیاں بھی تھیں، شادیاں بھی تھیں، بچت کے نام پر پیسہ بھی ہاتھ میں تھا اسلیے سبھی آئے ہوئے تھے۔ آبائی مکان کے چھوٹے بڑے آنگن اور دالان اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہے تھے۔ ہر ایک کے کھاتے میں منائے جانے والی تقاریب کی لمبی چوڑی فہرست تھی، جیسے عقیقے، ہدیئے، تسمیہ خوانی، سالگرہ، روزہ رکھائی وغیرہ۔ یہ تقاریب حیدرآباد میں رنگ جمانے والی تھیں۔ پکنک پارٹیاں، Get Together ان کے علاوہ تھے۔ ان سارے پروگراموں کو قبل از وقت حیدرآباد کی سرزمین سے کوسوں دور تقوت دے دی گئی تھی۔ جلاوطنی اور سخت محنت سے حاصل شدہ رقم کا شاید کوئی دوسرا مصرف ہو ہی نہیں سکتا تھا اس لیے عید کے سوا بھی ہر روز عید اور ہر رات شب برات تھی۔ کدھر دن نکلتا ہے اور کدھر رات گذر جاتی ہے معلوم ہی نہیں ہورہا تھا۔ ویسے بھی باہر والوں کی صبح گیارہ بجے کے بعد ہوتی ہے اور ناشتہ ختم ہونے تک بارہ بج جاتے ہیں۔ ایسی ہی بے قاعدگی دوپہر اور رات کے کھانے کے معاملے میں تھی نہ سب کا دسترایک ساتھ بچھایا جاسکتا تھا نہ کسی دن کسی وقت سب کا ساتھ بیٹھ کر کھانے کا کوئی امکان تھا۔ ویسے بھی خان صاحب اپنی عمر کی پچھتر سیڑھیاں چڑھ چکے تھے اس لیے کمزوری و نقاہت انہیں زیادہ تر اپنے کمرے تک محدود کئے ہوئے تھی کیونکہ

رخصت ہوئی شباب کے ہمراہ زندگی      کہنے کی بات ہے کہ جئے جارہا ہوں میں

کے مصداق خان صاحب چاہتے تھے کہ ان کی بیوی شیریں ان کے آس پاس ہی رہے۔ جوں جوں عمر بڑھ رہی تھی خان صاحب کی شیریں سے محبت و وارفتگی بڑھتی جارہی تھی جسے شیریں شوہر کے عدم تحفظ کے احساس پر محمول کرتی تھیں۔ شاید خان صاحب بھی یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ بیٹے، بہوؤں، بیٹیوں ، دامادوں اور بچوں کے آئے دن کے مختلف مشاغل میں عمر رسیدہ لوگوں کا وجود کچھ زیادہ گوارا نہیں ہوتا ہے۔ اور وہ ان غیر ضروری ہنگاموں کے نہ ذہنی، نہ جسمانی اور نہ ہی اخلاقی طور پر متحمل ہوسکتے تھے۔ طویل العمری نے نظام حواس کو کمزور و درہم برہم کردیا ہے۔ کسی پر شکستہ پرندے کی طرح قوت پرواز معدوم ہوگئی ہے۔ اس لیے التفات خاص کے خواہاں رہتے ہیں۔ ایسے میں سعی دلداری شیریں کے سوا کون کرسکتا تھا، لیکن ایک بیوی کے علاوہ گھر گرہستی کی ذمہ دار خاتون اور ماں کے ناطے شیریں کو اپنی تمام تر ذمے داریاں نبھانی ہی پڑرہی تھیں کہ

یہ ہجرتوں کے تماشے یہ قرض رشتوں کے

میں خود کو جوڑتے رہنے میں ٹوٹ جاتی ہوں

ویسے بھی رشتوں میں خلوص، محبت، اپنائیت کا ہونا اشد ضروری ہوتا ہے، لیکن شیریں بھی اب محسوس کرنے لگی تھی کہ وہ حرارت اور گرمجوشی اب معدوم ہوتی جارہی تھی پھر بھی شیریں کو پہلے خود کو سنبھالنا پھر شوہر کی مرضی کو ملحوظ رکھ کر ہر قدم اٹھانا پڑتا تھا اور اب تو بھرے پرے گھر کی بے شمار مصروفیات نے انہیں متحرک کررکھا تھا۔خان صاحب چاہتے تھے کہ شیریں ساری گھریلو ذمہ داریوں کو ترک کرکے بس ان کی جی حضوری میں لگی رہیں۔ جانے یہ احساس انہیں کیوں پریشان کررہا تھا کہ اگر شیریں نہ ہو تو کیا ہوگا؟ اولاد ان کی بھی تھی لیکن سوائے شیریں کے ان کا ہمدم ان کا دوست اورساتھی وہ کسی اور کو نہ مانتے تھے۔ ان کے عدم تحفظ کے احساس نے وقتی طور پر تشویش کی حد تک سب کو پریشان کررکھا تھا کہ اماں ذہنی و جسمانی طور پر سب کو سمیٹتے ہوئے ہراساں ہورہی ہیں لیکن ان بچوں کا ہر احساس لمحاتی ہوتا ہے ان کے لیے اپنی چھٹیوں کو بیکار و فضول خیالات کی آماجگاہ بنا کر غارت کرنا کہاں کی عقلمندی تھی۔ بس یہی پروگرام بناتے رہے کہ آج کہاں جائیں گے، کل کا کیا پروگرام ہوگا، مکانات ناکافی ہوں تو کسی کے فارم ہاوس یا ریسورٹ پر نظر تھی کہ کہاں کس مقام یا گھر کونسی پارٹی یا تقریب کا اہتمام کیا جاسکتا ہے کیونکہ وسیع ہال کے ساتھ اہل خانہ کا وسیع القلب و فراخ دل بھی تو ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ اب نئی نسل کے لیے شہر حیدرآباد میں رکھا ہی کیا ہے۔ آثار قدیمہ کی طرح خاندان کے بچے کھچے ضعیف افراد جن کے پاس بوسیدہ دیواروں کے گھر اور محبت کے سوا دینے کے لیے رہ بھی کیا گیا ہے، لیکن وہ التفات کے متلاشی ہیں کہ جدائی کا دائمی غم دے کر جو جاچکے ہیں جب بھی لوٹ کر آئیں تو کم از کم ان کی نظروں کے سامنے رہیں۔ ان سے اپنائیت، خلوص، محبت کا ٹوٹ کر اظہار ہو  ؎

تھوڑی سی محبت کے تو حقدار ہیں ہم لوگ

گذری ہوئی تہذیب کے آثار ہیں ہم لوگ

بچوں نے تلاش روزگار کے لیے بلکہ ڈھیر سا روپیہ کمانے کے لیے وطن چھوڑا ہے روزی روٹی تو یہاں بھی میسر تھی۔ اس سے پیٹ بھر سکتا تھا لیکن آرام و آسائش کی ہر چیز خریدی نہ جاسکتی تھی۔ اب انہیں وطن کی یاد کم کم ہی آتی ہے اور وہ رشتوں کے تقدس کو فراموش کرچکے ہیں خصوصاً تیسری نسل ان کے معنی و مفہوم سے قطعی بیگانہ ہے، لیکن شیریں اپنے بکھرے ہوئے خاندان کے شیرازہ کو سمیٹنے میں لگی تھی۔ طے شدہ تقریبات کی فہرست یوں بھی طویل ترین تھی۔ اتنے میں خان صاحب کے جگری دوست جن کی بیوی دو تین سال میں ایک بار کم از کم تین چار ماہ کے لیے بلالی جاتی تھیں اور بیچارے یکا وتنہا ہوجایا کرتے تھے، بہو کا سلوک بھی ناروا سا ہوتا تھا، اس لیے وہ خان صاحب کے پاس آجایا کرتے تھے۔ انہوں نے یہ انکشاف کردیا کہ شیریں و خان صاحب اپنی اٹوٹ محبت، وابستگی، پیار محبت، اپنائیت کے ساتھ ازدواجی زندگی کے پچاس سال پورے کرنے جارہے ہیں۔ یہ سن کر نئی نسل کو ازدواجی وابستگی، خوش حال زندگی کے پچاس سال کی تکمیل جیسے اردو کے ثقیل الفاظ سمجھ میں نہیں آئے لیکن جب کسی نے لفظ ”گولڈن جوبلی“ کا اضافہ کردیا تو سب کی ایک ساتھ آواز ”واؤ“ سے گھر گونج گیا۔ پھر کیا تھا اس کے بعد Let's Celebrate کے نعرے بلند ہونے لگے۔ خان صاحب ان سب باتوں سے لاتعلق سے تھے۔ بس گھر کے موجودہ رنگ و نور میں شیریں کہیں ان سے غافل نہ ہوجائے یہی فکر ان کو لاحق تھی۔ کہیں ان کے بیٹے بیٹیاں شیریں کو بیرون ملک اپنے ساتھ نہ لے جائیں اسی فکر میں دن میں کئی کئی بار بلا ضرورت بھی شیریں،شیریں کا نام الاپتے رہتے انہیں گویا دوسروں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ شیریں بھی بڑی تندہی و خندہ پیشانی سے خاں صاحب کی آواز پر لبیک کہا کرتی تھیں کہ ان دنوں کے یہ جشن، یہ قہقہے، یہ رونقیں سب کچھ وقتی ہیں پھر وہی گھر، وہی بجھا بجھا سا ماحول رہے گا۔ وہ سوچتیں ہجر و وصال میں کیا فرق ہے۔ وہی فرق نا جو کہ خزاں و بہار میں ہے یا پھر جوانی اور بڑھاپے میں ہے، لیکن جوانی سے بڑھاپے تک کا طویل فاصلہ طے کرتے ہوئے شیریں اور خان صاحب ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔ بچوں نے گولڈن جوبلی منانے کے لیے سارے انتظامات مکمل کردیئے تھے۔ ناتے ناتیوں نے دادا دادی اور نانا نانی کے لیے نئے ملبوسات نئے فیشن کے مطابق سلوائے تھے۔ شیریں کی ہتھیلیوں پر حنا کا رنگ اپنی چھب دکھارہا تھا، انہیں یاد بھی نہ تھا کہ انہوں نے کب کتنے سال پہلے مہندی لگائی تھی۔ سنجیدہ مزاج شیریں کے احتجاج کے باوجود انہیں سنوار کر صوفے پر براجمان خان صاحب کی طرف لانے لگیں۔ خان صاحب کی نظروں نے دیکھا کہ بڑھاپے کی جھریوں کے پیچھے شیریں کا روئے زیبا روشن و تابندہ تھا گویا ہوا کے ایک جھونکے نے زندگی کے کئی اوراق یکدم پلٹ دیئے ہوں۔ ان کی خالہ زاد بہن شوخ و چنچل شیریں زینوں سے چھلانگیں بلکہ ہرن کی طرح چوکڑیاں و قلانچیں مارتی ہوئی اتر رہی تھیں لہراتا دوپٹہ، بل کھاتی چوٹیاں، سانسوں کا زیر وبم، پیشانی پر عود کر آنے والی موتیوں جیسی پسینے کی بوندیں، جمال یار کا نظارہ خان صاحب کی آنکھوں میں ابھر آیا۔ شیریں قریب آئی تو انہوں نے بڑھ کر ان کا ہاتھ تھام لیا اور اپنے ساتھ صوفے پر بٹھالیا۔ آج بھی شیریں کی ہتھیلیوں پر مہندی رچی تھی اور دست حنائی کی حرارت و نرمی خان صاحب کے لاغر ناتواں جسم کو حرارت بخش رہی تھی۔ خان صاحب کا چہرہ مسرتوں کا پرتو لیے دمکنے لگا۔ ایک شان بے نیازی سے انہوں نے اپنے بھرے پُرے خاندان کے افراد پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور گویا ہوئے ”شیریں نے میری زندگی، میرے جینے کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ وہ صرف میری بیوی ہی نہیں بلکہ میری دوست، میری رہنما، میری رہبر، میری دلبر بلکہ میرے اپنے وجود کا ایک حصہ رہی ہے۔ تھوڑی دیر بھی وہ میرے اطراف نظر نہ آئے تو میں بڑا بے چین ہوجاتا ہوں۔ مجھے اس کے سائے، اس کی پناہ کی عادت سی ہوگئی ہے۔ یہی میرا مرکز، سوچ و فکر ہے، میرے تصورات کے تانے بانے انہیں کے اطراف بنے گئے ہیں۔ بس دعا کرو کہ پاک پروردگار تاحیات میرا یہ سہارا مجھ سے نہ چھینے، تم لوگوں کی جدائی تو میں برداشت کرچکا ہوں لیکن شیریں کہیں مجھ سے جدا نہ ہوجائے یہ خوف مجھے پریشان کرتا رہتا ہے۔ میرے جیتے جی تم لوگ مجھے اس سے جدا نہ کرنا، مختصر مدت ہی کے لیے سہی اپنے ساتھ لیکر نہ چلے جانا۔ شیریں کے بغیر میں زندہ درگور ہوجاؤں گا۔ خان صاحب کے الفاظ شیریں کے صبیح چہرے اور لبوں پر چھائی ملکوتی مسکراہٹ کو اور دلکش بنارہے تھے۔ وہ خوشیوں کے بیکراں وسعتوں میں خود کو اڑتا ہوا محسوس کررہی تھی۔ اس رخ روشن کی معصومیت و تازگی پر ہزاروں صباحتیں قربان ہورہی تھیں۔ ہمیشہ اس کی دلآویز مسکراہٹیں ساری کلفت مٹادیا کرتی تھیں۔ شیریں کے ساتھ ان کی ہمنوائی کے بغیر شاید خان صاحب کی عمر رائیگاں جاتی اور شیریں خود بھی ساتھ نبھانے اور تعلقات کو مستحکم کرنے کے وصف سے بخوبی واقف تھی۔ اب عمر کی اس منزل میں ایک معمر جوڑے میں الفاظ کا تبادلہ کم اور نگاہوں کی زباں کا کام بڑھ جاتا ہے نا؟ زندگی کی اساس بس نازک احساسات پر قائم رہ جاتی ہے۔ دونوں میں ایک باہم ربط رہ جاتا ہے وہ بھی اس طرح کہ نہ پہلا دوسرے سے غافل ہوتا ہے نہ دوسرا پہلے سے بے نیاز رہ پاتا ہے۔ خان صاحب کے الفاظ سن کر شیریں اپنی جگہ سے اٹھی اور جھک کر انہیں سلام کیا۔ بچوں نے جھوم جھوم کر تالیاں بجائیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ اس ضعیف جوڑے پر اس رنگ و بو کے ماحول میں خدا کی رحمتوں و برکتوں کا نزول ہورہا ہو۔ اور دونوں ہی اپنے دل میں سوچ رہے ہوں کہ

ہم سفر چاہئے ہجوم نہیں                                اک مسافر ہی قافلہ ہے مجھے.

Monday, June 3, 2024

Nafeesa Khan ”سپردگی کا یہ عالم تمہیں ہوا کیا ہے“ نفیسہ خان۔ناگر جنا ساگر.

 

”سپردگی کا یہ عالم تمہیں ہوا کیا ہے“

نفیسہ خان۔ناگر جنا ساگر

 


لڑکیوں کے دل موم کی شمع تو ہیں نہیں کہ چپ چاپ جلتے اور سلگتے رہیں۔ کبھی ایک چھوٹا سا چراغ بھی پورے گھر کو شعلہ پوش کردینے کا باعث ہوتا ہے۔ یہی حال آج کل کئی ایک شریف گھرانوں کے افراد کے ساتھ ہورہا ہے، جنہوں نے باوجود تنگ دستی و غربت کے اپنی عزت و ناموس کو سنبھال رکھا تھا، ان کی بیوی بیٹیوں نے شرم و حیا عصمت و عفت کی چادروں کو سر سے کبھی سرکنے نہیں دیا تھا، اب بغاوت پر اتر آئی ہیں اور ان کے وہ قدم جو چوکھٹ سے با ہر رکھتے ہوئے بھی جھجکتے تھے، اب سر جھاڑ منہ پھاڑ سڑکوں پر دندناتی پھر رہی ہیں، اپنی پیاس، اپنی تشنگی کی تسکین کا وسیلہ ڈھونڈھنے کے لیے توقیر شرف و عزت کو قدموں تلے روند کر شرافت کی حدیں پار کر رہی ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جس بندے کا انتخاب انہوں نے کیا ہے، وہ اسے ایک باعزت ازدواجی زندگی ہرگز نہیں دے پائے گا، یہ صرف ایک سراب ہے جس جذبہ کو محبت جیسا پاکیزہ لفظ کا نام دے کر گھر سے بھاگ  کھڑی ہونے والی لڑکیوں کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کا یہ غلط فیصلہ ان کی زندگی کو اور زیادہ کٹھن و ہولناک کردے گا، سچی محبت کرنے والا لڑکا اس کی یا اس کے خاندان کی عزت و آبرو پر حرف کبھی نہ آنے دے گا، وہ پو رے احترام سے بیوی بناکر اپنے گھر لے جائے گا، اس کو خاندان، سماج کے سامنے سرنگوں نہیں کرے گا لیکن موجودہ حالات نے لڑکیوں کو یا تو شرافت کے دائرے میں گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے یا پھر وہ بغاوت کا پرچم بلند کر کے اپنی انا، خودداری، پندار کی باتوں کو قصہ پارینہ جان کر ان سب کو اپنے پیروں تلے روند کر آگے بڑھنے پر مجبور ہوگئی ہیں کیونکہ صرف لڑکیوں نے نہیں سبھی لوگوں نے اپنی روش بدل لی ہے۔ اخلاقی قدریں و رواج بدل گئے ہیں۔ لڑکیوں کی بے راہ روی کے ذمہ دار ماں باپ، پڑوسی، استاد اور سماج کا ہر فرد ہے ہم سب کا حوصلہ شکن عمل غلط راہوں پر گامزن ہر قدم کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔ ہمارے صرف تماشہ بین بن کر رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تعلیم یافتہ لڑکوں کی زند گیاں حصول روزگار کی جستجو تگ و دو میں گزر رہی ہے۔ بیروزگار کو کوئی لڑکی دیتا نہیں ہے ایسے میں لڑکے بھی شادی کا جھنجھٹ پالنے سے گریز کر رہے ہیں۔ عام طور پر یہ خیال پروان چڑھ رہا ہے کہ جب اسّی روپئے لیٹر دودھ آسانی سے دستیاب ہو تو اسّی ہزار کی بھینس پالنے کا درد سر کیوں مول لیں مگر ایک گھر گرہستی بیوی بچوں کے ساتھ آسودہ زندگی کا خواب ہر کنوارے لڑکے لڑکیوں کے دل میں ضرور انگڑائیاں لیتا رہتا ہے۔ نوجوانوں کے جائز مطالبات ان کی فطری جسمانی خواہشات کی تکمیل نہ ہوپائے تو معاشرہ میں علتوں و گناہوں کو پنپنے کا موقع مل جاتا ہے، خوف خدا اور خوف سماج دل سے دور ہوکر فحش ماحول بن گیا ہے تو ہم ایک دوسرے پر الزام دھرنے پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ شریف لڑکیاں عجز کامل بنیں اپنی شرافت کے حصار میں مقید ہیں، ان کی ذہنی تکلیف اور شدت کا ہمیں احساس ہے لیکن بہار کی منتظران جوانیوں کو خزاں کے سایوں سے بچانے سے ہم معذور و محروم ہیں، شگفتہ پھولوں جیسی لڑکیاں جوانی کی راتیں امنگوں کے دن کے خیال خام میں مرجھا کر رہ گئی ہیں، اس عمر میں ہر کوئی بیشمار تمناؤں و آرزوؤں کے خواب لیے شعور کی سرحدوں میں قدم رکھتا ہے۔ ہر تمنا پوری ہو یہ ضروری تو نہیں لیکن خواہشات کے حصول و تکمیل ان کے لیے رنگ بہ رنگی تتلیوں کی طرح ہوتے ہیں، جن کے پیچھے نادان بچوں کی طرح دیوانہ وار دوڑتی دوڑتی تھک جاتی ہیں۔ خوش نصیب ہوتی ہیں وہ لڑکیاں جن کے ارمانوں کی کلیاں چٹک کر پھول بنتی ہیں، ورنہ موسم بہار کی منتظر آنکھوں میں ہم نے خزاں کے سائے ہی لہراتے دیکھے ہیں، ان لڑکیوں کی بے خواب آنکھوں میں درد و ملال کی پرچھائیوں کے علاوہ کوئی سکون پرور خواب ہے نہ خوشنوا نغموں کا الاپ ہے نہ محبت کے شیریں الفاظ کسی نے گوش گزار کئے ہیں، حالا نکہ چاہنے اور چاہے جانے کی تمنا ہر دل میں ہوتی ہے لیکن ہر جذبے کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہوتا ہے، کل تک جو باحیا، با ادب، شرمیلی، لجائی سی لڑکیاں تھے آج منہ کھولنے  پر مجبور ہوگئی ہیں۔ کچھ تو شعلہ بیانی اور تلخ نوائی پر اتر آئی ہیں۔ شائد یہ مایوسی و محرومیوں کا ایک نفسیاتی رد عمل ہے۔ امید و بیم میں دوشیزگی و جوانی کے پینتیس 35 سال گزار دینا کتنا صبر آزما عرصہ ہوتا ہے، یہ ان ہی سے پوچھیں جن پر گزر رہی ہے۔ ان بچیوں پر گویا رحمتوں کا نزول ہونا بند ہوگیا ہے۔ کچھ بدقسمت لڑکیاں ایسی بھی ہیں جن کی پیدائش و پرورش ایسے گھرانوں میں ہوئی جہاں کے ماحول میں دم گھٹ کر رہ جائے، نہ صرف غربت بلکہ گالی گلوج، شراب نوشی مختلف قسم کے نشہ کے عادی افراد خاندان میں پروان چڑھی لڑکیاں اپنے خیالات کو پاکیزہ کیسے رکھ سکتی ہیں، ان کے قدموں کا ڈگمگا جانا فطری عمل ہے، پھر بقول فیاض فاروق   ؎

مفلسی روز یہاں بکتی ہے بازاروں میں

اور ہوس روز خریدار بدل دیتی ہے

اب اللہ سے دعائیں مانگنے کے لیے نہ ہاتھ اٹھتے ہیں نہ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ خدا سے شکایت بھی کریں بھی تو کس منہ سے جبکہ خود نمازی، نہ شرعی احکام پر عمل پیرا ہیں نہ کبھی قرآن کو ہاتھ لگایا نہ تلاوت کی نہ ذکر الٰہی میں خود سر خیالات کو کچلنے کی کوشش کی۔ اب بے راہ رو ہوکر سال پر سال گزار رہی ہیں، بڑھتی عمر کے ساتھ منزل نظروں سے اوجھل ہوکر تمنائیں حسرتوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔چہرے سے رونق چھن گئی ہے۔ مسکراہٹ پھیکی اور آنکھیں بجھی بجھی سی لگتی ہیں۔ ہر جذبہ پر تاثر عکاس ہوتا ہے، ان دیکھے، ان چھوئے احساسات کا، ان کے چہروں پر لکھی محرومیوں کی داستان سب کچھ بتا دیتی ہے، پچھتاوے و پشیمانی نے سر اٹھاکر جینے اور کسی سے آنکھ ملاکر بات کرنے کا حوصلہ بھی چھین لیا ہے۔ اپنوں کی طعنے زنی  اور گناہوں کے بوجھ تلے وہ اپنی ذات کو حقیر سمجھنے پر مجبور ہیں لیکن اس دلدل سے نکلنے کا راستہ تو مسدود ہوگیا ہے۔ کرب و اندوہ کی پالی لڑکیاں حسرت ویاس بھری الم زدہ زندگیاں گزار رہی ہیں اور جو سنہرے خوابوں کو آنکھوں میں سموئے سجائے تمام حدبندیوں کو بھلانگ کر گھر کی محفوظ چار دیواریوں سے باہر نکل آئی ہیں، قسمت نے ان کا ساتھ دیا تو گھر بسالیا ورنہ پھر وہی ما  یوسیاں و محرومیاں ان کا نصیب بن گئیں، کاش روح کی پاکیزگی بدن کے تقاضوں پر غالب نہ آتی لیکن اب تو پاک روحوں کی تلاش بھی ممکن نظر نہیں آتی۔ جب تک میں حیدرآباد میں رہی ایسی زندگیوں کے بے شمار پہلوؤں سے قطعی نابلد تھی جب روزگار کی خاطر، سماج سدھار کی خاطر، مہیلا منڈلی چلانے کی خاطر ہر روز ہر ذات مذہب طبقے عہدوں رتبوں غریب امیر عورتوں سے اور ان کے ارکان خاندان سے واسطہ پڑتا رہا تو جانا کہ ایک لڑکی، ایک عورت کی زندگی میں کتنے اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور پھر بھی مورد الزام و بدنام وہی ہوتی ہے یہاں رہتے ہوئے یہ بھی مجھے معلوم ہوا کہ دیہات قصبوں میں زمینداری و دولت کی فراوانی کام کے سلسلے میں اپنے گھروں  کے مردوں کو تو دور دراز مقام پر کام کرنے کی چھوٹ دے دیتے ہیں لیکن ان کے گھر کی عورتیں اپنے دیہات و گھر کی چار دیواریاں چھوڑ کر شوہر کے ساتھ نہیں جاسکتیں، ایسے میں زمینداروں، گتے داروں کو نئے مقام پر گھر سنبھالنے، پکوان و کام کاج اور دوسری جملہ ضروریات کی تکمیل کے لیے ایک بانکی بائی کی ضرورت ہوتی ہے گویا دوسرے معنوں میں کنٹراکٹ بیوی چاہئے جن کے گھر سنسار کرنے کی مدت کا کوئی تعین نہیں ہوتا۔ یہ بات بیویاں جانتی ہیں اور اہل خاندان بھی بخوبی واقف رہتے ہیں۔ ایک بار مجھ سے ملنے قریب کے قصبے سے زمیندار کی بیوی سلوچنا آگئی، میرے گھریلو کام پکوان میں ہاتھ بٹانے والی نرسماں جو خود بھی اسی دیہات کی تھی، سلوچنا کو دیکھ کر لپک کر اس کے پیروں پر گر پڑی اور ”دوراسانی، دوراسانی“ کہتے ہوئے اپنی مسرت کا اظہار کرنے لگی۔ سلوچنا نے جلدی سے اپنے پیر سمٹ لیے اور سختی سے منع کرنے لگی کہ اسے اس نام سے نہ پکارے کیونکہ وہ دوراسانی نہیں ہے بلکہ وہ پدا دورا کی بھاریا ہے (بڑے زمیندار صاحب کی بیوی ہے) اس دن ان ہی سے معلوم ہوا کہ دوراسانی اس عورت کو کہتے ہیں جو صاحب کی نور نظر تو ہو لیکن نہ اس سے شادی کی ہو نہ بیوی کا رتبہ دیا ہو۔ پہلے یہ کام دیو داسیاں کیا کرتی تھیں اور آج کل اس طرح بھی کئی لڑکیاں و عورتیں گزر اوقات و گزر زندگانی کے لیے ایسی زندگی گزار رہی ہیں۔ آج انٹر میں پڑھنے والی کریمہ ایک غیر مسلم موچی کے ان پڑھ، جاہل، یومیہ مزدوری پر پٹرول پمپ پر کام کرنے والے لڑکے کے ساتھ فرار ہوگئی تو مجھے رہ رہ کر رحیم صاحب یاد آرہے ہیں جن کی دونوں لڑکیوں کی تعلیم پہلی جماعت سے دسویں تک میرے اسکول میں ہوئی تھی، جب دونوں دسویں جماعت کامیاب کرچکیں تو وہ ٹی سی لینے اسکول آئے تو ان کا انداز کچھ اکھڑا اکھڑا سا لگ رہا تھا، پہلے ہی سے وہ کریلا تھے، آج تو گویا نیم کے پیڑ سے لپٹ گئے تھے۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ شائد یہ رد عمل ہے بچیوں کی خواہش یا ضد کا کہ انہیں بھی جونیئر کالج میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ پڑھنے دیا جائے۔ اس بات کو وہ باپ کی نافرمانی و گستاخی سے تعبیر کر رہے تھے۔ کلاس ٹیچر کی شامت آگئی کہ تمام سرٹیفکیٹس دیتے ہوئے انہوں نے رحیم صاحب سے پوچھ لیا کہ ”آپ نے گورنمنٹ جونیئر کالج کا داخلہ فارم تو لالیا ہے نا؟“ رحیم صاحب ماسٹر صاحب پر پل پڑے۔ ”دیکھو سر تم لوگوں کے سومڑی صورتاں پو بھر وسہ کر کے میں مرد بچے بچیاں مل کو پڑھنے کے اسکول کو نہیں بھیجا“۔ میں نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی کہ کم از کم تعلیم انٹر مقرر کی گئی ہے۔ رحیم صاحب دو سال کی تو بات ہے اور پھر فیس وغیرہ بھی نہیں کتابیں کاپیاں بھی مفت ملیں گی“۔ وہ ماسٹر صاحب کی طرف سے میری جانب پلٹے۔ ”او میڈم۔ تم ایک شیرنی کے نادیہ جگہ اس کرسی پو بیٹھ کو اوپر کی منزل سے بڑی کلاسوں سے اترنے چڑھنے والے ہر ایک پوٹے پوٹیوں پہ چیل کی نظر رکھتے تھے، اسکول کے ایک میل کے احاطہ تک کسی ماں کے …… کو قدم رکھنے کا دم نہیں تھا، بول کے میں پانچ جماعتاں پڑھا  سو والا بھی اپنی بچیوں کو دس جماعتوں تک تمہارے حوالے کر کے بے فکر تھا، اب کالج میں لچے لفنگوں کے بیچ میں ڈھکیلو بولتے تم۔ میں پانچویں فیل ہو کو چپلوں کی ایک چھوٹی دوکان چلا کو پانچ بچوں کو بیوی کو  نئیں پال رؤں، ویسائچ کوئی بھی ڈھونڈھ کو دونوں بچیوں کے ہاتھ پیلے کردیتوں۔ ہمارے پاس عزت کے سوا کیا ہے میڈم؟؟ ہم کو بڑے بڑے پڑھائیاں نکورے با۔ او میڈم میں تمہاری تعریف کروں اور تم انجان بیٹھیں کیا؟ آپ میرے منہ پر میری تعریف ”اور میرے اسٹاف کی برائی کر رہے ہیں، مجھے یہ گوارا نہیں ہے“۔ وہ کچھ نرم پڑے سلام کیا اور رخصت ہوگئے۔ جنت نصیب رحیم صاحب کو کہ اجڈ گنواڑ تھے لیکن نیک، دوکانداری و لین دین میں ایماندار تھے، آج گیارہ سال بعد ان کی ایک لڑکی کو اس کا شوہر معہ بچوں کے اس کی ان پڑھ جاہل نادار ماں کے گھر چھوڑ گیا ہے اور وہ بھی معمولی گھریلو جھگڑے کی وجہ سے ماں کے گھر بھیج دی گئی جو ماں خود اپنے بیٹوں بہوؤں کی آپسی لڑائیوں سے بد حال و بیمار ہے اپنی لڑ کی اور اس کے بچوں کو بھاوجوں کے طعنوں سے کیسے بچا پائے گی، کیسے انہیں پیٹ بھر کھلا سکے گی؟ میں اس لڑکی کے ساتھ پڑھنے والی چند لڑکیوں کو دیکھتی ہوں کوئی آنگن واڑی کی ٹیچر تو کوئی آیا۔ کوئی منڈل میں تو کوئی پرائیویٹ اسکولوں میں نوکریاں کر رہی ہیں، اپنے پیروں پر آپ کھڑے رہنے کی تعلیم و صلاحیت کے ساتھ شوہر بچوں کے ساتھ خوشحالی سے گھر گرہستی چلا رہی ہیں، ایسے میں مجھے مرحوم رحیم صاحب کی بہت یا د آتی ہے جو بچیوں کی عزت و آبرو کو بچانے کی خاطر ان کی شادیوں کی فکر اور پس اندازی میں خاطر خواہ علاج نہ کرواسکے اور پہلے ہی دل کے دورے میں اس جہانِ فانی سے اچانک کوچ کر گئے۔ اس شریف آدمی کے الفاظ کی اہمیت کا اندازہ ہورہا ہے، میں سمجھ نہیں پارہی ہوں کہ وہ صحیح تھے یا آج کل کے والدین جنہیں زمانے کے ساتھ خود کو بدلنا پڑا ہے۔ اپنی بچیوں پر پورا بھروسہ و اعتماد رکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے لیے گا ؤں سے شہر، پھر شہر سے دوسری ریاست وہاں سے دوسرے ملک کو بھی بھیجنے میں عار نہیں سمجھ رہے ہیں۔ تعلیم و روزگار کے حصول کی دوڑ میں انہوں نے کیا کھویا ہے کیا پا یا ہے، آج برسوں تعلیم کے شعبہ میں کام کرتے ہوئے بھی میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہوں کہ خوش قسمت ہیں وہ لڑکیاں جو گریجویشن کے بعد اچھا شوہر، اچھا سسرال پانے میں کامیاب رہیں، وہ لڑکیاں بھی میری نظروں کے سامنے ہیں جو منہ زور جوانی کے بر انگیختہ جذباتی طوفان میں بہہ کر آج متاع کوچہ و بازار بن کر ہر روز نئے گاہکوں کی متلاشی رہتی ہیں۔ لڑ کیوں کی نگرانی اور انہیں سنبھالنا نہ صرف ماں باپ بلکہ سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے خواہ وہ کسی مذہب یا فرقہ سے تعلق نہ رکھتی ہوں اور میں سب بچیوں سے بس اتنا ہی کہوں گی کہ   ؎

نگاہ ناز کی بے باکیاں نہ ہوں عریاں

نظر میں اپنی حیا کا لباس رہنے دے

تاکہ لوگ ان  پر انگلی نہ اٹھائیں اور یہ نہ پوچھیں کہ   ؎

سپردگی کا یہ عالم تمہیں ہوا کیا ہے!!؟؟

Thursday, May 30, 2024

جہاں ہم ہیں وہاں ………… نفیسہ خان۔ناگرجنا ساگر۔ Nafeesa Khan

 

جہاں ہم ہیں وہاں ………… نفیسہ خان۔ناگرجنا ساگر



مجھے پوری بات یوں کہنی چاہئے تھی کہ ”جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے“۔ لیکن نہیں اب اتنے مظلوم یا گناہ گار بھی نہیں کہ ناکردہ گناہوں کی سزا کے مرتکب قرار دے کر دار تک پہونچادیئے جائیں گو کہ شہر والوں کی طرح کئی ایک نعمتوں، سہولتوں، آسائشوں سے ہم دیہات والے محروم ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھ لیتے ہیں کہ چوطرف سے سمنٹ کی عمارتوں اور آلودہ آب و ہوا سے محفوظ ہیں۔ شہروں کے چکاچوند کردینے والے رات و دن، اسکی پررونق رنگین چہل پہل مگر پرتصنع ماحول سے دور ہم نے کوہساروں میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے تو صرف اس لیے کہ سکون دل ہمیں یہیں میسر آتا ہے۔ ہماری ساگر سے والہانہ وابستگی کا یہ عالم ہے کہ چند روز کے لیے یہاں سے باہر جاتے ہیں تو ایک عجیب سی بے چینی، بے قراری کا عالم رہتا ہے جیسے زندگی میں ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے جیسے کہیں کچھ کھوگیا ہو۔ ساگر کی یاد شدت سے ستانے لگتی ہے اور ہمیں بیتاب کرتی جاتی ہے جیسے ہم ساگر سے دور نہیں ہوئے ہوں بلکہ سوہنی مہیوال سے بچھڑ گئی ہو۔

دل کی گلیوں سے تیری یاد نکلتی ہی نہیں

سوہنی پھر اسی پنجاب میں آجاتی ہے

بالکل اسی شعر کے مصداق ہمارے قدم سوئے ساگر بڑھ جاتے ہیں اور جیسے جیسے ہم ساگر کے قریب ہوتے جاتے ہیں گاڑی پر پیچ گھاٹ پر چڑھنے لگتی ہے تو دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگتا ہے۔ پرفضا مقام ’بدھاونم‘ اور اس سے منسلک ہوٹل سدھارتا اور گیسٹ ہاوس پار کرنے کے بعد دور ہی سے کالونی کے ایک جیسے چھوٹے چھوٹے گھروں کی قطار در قطاریں نظر آنے لگتی ہیں تو دل مطمئن ہوتا ہے کہ ہم اپنوں میں آگئے ہیں۔ یہاں ایک گھر کے آنگن میں کھڑے ہو کر دور دور تک کئی گھروں اور ان کے مکینوں کا نہ صرف یہ کہ حال چال پوچھا جاسکتا ہے بلکہ گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رکھا جاسکتا ہے اور اگر فاصلے کی وجہ سے آواز کی ترسیل ممکن نہ ہو تو تب بھی اشاروں سے کم از کم خیریت معلوم کر ہی لی جاسکتی ہے۔ شہروں جیسی یہاں بے اعتنائی و خود غرضی نہیں کہ منسلک دیواروں کے پڑوسی کی خیر و عافیت سے بھی سروکار یا تعلق نہ ہو جب ہم یہاں آئے تھے تو بول چال کی زبان ناقابل فہم تھی۔ ناآشنا چہرے اجنبیت کا پرتو لئے نظروں کے سامنے تھے لیکن ایک مطمئن و مکمل زندگی گذارنے کے لیے بہت سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں کئی ایک رشتوں کو استوار کرنا پڑتا ہے۔دوستانہ روابط قائم کرنے پڑتے ہیں اپنی تہذیب اپنے مذہبی رسم و رواج اور طرز فکر و وضع قطع کو چھوڑنے سے احتراز کرتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو فوقیت دی گئی پھر کیا تھا چوطرف سے اپنائیت و محبتیں ملنے لگیں اپنی روش بدلے بنا سماج میں ایک منفرد مقام بنالیا ہر مذہب والوں نے ملکر ایک مشترکہ خاندان کی تشکیل کی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ مذہب مسلک کے خانوں میں ہم بٹنے نہیں پائے اس طرح کا ماحول بنارہا کہ انسانیت سرنگوں نادم و شرمندہ ہونے کے بجائے سربلند و سرخرو ہو کر رواداری کی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئی اس سرزمین پر یہاں کے لوگوں کے ساتھ گذارا گیا وقت یہاں کے گلی کوچوں سے ہماری خوبصورت و خوشگوار ساعتیں و یادیں وابستہ ہیں یہ ہماری زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں ہمارے پاس ساگر کو چھوڑنے کا اب بھی کوئی تصور نہیں ہے اب عمر کے اس دور میں نہ یاس ہے نہ آس ہے نہ کوئی آرزو ارمان باقی ہے ایک مطمئن زندگی ان چٹانوں کے درمیان بھی گذر ہی گئی ہے ہمیشہ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں رہیں اور ان ہی سے ہم سرشار رہے حالانکہ یہاں کا موسم گرم ترین ہے موسم گرما میں جو فروری کے مہینے سے شروع ہو کرجون جولائی تک بھی قائم رہتا ہے۔ راتیں آگ برساتی ہیں اور دن آتش فشاں جیسے دہکتے ہیں اسکے باوجود ہم یہیں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تو ہمیں اسّی سالہ شفیق محترم خوبصورت و خوب سیرت گوری نانی کی یاد بہت آتی ہے جو نہ ہماری نانی ہی تھیں نہ ان سے ہمارا کوئی رشتہ ہی تھا پڑوسی کے رشتے کی نانی تھیں۔ اتنی مخلص کہ جب بھی یہاں آتیں ہم سے ملے بغیر نہ جاتیں۔ ان کا ہم سب سے وہی شفقت محبت پیار اخلاص و اپناپن تھا اکثر ایسے مواقع بھی آئے کہ وہ یہاں شادی و تقاریب میں شرکت کرنے آئیں تو کبھی موت مٹی کی خبر سن کر حیدرآباد سے دوڑی چلی آئیں۔ ہر بار بس سے اتر کر گھر تک پیدل چل کر آنے میں پتھریلی زمین نے ان کے مسکے جیسے سفید و نرم پیروں کو زخمی کردیا تو انہوں نے ساگر میں رہنے والے ہر فرد کو آڑے ہاتھوں لیا کہ ”یہ بھی کوئی مقام ہے رہنے کا نہ ڈھنگ کی سڑکیں نہ سواری۔ یہاں تو شادیوں و تقاریب میں پھولوں کے گجرے سہرے، بدیاں تک نہیں ملتیں کہ پھول پھلاروں کی دکانیں بھی نہیں جو کسی کی موت واقع ہوجائے تو قبر پر ڈالنے پھول تک نصیب نہیں ہوتے۔ اجی پھولوں کی بات تو چھوڑو صبح سے شام قبر کھودنے میں ہوجاتی ہے۔ جب پوچھو جواب ملتا ہے کہ قبر تیار نہیں ہوئی جو جگہ مختص کی گئی ہے وہاں چٹان نکل آئی ہے یہاں سوائے پتھروں کے آخر ہے ہی کیا کہ تم لوگ یہاں سے نہ تبادلے کے حق میں ہو نہ یہاں سے نکلنے کا نام ہی لیتے ہو۔ لعنت ہے اس گاؤں پر“۔ ہم لوگ گوری نانی کی باتیں سن کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے کہ یہاں ماہانہ اخراجات بہت کم ہیں، گھروں کا کرایہ بجلی کا خرچ برائے نام ہے۔ غریب لوگوں کو ایک دو کمروں پر مشتمل چھوٹے پختہ گھر صرف دو تین سو روپے میں حکومت نے فروخت کردیئے ہیں۔ اتنے سستے مقام سے آپ کیوں ہمیں نکالنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اللہ کا شکر کہ اب تو خیر سے آٹو رکشا چل رہے ہیں ورنہ ہم برسوں سے پیدل ہی چل کر اپنی ڈیوٹی اور روزمرہ کے کام نبٹارہے ہیں۔ اب بھی ہم کو میلوں پیدل چلنے کی عادت ہے خواہ ڈیوٹی کو جانا ہو۔ خرید و فروخت کو بازار جانا ہو یا اسکول کالج یا دفاتر کو جانا ہو ہم اپنے پیروں کا استعمال ہی زیادہ کرتے ہیں اس سے کئی ایک فائدے ہیں ایک تو یہ کہ ورزش ہوجاتی ہے جس سے صحت اچھی رہتی ہے۔ راستے میں جان پہچان والوں سے سلام کلام کا سلسلہ رہتا ہے تو سب کی خیر و عافیت سے آگاہی ہوجاتی ہے کیونکہ دیہاتیوں کی عادت ہوتی ہے کہ دن تمام کی خبریں ایک دوسرے کو پہونچانا اپنا فریضہ اول سمجھتے ہیں خصوصاً عورتیں چلتا پھرتا ضمیمہ ہوتی ہیں۔ اکثر غیر مسلم عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری کرتی ہیں کیونکہ ذرائع معاش محدود بلکہ نہ کہ برابر ہیں اب ان کی تقلید میں چند مسلم عورتیں بھی یومیہ مزدوری کے لیے قریب کے کھیتوں میں مرچ و کپاس چننے جارہی ہیں۔ اب تو کم عمر لڑکیاں بھی اسکول سے غیر حاضر ہو کر ہفتوں اس کام میں مشغول ہوجاتی ہیں کیونکہ مرد شرابی و نکمے ہوگئے ہیں اور مزدوری معقول ملتی ہے۔ پیسوں کی خاطر یہ احساس تک نہیں کہ یومیہ پچاس ساٹھ روپیوں کے لیے وہ بچوں کا مستقبل خراب کررہے ہیں حالانکہ بچہ مزدوری قابل سزا ہے لیکن دیکھ کر ان دیکھی کرنا آجکل کا چلن ہے۔ یہاں دن تمام کے تھکے ماندے لوگ سرشام اپنے اپنے گھروں میں بند ہوجاتے ہیں اور دس بجے تک سوجانا سب کا معمول ہے۔ مغرب کے بعد سے کالی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر پھیلتا اندھیرا کیکر کی جھاڑیوں میں چھپے جنگلی جانوروں پرندوں و سانپوں کو باہر آنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس لیے لوگ مکانوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بجلی کے کھمبوں کے اطراف موٹے موٹے کیڑے منڈلا کر زمین پر گرتے رہتے ہیں تو انہیں کھانے الّو، گھوڑ پھوڑ، منگوس آجاتے ہیں تو دوسری طرف اپنے شکار کی تلاش میں سانپ رینگتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھار اژدھے بھی نظر آتے ہیں لیکن آبادیوں میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں رات ہی میں نہیں بلکہ دن میں بھی قسم قسم کے سانپ دیکھنے  میں آتے ہیں جو مینڈکوں چوہوں یا پھر جھاڑوں پر بنے گھونسلوں میں سے انڈوں کو کھانے کی رغبت میں چلے آتے ہیں۔ پہلے ہی لوگ سانپوں سے پریشان تھے لیکن آجکل بندروں سے نالاں ہیں۔ اسکے باوجود چونکہ یہ ہنومان مہاراج کا اوتار ہیں اس لیے انہیں مار نہیں سکتے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ دواخانوں میں سانپ بچھو اور کتے کاٹنے کے کیسس آجکل کم آرہے ہیں اور مندروں کے زخمی کردہ زیادہ آرہے ہیں اس مقام پر پتھر بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہر گھر کے اطراف پتھروں سے بنی کچی دیواروں کی حدبندیاں ہیں اس لیے سب ہی لوگ پھل پھول ترکاریوں کے پیڑ پودے لگانے کا شوق رکھتے ہیں لیکن پچھلے چند سال سے بندروں کے غول ان پر ٹوٹ پڑرہے ہیں۔ ان کی پسند کا پھل پھول تو چٹ کرجاتے ہیں اگر لیمو موسمی نارنگی اور سپوٹا ہو اور کھانے کے قابل نہ لگے تو غصے کے مارے سب کچھ توڑ توڑ کر زمین پر پھینک جاتے ہیں اور اہل خانہ چیختے چلاتے سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بندروں کی اس یلغار سے بچنے کے لیے پاور ہاوس کے محکمے کے اپنے دفاتر اور اپنی کالونی کے گھروں کی دفاع کی خاطر لنگور پال رکھا ہے کیونکہ بندر اس کے وجود اس کی بو سے کوسوں دور ایسے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں جیسے انہوں نے کسی عفریت کو دیکھ لیا ہو۔ پاور ہاوس  میں اس لنگور کی آو بھگت و ناز برداریاں اٹھائی جاتی ہیں اسے پیٹ بھر کھانا پھل وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ اس کی حفاظت و خاطر مدارات کے لیے ایک ملازم رہتا ہے  جو اس کے گلے میں زنجیر ڈالے ساری کالونی و دفاتر میں گھومتا رہتا ہے۔ اس سیاہی مائل سرمئی لنگور کا اپنا ایک علحدہ کمرہ ہے جہاں شام ڈھلے ملازم اپنی لونا پر بٹھا کر اسے چھوڑ آتا ہے ہماری چہل قدمی کا وقت اور اس کے گھر لوٹنے کا وقت ایک ہی ہوتا ہے اس لیے روز ہی اس کے دیدار ہوتے ہیں وہ اپنے آقا کی لونا کی پچھلی سیٹ پر کبھی دونوں ہاتھ اس کے شانوں پر رکھے تو کبھی اس کی کمر مضبوطی سے پکڑے بڑی شان بے نیازی سے بیٹھا رہتا ہے۔ اس کی لمبی سی دم زمین کو چھوتی رہتی ہے وہ بڑی شرافت کا مظاہرہ کرتا ہے نہ کسی پر جھپٹتا ہے نہ کھوں کھوں کا شور مچاتا ہے جبکہ بندروں کے غول صبح فجر سے آدھی رات تک بھی چھتوں و جھاڑوں پر کود کود کر ہنگامہ مچاتے رہتے ہیں۔ کسی گھر سے کھانے کا بگونا اڑ لے جاتے ہیں تو کسی گھر سے روٹیاں و میوے تو کسی کے کپڑوں کی دھجیاں کردیتے ہیں۔ ہمارے محلے والے خود بھی پریشان ہونے کے باوجود ان سے نجات پانے کی سعی نہیں کرتے حالانکہ چند سال پہلے بندوں کو بڑے بڑے پنجروں میں قید کرکے لاریوں کے ذریعہ سرسیلم کے جنگلوں میں چھوڑا گیا تھا لیکن اب ان کی آبادی دن دونی رات چوگنی ترقی کررہی ہے تو سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ایسی ہی بے شمار پریشانیاں درپیش ہیں لیکن پاس پڑوس کے لوگ مخلص ہیں۔ ہر ایک کے دکھ درد میں ساتھ دیتے ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین کا تناسب بہت کم بلکہ نہ کے برابر ہے البتہ اب لڑکیوں کو پڑھایا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی پسماندگی جوں کی توں ہے۔ جاہل، ان پڑھ، شرابی، جواری جو خود کو بدلنے تیار نہیں اس لیے ان کے گھر کا ماحول بھی بگڑا ہوا ہے۔ چند دن سکون سے گذرتے نہیں ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائیاں جھگڑے پولیس اسٹیشن تک پہونچ جاتے ہیں یا پھر کوئی نہ کوئی مسلم لڑکی ان پڑھ، جاہل، نکمے غیر مسلم لڑکے کے ساتھ فرار ہوجاتی ہے اور محلے میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ ادھر پولیس حرکت میں آجاتی ہے دوچار ہی دن میں دھر پکڑ کر ساگر لے آتی ہے۔ ادھر دو مذہب والے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، بیچارے مسجد کمیٹی والوں کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کام سے زیادہ یا تو میاں بیوی کے جھگڑوں کی یکسوئی کرنا پڑتا ہے یا ان بھگوڑوں کا تصفیہ کرنے اور معاملے کو سلجھانے میں اپنی بہترین صلاحیتوں و وقت کو پامال کرنا پڑرہا ہے۔ کیونکہ دونوں ہی معاملات کتے کی دم جیسے ہیں کہ جس کے سیدھے ہونے کی امید فضول ہے۔ مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ جبکہ پس ماندہ لمباڑوں اور وڈر قوم نے بڑی ترقی کی ہے اب لمباڑوں کی صرف عمر رسیدہ عورتیں اپنا روایتی لباس و زیور پہنتی ہیں۔ وہ ڈنڈ تک پہنے جانے والی ہڈیوں و پلاسٹک کی چوڑیاں کسی کے جسم پر نظر نہیں آتیں۔ عام لڑکیاں و عورتیں بڑی خوش پوشاک بن گئی ہیں۔ ہر منڈل میں بیشمار S.T.Hostels لڑکیوں و لڑکوں کے لیے قائم کردئے گئے ہیں جہاں مفت رہائش، کھانا، یونیفارم، کتابیں، شطرنجیاں، بیڈشیٹ، صندوق غرض ضرورت زندگی کی ہر آسائش میسر ہے۔ اس لیے ہزاروں بچے بچیاں تعلیم میں بہت آگے بڑھ رہی ہیں۔ اب لمباڑے کچے جھونپڑوں میں نہیں رہتے۔ ہر گھر کے سامنے ہیروہونڈا، پلسر گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں ان کے کپاس، مرچی، توّر، دھان کے کھیت ہیں۔ ان کے گھر رنگین ٹی وی، فریج، واشنگ مشین و قیمتی فرنیچر سے سج گئے ہیں۔ عورتیں بھی سرکاری دفاتر میں برسرروزگار نظر آتی ہیں۔ ہر کالج میں انکے لڑکے لڑکیاں زیر تعلیم ہیں اور ہماری عورتیں اب بھی گھروں میں بیٹھیں ”سات سیدوں کی کہانی، بی بی سگٹ کی کہانیاں سن کر گڑ اور پھولے چنے کی دال پر فاتحہ دلانے پر اکتفا کررہی ہیں یا پھر جان پاک شہید کی معتقد بن کر بچوں کے بال وہاں اتارنے، دولہا دلہن کے ”گود کے کھوپرے ناڑے سہلانے“ بکرا یا کم از کم

مرغیوں پر خاندان بھر کے لوگوں کو قرض ہی لے کر منت اتارنے کے لیے درگاہ شریف چلنے کی شوہروں سے ضد کئے بیٹھتی ہیں۔ نہ تعلیم کا شوق نہ ہنر سیکھنے آگے بڑھنے کی جستجو ہی ان میں ہے۔ دین و دنیا کے علم سے لاتعلق نہ قرآن و نماز سیکھنے کا خیال  ہے۔ اپنی تنگدستی میں بھی اسی ڈگر پر قائم ہیں۔ لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہر مقام کی طرح یہاں بھی سنگین صورتحال لیے ہوئے ہے حالانکہ اسراف یہاں نہیں، کم آمدنی ہے اور اسی میں زندگی کی ضروریات کی تکمیل کرنے  کے عادی ہیں۔ یہاں البتہ شادیوں میں یہ جس ضلع یا گاؤں کی نمائندگی کرتی ہیں وہاں کے ڈھولک کے گیت انہیں خوب یاد ہیں۔ ڈھول بھی خوب بجالیتی ہیں ڈھول کی تھاپ پر گلی نلگنڈوی کا یہ گیت گاتے ہوئے سن کر بڑا مزہ آتا ہے

اماں تیری بہو کو بھگالے کو آیوں

گلہرا پتنگ کو پلالے کو آیوں

اپوزٹ ہوا میں اڑالے کو آیوں

بہن ہے چنبیلی تو موگرے کی سالی

امّاں تری بہو ہے پھولوں کی ڈالی

میں پھولوں کا گنپا اٹھالے کو آیوں

نکاح دو دلوں کا پڑھالے کو آیوں

محبت کا دھپڑا بجالے کو آیوں

شادی کے گھر سے بلاوا یوں آتا ہے کہ رات میں دولہن کو مانجھے کے پھول پہنائے جارہے ہیں، گھر کے پیچھے دو عورتاں آنا دیکھو (ہر گھر سے صرف دو عورتیں ہی آئیں کیونکہ گھر چھوٹا اور آنگن کوتاہ ہوتا ہے) ہم سب اپنے گھروں سے رات کے کھانے سے فراغت پا کر وہاں پہونچتے ہیں چار گھڑی بیٹھ کر ہنس بول کر ڈھولک کے گیت سن کر لوٹ آتے ہیں۔ اللہ نے دیا تو آپ بھی پھول مٹھائی لے جائیں ورنہ نہیں نہ کوئی گلہ نہ شکایت۔ واپسی میں کاغذ کی پوڑیوں میں مٹھی بھر ملیدہ آپ کو دیدیا جائیگا کہ منہ میٹھا کریں ہم سب کا پیدل جانا، پیدل آنا، نہ زرق برق کپڑے نہ زیور سے آراستہ ہونے کی ضرورت۔ بس گاؤں کی بیٹی کو ہنسی خوشی وداع کرنا ہے تو اس کی خوشیوں کو ملحوظ رکھنے کا خیال ہوتا ہے نہ شادی کے گھر والے قرضدار نہ ہم زیر بار۔ ایسے ماحول میں رہنے کے بعد جب حیدرآباد کی شادیوں میں شرکت کرتی ہوں تو دوسروں سے زیادہ اپنے آپ پر غصہ آتا ہے کہ

میں خود کو تو بدل سکتا نہیں ہوں

زمانے کو بدلنا چاہتا ہوں

ہم سج دھج کر ان تعیشات و اسراف کے حصے دار بننے پر اس قدر مجبور کیوں ہیں؟ کیوں اپنی روش بدلنے پر تیار نہیں ہیں حیدرآباد سے صرف سو پچاس کیلومیٹر کی دوری پر تمام رسم و رواج و طورطریقے کیوں بدل جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کے اعتقادات میں بھی فرق ہے۔ کسی زمانے میں یہاں شیعہ مسلک کے لوگ رہا کرتے تھے اب ایک بھی شخص نہیں اس لیے علم جنگیا نامی کانگریسی لیڈر کی تحویل میں رہتے ہیں، وہی الاوہ کھیلنا اور علم اٹھانے کا کام انجام دیتا ہے نہ کوئی مجالس نہ نوحے نہ مرثیے۔ محرم کے سوگوار دنوں کو یہ لوگ ”پیرلو پنڈوگا“ (Peerlu Panduga) کہتے ہیں۔ دس محرم کو اکثر صبح فون کی گھنٹی بجتی ہے تو آواز آتی ہے ”پیرلو پنڈوگا مبارک“ سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ کس کس کو سمجھائیں کیا سمجھائیں؟۔ ہر مذہب میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ابھی بہت کچھ کہنا ہے لیکن اگلی قسط میں۔۔