Thursday, May 30, 2024

جہاں ہم ہیں وہاں ………… نفیسہ خان۔ناگرجنا ساگر۔ Nafeesa Khan

 

جہاں ہم ہیں وہاں ………… نفیسہ خان۔ناگرجنا ساگر



مجھے پوری بات یوں کہنی چاہئے تھی کہ ”جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے“۔ لیکن نہیں اب اتنے مظلوم یا گناہ گار بھی نہیں کہ ناکردہ گناہوں کی سزا کے مرتکب قرار دے کر دار تک پہونچادیئے جائیں گو کہ شہر والوں کی طرح کئی ایک نعمتوں، سہولتوں، آسائشوں سے ہم دیہات والے محروم ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھ لیتے ہیں کہ چوطرف سے سمنٹ کی عمارتوں اور آلودہ آب و ہوا سے محفوظ ہیں۔ شہروں کے چکاچوند کردینے والے رات و دن، اسکی پررونق رنگین چہل پہل مگر پرتصنع ماحول سے دور ہم نے کوہساروں میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے تو صرف اس لیے کہ سکون دل ہمیں یہیں میسر آتا ہے۔ ہماری ساگر سے والہانہ وابستگی کا یہ عالم ہے کہ چند روز کے لیے یہاں سے باہر جاتے ہیں تو ایک عجیب سی بے چینی، بے قراری کا عالم رہتا ہے جیسے زندگی میں ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے جیسے کہیں کچھ کھوگیا ہو۔ ساگر کی یاد شدت سے ستانے لگتی ہے اور ہمیں بیتاب کرتی جاتی ہے جیسے ہم ساگر سے دور نہیں ہوئے ہوں بلکہ سوہنی مہیوال سے بچھڑ گئی ہو۔

دل کی گلیوں سے تیری یاد نکلتی ہی نہیں

سوہنی پھر اسی پنجاب میں آجاتی ہے

بالکل اسی شعر کے مصداق ہمارے قدم سوئے ساگر بڑھ جاتے ہیں اور جیسے جیسے ہم ساگر کے قریب ہوتے جاتے ہیں گاڑی پر پیچ گھاٹ پر چڑھنے لگتی ہے تو دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگتا ہے۔ پرفضا مقام ’بدھاونم‘ اور اس سے منسلک ہوٹل سدھارتا اور گیسٹ ہاوس پار کرنے کے بعد دور ہی سے کالونی کے ایک جیسے چھوٹے چھوٹے گھروں کی قطار در قطاریں نظر آنے لگتی ہیں تو دل مطمئن ہوتا ہے کہ ہم اپنوں میں آگئے ہیں۔ یہاں ایک گھر کے آنگن میں کھڑے ہو کر دور دور تک کئی گھروں اور ان کے مکینوں کا نہ صرف یہ کہ حال چال پوچھا جاسکتا ہے بلکہ گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رکھا جاسکتا ہے اور اگر فاصلے کی وجہ سے آواز کی ترسیل ممکن نہ ہو تو تب بھی اشاروں سے کم از کم خیریت معلوم کر ہی لی جاسکتی ہے۔ شہروں جیسی یہاں بے اعتنائی و خود غرضی نہیں کہ منسلک دیواروں کے پڑوسی کی خیر و عافیت سے بھی سروکار یا تعلق نہ ہو جب ہم یہاں آئے تھے تو بول چال کی زبان ناقابل فہم تھی۔ ناآشنا چہرے اجنبیت کا پرتو لئے نظروں کے سامنے تھے لیکن ایک مطمئن و مکمل زندگی گذارنے کے لیے بہت سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں کئی ایک رشتوں کو استوار کرنا پڑتا ہے۔دوستانہ روابط قائم کرنے پڑتے ہیں اپنی تہذیب اپنے مذہبی رسم و رواج اور طرز فکر و وضع قطع کو چھوڑنے سے احتراز کرتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو فوقیت دی گئی پھر کیا تھا چوطرف سے اپنائیت و محبتیں ملنے لگیں اپنی روش بدلے بنا سماج میں ایک منفرد مقام بنالیا ہر مذہب والوں نے ملکر ایک مشترکہ خاندان کی تشکیل کی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ مذہب مسلک کے خانوں میں ہم بٹنے نہیں پائے اس طرح کا ماحول بنارہا کہ انسانیت سرنگوں نادم و شرمندہ ہونے کے بجائے سربلند و سرخرو ہو کر رواداری کی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئی اس سرزمین پر یہاں کے لوگوں کے ساتھ گذارا گیا وقت یہاں کے گلی کوچوں سے ہماری خوبصورت و خوشگوار ساعتیں و یادیں وابستہ ہیں یہ ہماری زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں ہمارے پاس ساگر کو چھوڑنے کا اب بھی کوئی تصور نہیں ہے اب عمر کے اس دور میں نہ یاس ہے نہ آس ہے نہ کوئی آرزو ارمان باقی ہے ایک مطمئن زندگی ان چٹانوں کے درمیان بھی گذر ہی گئی ہے ہمیشہ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں رہیں اور ان ہی سے ہم سرشار رہے حالانکہ یہاں کا موسم گرم ترین ہے موسم گرما میں جو فروری کے مہینے سے شروع ہو کرجون جولائی تک بھی قائم رہتا ہے۔ راتیں آگ برساتی ہیں اور دن آتش فشاں جیسے دہکتے ہیں اسکے باوجود ہم یہیں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تو ہمیں اسّی سالہ شفیق محترم خوبصورت و خوب سیرت گوری نانی کی یاد بہت آتی ہے جو نہ ہماری نانی ہی تھیں نہ ان سے ہمارا کوئی رشتہ ہی تھا پڑوسی کے رشتے کی نانی تھیں۔ اتنی مخلص کہ جب بھی یہاں آتیں ہم سے ملے بغیر نہ جاتیں۔ ان کا ہم سب سے وہی شفقت محبت پیار اخلاص و اپناپن تھا اکثر ایسے مواقع بھی آئے کہ وہ یہاں شادی و تقاریب میں شرکت کرنے آئیں تو کبھی موت مٹی کی خبر سن کر حیدرآباد سے دوڑی چلی آئیں۔ ہر بار بس سے اتر کر گھر تک پیدل چل کر آنے میں پتھریلی زمین نے ان کے مسکے جیسے سفید و نرم پیروں کو زخمی کردیا تو انہوں نے ساگر میں رہنے والے ہر فرد کو آڑے ہاتھوں لیا کہ ”یہ بھی کوئی مقام ہے رہنے کا نہ ڈھنگ کی سڑکیں نہ سواری۔ یہاں تو شادیوں و تقاریب میں پھولوں کے گجرے سہرے، بدیاں تک نہیں ملتیں کہ پھول پھلاروں کی دکانیں بھی نہیں جو کسی کی موت واقع ہوجائے تو قبر پر ڈالنے پھول تک نصیب نہیں ہوتے۔ اجی پھولوں کی بات تو چھوڑو صبح سے شام قبر کھودنے میں ہوجاتی ہے۔ جب پوچھو جواب ملتا ہے کہ قبر تیار نہیں ہوئی جو جگہ مختص کی گئی ہے وہاں چٹان نکل آئی ہے یہاں سوائے پتھروں کے آخر ہے ہی کیا کہ تم لوگ یہاں سے نہ تبادلے کے حق میں ہو نہ یہاں سے نکلنے کا نام ہی لیتے ہو۔ لعنت ہے اس گاؤں پر“۔ ہم لوگ گوری نانی کی باتیں سن کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے کہ یہاں ماہانہ اخراجات بہت کم ہیں، گھروں کا کرایہ بجلی کا خرچ برائے نام ہے۔ غریب لوگوں کو ایک دو کمروں پر مشتمل چھوٹے پختہ گھر صرف دو تین سو روپے میں حکومت نے فروخت کردیئے ہیں۔ اتنے سستے مقام سے آپ کیوں ہمیں نکالنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اللہ کا شکر کہ اب تو خیر سے آٹو رکشا چل رہے ہیں ورنہ ہم برسوں سے پیدل ہی چل کر اپنی ڈیوٹی اور روزمرہ کے کام نبٹارہے ہیں۔ اب بھی ہم کو میلوں پیدل چلنے کی عادت ہے خواہ ڈیوٹی کو جانا ہو۔ خرید و فروخت کو بازار جانا ہو یا اسکول کالج یا دفاتر کو جانا ہو ہم اپنے پیروں کا استعمال ہی زیادہ کرتے ہیں اس سے کئی ایک فائدے ہیں ایک تو یہ کہ ورزش ہوجاتی ہے جس سے صحت اچھی رہتی ہے۔ راستے میں جان پہچان والوں سے سلام کلام کا سلسلہ رہتا ہے تو سب کی خیر و عافیت سے آگاہی ہوجاتی ہے کیونکہ دیہاتیوں کی عادت ہوتی ہے کہ دن تمام کی خبریں ایک دوسرے کو پہونچانا اپنا فریضہ اول سمجھتے ہیں خصوصاً عورتیں چلتا پھرتا ضمیمہ ہوتی ہیں۔ اکثر غیر مسلم عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری کرتی ہیں کیونکہ ذرائع معاش محدود بلکہ نہ کہ برابر ہیں اب ان کی تقلید میں چند مسلم عورتیں بھی یومیہ مزدوری کے لیے قریب کے کھیتوں میں مرچ و کپاس چننے جارہی ہیں۔ اب تو کم عمر لڑکیاں بھی اسکول سے غیر حاضر ہو کر ہفتوں اس کام میں مشغول ہوجاتی ہیں کیونکہ مرد شرابی و نکمے ہوگئے ہیں اور مزدوری معقول ملتی ہے۔ پیسوں کی خاطر یہ احساس تک نہیں کہ یومیہ پچاس ساٹھ روپیوں کے لیے وہ بچوں کا مستقبل خراب کررہے ہیں حالانکہ بچہ مزدوری قابل سزا ہے لیکن دیکھ کر ان دیکھی کرنا آجکل کا چلن ہے۔ یہاں دن تمام کے تھکے ماندے لوگ سرشام اپنے اپنے گھروں میں بند ہوجاتے ہیں اور دس بجے تک سوجانا سب کا معمول ہے۔ مغرب کے بعد سے کالی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر پھیلتا اندھیرا کیکر کی جھاڑیوں میں چھپے جنگلی جانوروں پرندوں و سانپوں کو باہر آنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس لیے لوگ مکانوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بجلی کے کھمبوں کے اطراف موٹے موٹے کیڑے منڈلا کر زمین پر گرتے رہتے ہیں تو انہیں کھانے الّو، گھوڑ پھوڑ، منگوس آجاتے ہیں تو دوسری طرف اپنے شکار کی تلاش میں سانپ رینگتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھار اژدھے بھی نظر آتے ہیں لیکن آبادیوں میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں رات ہی میں نہیں بلکہ دن میں بھی قسم قسم کے سانپ دیکھنے  میں آتے ہیں جو مینڈکوں چوہوں یا پھر جھاڑوں پر بنے گھونسلوں میں سے انڈوں کو کھانے کی رغبت میں چلے آتے ہیں۔ پہلے ہی لوگ سانپوں سے پریشان تھے لیکن آجکل بندروں سے نالاں ہیں۔ اسکے باوجود چونکہ یہ ہنومان مہاراج کا اوتار ہیں اس لیے انہیں مار نہیں سکتے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ دواخانوں میں سانپ بچھو اور کتے کاٹنے کے کیسس آجکل کم آرہے ہیں اور مندروں کے زخمی کردہ زیادہ آرہے ہیں اس مقام پر پتھر بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہر گھر کے اطراف پتھروں سے بنی کچی دیواروں کی حدبندیاں ہیں اس لیے سب ہی لوگ پھل پھول ترکاریوں کے پیڑ پودے لگانے کا شوق رکھتے ہیں لیکن پچھلے چند سال سے بندروں کے غول ان پر ٹوٹ پڑرہے ہیں۔ ان کی پسند کا پھل پھول تو چٹ کرجاتے ہیں اگر لیمو موسمی نارنگی اور سپوٹا ہو اور کھانے کے قابل نہ لگے تو غصے کے مارے سب کچھ توڑ توڑ کر زمین پر پھینک جاتے ہیں اور اہل خانہ چیختے چلاتے سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بندروں کی اس یلغار سے بچنے کے لیے پاور ہاوس کے محکمے کے اپنے دفاتر اور اپنی کالونی کے گھروں کی دفاع کی خاطر لنگور پال رکھا ہے کیونکہ بندر اس کے وجود اس کی بو سے کوسوں دور ایسے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں جیسے انہوں نے کسی عفریت کو دیکھ لیا ہو۔ پاور ہاوس  میں اس لنگور کی آو بھگت و ناز برداریاں اٹھائی جاتی ہیں اسے پیٹ بھر کھانا پھل وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ اس کی حفاظت و خاطر مدارات کے لیے ایک ملازم رہتا ہے  جو اس کے گلے میں زنجیر ڈالے ساری کالونی و دفاتر میں گھومتا رہتا ہے۔ اس سیاہی مائل سرمئی لنگور کا اپنا ایک علحدہ کمرہ ہے جہاں شام ڈھلے ملازم اپنی لونا پر بٹھا کر اسے چھوڑ آتا ہے ہماری چہل قدمی کا وقت اور اس کے گھر لوٹنے کا وقت ایک ہی ہوتا ہے اس لیے روز ہی اس کے دیدار ہوتے ہیں وہ اپنے آقا کی لونا کی پچھلی سیٹ پر کبھی دونوں ہاتھ اس کے شانوں پر رکھے تو کبھی اس کی کمر مضبوطی سے پکڑے بڑی شان بے نیازی سے بیٹھا رہتا ہے۔ اس کی لمبی سی دم زمین کو چھوتی رہتی ہے وہ بڑی شرافت کا مظاہرہ کرتا ہے نہ کسی پر جھپٹتا ہے نہ کھوں کھوں کا شور مچاتا ہے جبکہ بندروں کے غول صبح فجر سے آدھی رات تک بھی چھتوں و جھاڑوں پر کود کود کر ہنگامہ مچاتے رہتے ہیں۔ کسی گھر سے کھانے کا بگونا اڑ لے جاتے ہیں تو کسی گھر سے روٹیاں و میوے تو کسی کے کپڑوں کی دھجیاں کردیتے ہیں۔ ہمارے محلے والے خود بھی پریشان ہونے کے باوجود ان سے نجات پانے کی سعی نہیں کرتے حالانکہ چند سال پہلے بندوں کو بڑے بڑے پنجروں میں قید کرکے لاریوں کے ذریعہ سرسیلم کے جنگلوں میں چھوڑا گیا تھا لیکن اب ان کی آبادی دن دونی رات چوگنی ترقی کررہی ہے تو سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ایسی ہی بے شمار پریشانیاں درپیش ہیں لیکن پاس پڑوس کے لوگ مخلص ہیں۔ ہر ایک کے دکھ درد میں ساتھ دیتے ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین کا تناسب بہت کم بلکہ نہ کے برابر ہے البتہ اب لڑکیوں کو پڑھایا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی پسماندگی جوں کی توں ہے۔ جاہل، ان پڑھ، شرابی، جواری جو خود کو بدلنے تیار نہیں اس لیے ان کے گھر کا ماحول بھی بگڑا ہوا ہے۔ چند دن سکون سے گذرتے نہیں ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائیاں جھگڑے پولیس اسٹیشن تک پہونچ جاتے ہیں یا پھر کوئی نہ کوئی مسلم لڑکی ان پڑھ، جاہل، نکمے غیر مسلم لڑکے کے ساتھ فرار ہوجاتی ہے اور محلے میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ ادھر پولیس حرکت میں آجاتی ہے دوچار ہی دن میں دھر پکڑ کر ساگر لے آتی ہے۔ ادھر دو مذہب والے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، بیچارے مسجد کمیٹی والوں کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کام سے زیادہ یا تو میاں بیوی کے جھگڑوں کی یکسوئی کرنا پڑتا ہے یا ان بھگوڑوں کا تصفیہ کرنے اور معاملے کو سلجھانے میں اپنی بہترین صلاحیتوں و وقت کو پامال کرنا پڑرہا ہے۔ کیونکہ دونوں ہی معاملات کتے کی دم جیسے ہیں کہ جس کے سیدھے ہونے کی امید فضول ہے۔ مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ جبکہ پس ماندہ لمباڑوں اور وڈر قوم نے بڑی ترقی کی ہے اب لمباڑوں کی صرف عمر رسیدہ عورتیں اپنا روایتی لباس و زیور پہنتی ہیں۔ وہ ڈنڈ تک پہنے جانے والی ہڈیوں و پلاسٹک کی چوڑیاں کسی کے جسم پر نظر نہیں آتیں۔ عام لڑکیاں و عورتیں بڑی خوش پوشاک بن گئی ہیں۔ ہر منڈل میں بیشمار S.T.Hostels لڑکیوں و لڑکوں کے لیے قائم کردئے گئے ہیں جہاں مفت رہائش، کھانا، یونیفارم، کتابیں، شطرنجیاں، بیڈشیٹ، صندوق غرض ضرورت زندگی کی ہر آسائش میسر ہے۔ اس لیے ہزاروں بچے بچیاں تعلیم میں بہت آگے بڑھ رہی ہیں۔ اب لمباڑے کچے جھونپڑوں میں نہیں رہتے۔ ہر گھر کے سامنے ہیروہونڈا، پلسر گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں ان کے کپاس، مرچی، توّر، دھان کے کھیت ہیں۔ ان کے گھر رنگین ٹی وی، فریج، واشنگ مشین و قیمتی فرنیچر سے سج گئے ہیں۔ عورتیں بھی سرکاری دفاتر میں برسرروزگار نظر آتی ہیں۔ ہر کالج میں انکے لڑکے لڑکیاں زیر تعلیم ہیں اور ہماری عورتیں اب بھی گھروں میں بیٹھیں ”سات سیدوں کی کہانی، بی بی سگٹ کی کہانیاں سن کر گڑ اور پھولے چنے کی دال پر فاتحہ دلانے پر اکتفا کررہی ہیں یا پھر جان پاک شہید کی معتقد بن کر بچوں کے بال وہاں اتارنے، دولہا دلہن کے ”گود کے کھوپرے ناڑے سہلانے“ بکرا یا کم از کم

مرغیوں پر خاندان بھر کے لوگوں کو قرض ہی لے کر منت اتارنے کے لیے درگاہ شریف چلنے کی شوہروں سے ضد کئے بیٹھتی ہیں۔ نہ تعلیم کا شوق نہ ہنر سیکھنے آگے بڑھنے کی جستجو ہی ان میں ہے۔ دین و دنیا کے علم سے لاتعلق نہ قرآن و نماز سیکھنے کا خیال  ہے۔ اپنی تنگدستی میں بھی اسی ڈگر پر قائم ہیں۔ لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہر مقام کی طرح یہاں بھی سنگین صورتحال لیے ہوئے ہے حالانکہ اسراف یہاں نہیں، کم آمدنی ہے اور اسی میں زندگی کی ضروریات کی تکمیل کرنے  کے عادی ہیں۔ یہاں البتہ شادیوں میں یہ جس ضلع یا گاؤں کی نمائندگی کرتی ہیں وہاں کے ڈھولک کے گیت انہیں خوب یاد ہیں۔ ڈھول بھی خوب بجالیتی ہیں ڈھول کی تھاپ پر گلی نلگنڈوی کا یہ گیت گاتے ہوئے سن کر بڑا مزہ آتا ہے

اماں تیری بہو کو بھگالے کو آیوں

گلہرا پتنگ کو پلالے کو آیوں

اپوزٹ ہوا میں اڑالے کو آیوں

بہن ہے چنبیلی تو موگرے کی سالی

امّاں تری بہو ہے پھولوں کی ڈالی

میں پھولوں کا گنپا اٹھالے کو آیوں

نکاح دو دلوں کا پڑھالے کو آیوں

محبت کا دھپڑا بجالے کو آیوں

شادی کے گھر سے بلاوا یوں آتا ہے کہ رات میں دولہن کو مانجھے کے پھول پہنائے جارہے ہیں، گھر کے پیچھے دو عورتاں آنا دیکھو (ہر گھر سے صرف دو عورتیں ہی آئیں کیونکہ گھر چھوٹا اور آنگن کوتاہ ہوتا ہے) ہم سب اپنے گھروں سے رات کے کھانے سے فراغت پا کر وہاں پہونچتے ہیں چار گھڑی بیٹھ کر ہنس بول کر ڈھولک کے گیت سن کر لوٹ آتے ہیں۔ اللہ نے دیا تو آپ بھی پھول مٹھائی لے جائیں ورنہ نہیں نہ کوئی گلہ نہ شکایت۔ واپسی میں کاغذ کی پوڑیوں میں مٹھی بھر ملیدہ آپ کو دیدیا جائیگا کہ منہ میٹھا کریں ہم سب کا پیدل جانا، پیدل آنا، نہ زرق برق کپڑے نہ زیور سے آراستہ ہونے کی ضرورت۔ بس گاؤں کی بیٹی کو ہنسی خوشی وداع کرنا ہے تو اس کی خوشیوں کو ملحوظ رکھنے کا خیال ہوتا ہے نہ شادی کے گھر والے قرضدار نہ ہم زیر بار۔ ایسے ماحول میں رہنے کے بعد جب حیدرآباد کی شادیوں میں شرکت کرتی ہوں تو دوسروں سے زیادہ اپنے آپ پر غصہ آتا ہے کہ

میں خود کو تو بدل سکتا نہیں ہوں

زمانے کو بدلنا چاہتا ہوں

ہم سج دھج کر ان تعیشات و اسراف کے حصے دار بننے پر اس قدر مجبور کیوں ہیں؟ کیوں اپنی روش بدلنے پر تیار نہیں ہیں حیدرآباد سے صرف سو پچاس کیلومیٹر کی دوری پر تمام رسم و رواج و طورطریقے کیوں بدل جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کے اعتقادات میں بھی فرق ہے۔ کسی زمانے میں یہاں شیعہ مسلک کے لوگ رہا کرتے تھے اب ایک بھی شخص نہیں اس لیے علم جنگیا نامی کانگریسی لیڈر کی تحویل میں رہتے ہیں، وہی الاوہ کھیلنا اور علم اٹھانے کا کام انجام دیتا ہے نہ کوئی مجالس نہ نوحے نہ مرثیے۔ محرم کے سوگوار دنوں کو یہ لوگ ”پیرلو پنڈوگا“ (Peerlu Panduga) کہتے ہیں۔ دس محرم کو اکثر صبح فون کی گھنٹی بجتی ہے تو آواز آتی ہے ”پیرلو پنڈوگا مبارک“ سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ کس کس کو سمجھائیں کیا سمجھائیں؟۔ ہر مذہب میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ابھی بہت کچھ کہنا ہے لیکن اگلی قسط میں۔۔