Sunday, October 27, 2019

یہی ہے موت کہ جینا حرام ہوجائے۔ نفیسہ خان۔ Nafeesa Khan

یہی ہے موت کہ جینا حرام ہوجائے
نفیسہ خان

کام کے مصروف ترین اوقات میں کسی قسم کا شور شرابا یا کسی قسم کی خلل اندازی بڑی گراں گذرتی ہے ۔ اس لئے جب کام والی ہانپتی کانپتی سینہ کوبی کرتی ہوئی کچھ کہنے کو بے قرار آنکھوں میں ایک بڑا سا سوالیہ نشان تھا کیونکہ میں نے سمجھا تھا کہ ہمیشہ کی طرح شرابی شوہر کی مار کھاکر لڑ جھگڑ کر فریاد لیکر اور اپنے بدن پر پڑجانے والے مار کے نیلے نشانات بتانے میرے پاس دوڑی چلی آرہی ہے لیکن اس بار وہ حواس باختہ لگ رہی تھی ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ اپنے شوہر کو ننگی گالیوں سے نوازنے کا لامتناہی سلسلہ بھی نہ تھا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی پڑوسن سجاتا اور اس کا شوہر رمیش نے گئی رات پھانسی لیکر خودکشی کرلی ہے ۔ میرے ہاتھ سے قلم چھوٹ گیا ۔ آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ میرے سجاتا کے گھر پہونچنے تک سارا گاؤں امنڈپڑا تھا ۔ بڑا ہی کربناک منظر تھا کہ دونوں کی لاشیں چھت کی ناٹ سے لٹک رہی تھیں اور دونوں کے ماں باپ سکتے کے عالم میں بیٹھے تھے ۔ پولیس کی تفتیش شروع ہونے والی تھی چند دن پیشتر ہی سجاتا میرے پاس کام کی تلاش میں آئی تھی ۔ انٹر فیل تھی سوائے آنگن واڑی مراکز یا کنٹراکٹ طریقہ تقرر پر کام ملنے کے دوسری کسی نوکری کی امید فضول تھی ۔ سجاتا دبلی پتلی دھان پان دراز قد سانولی سی بائیس تئیس سالہ لاڈ و پیار میں پلی قبول صورت لڑکی تھی ۔ باپ سرکاری دفتر میں چوکیدار تھا دو بھائی دوسرے شہر میں برسر روزگار تھے ۔ کوئی پریشانی و تنگ دستی نہ تھی ۔ باپ نے اپنے ساتھ ہی کام کرنے والے چپراسی کے بیٹے رمیش کے ساتھ اس کی شادی کردی تھی ۔ جو ایک خانگی کنسٹرکشن کمپنی میں Rod Bending کا کام کیا کرتا تھا ۔ اپنے کام میں ماہر تھا ۔ اس لئے گتہ دار کو جہاں کام ملتا وہاں اس لڑکے کو اپنے ساتھ لے جایا کرتا تھا ۔ اب چونکہ ناگرجنا ساگر ڈیم ایک اجڑا ہوا گلشن ہوگیا ہے ۔ یہاں نہ تعمیر کا کام ہو رہا ہے نہ تزئین کا ۔ نہ باغ باغیچے باقی ہیں نہ کہیں ہریالی و سبزہ دکھائی دیتا ہے ۔ نوجوان نسل کام کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے ۔
اس لئے سجاتا کا شوہر بھی پچھلے چار سال سے ہماچل پردیش میں کام کر رہا تھا ۔ عموماً کسی مذہبی تہوار یا خاندانی تقاریب میں شرکت کیلئے یا پھر بیوی بچی سے ملنے سال چھ ماہ میں ایک دو بار گھر آجایا کرتا تھا ۔ سجاتا اور بیٹی پورنیما کو بے انتہاء چاہتا تھا ۔ درجہ چہارم ملازمین کیلئے مختص کئے گئے چھوٹے گھروں میں سے ایک میں ان کا قیام تھام ان کے گھر کے آس پاس ہی میکہ و سسرال بھی تھے ۔ زندگی سکون و آرام سے گذر رہی تھی ۔ ایک دو بار سجاتا ہماچل پردیش ہو آئی تھی ۔ اکثر وہ وہاں کے سرد موسم کی تفصیل مجھے سنایا کرتی تھی ۔ پچھلے سال البتہ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ رمیش کی صحت کچھ ٹھیک نہیں چل رہی ہے ۔ وہ اب سخت مندی و محنت کو برداشت نہیں کر پارہا ہے ۔ اس لئے وہاں سے ساگر واپس لوٹ آنا چاہ رہا ہے ۔ بس وہ دونوں ملکر کچھ کام تلاش کرنے کی فکر میں ہیں پھر ایک بار معلوم ہوا کہ رمیش نوکری چھوڑکر آگیا ہے ۔ بہت کمزور لگ رہا تھا ہمیشہ کی طرح وہ تجھ سے ملنے بھی نہیں آیا ۔ اگر کہیں اتفاقاً آمنا سامنا ہوگیا تو بھی وہ پہلے جیسے قصے نہیں سنارہا تھا ۔ اس کی زندہ دل آواز کی چہک کہیں گم ہوگئی تھی ۔مجھ سے بات کرتے ہوئے اس کی نظریں میری طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھیں ۔ بار بار اس کی نظروں کا جھک جانا مجھے خدشات میں مبتلا کر رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی پچھتاوا اس کے دل کو مسوس رہا ہے گھر سے باہر بھی کم ہی نکلتا تھا ۔ ماں باپ اچھی غذا ، دوائیں ، ٹانک دلاتے رہے لیکن نہ اس کا بخار کم ہورہا تھا نہ کھانسی میں افاقہ ہو رہا تھا ۔ کبھی جلدی بیماریوں کا شکار ہوکر جسم پر لال چتے آجاتے تو کبھی سوجن آجاتی۔ کبھی اجابتیں بے حال کردیتیں ۔ اس کا وزن مسلسل گرتا جارہا تھا ۔ اتنا محنتی و جیوٹ لڑکا سست کاہل کمزور و لاغر ہوتا جارہا تھا ۔ مقامی ڈاکٹروں نے پہلے نمونیا بتایا ۔ اس کا علاج ہوتا رہا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا پھر ٹی بی یعنی تب دق قسم کی علامات دیکھ کر اس کا اندیشہ ظاہر ہوا دیہاتوں کے دواخانے مفروضات پر علاج کرتے ہیں ۔ اسی طرح وقت گذرتا گیا ایک بار کافی دنوں بعد میرا رمیش سے سامنا ہوا تو اس کی نقاہت، کمزوری ،اڑا اڑا سا بے رنگ مرجھایا چہرہ زرد آنکھیں پسینہ پسینہ ہوتا ہوا رمیش میرے سامنے تھا ۔ اس کے ہونٹوں کے اطراف واضح طور پر دکھائی دینے والے سفید دھبے دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا ،کیونکہ ہم کافی دنوں تک ایڈس کے بیداری پروگرام میں ٹریننگ کلاسیس میں حصہ لے چکے ہیں ۔ ہمارے ساگر والوں کی شومئی قسمت کہ یہاں کوئی قابل ڈاکٹر یا دواخانہ نہیں ہے۔ اس لئے ہم نے سجاتا کو مشورہ دیا کہ وہ شہر جاکر مکمل طبی جانچ کرائے ۔ اس سے زیادہ کہنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہ تھے کہ اُسے کیسے بتاؤ ںساتھ چھٹ جانا یقینی ہے
اُسے کیسے بتاؤ ںساتھ چھٹ جانا یقینی ہے
مسافر سے سفر کا حوصلہ چھینا نہیں جاتا
ہر قسم کے معائنوں کیلئے وہ دونوں شہر جاکر مکمل جانچ کروا آئے تھے سُناکہ تب ہی سے وہ گھر میں گویا نظر بند سے ہوگئے تھے ۔ ماں باپ کے دس بار آواز دینے پر باہر آتے اور بہ مشکل چند لقمے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھالیا کرتے تھے۔ نہ وہ پہلے جیسا ہنسنا، ہنسانا نہ ٹی وی دیکھنا ،نہ کھلی فضا میں ارتھ ڈیم کے ساتھ ساتھ والی نشیبی سڑک پر چہل قدمی کرنا نہ تین سالہ بیٹی کی شرارتوں پر مسرورو محظوظ ہونا سب کچھ گویا ختم سا ہوگیا تھا اور پھر ایک رات ان دونوں نے آپسی سمجھوتے سے یہ انتہائی قدم اٹھالیا ۔ سجاتا کا ایک خط ان تینوں کی خون کی تفصیلی رپورٹ کے ساتھ منسلک پایا گیا ،جس سے سب پر یہ راز فاش ہوگیا کہ رمیش اور سجاتا نہ صرف یہ کہ ایچ آئی وی Positive ہیں بلکہ مرض ایڈس سے متاثر ہیں جبکہ بچی صحتمند ہے ۔ اس لئے سجاتا جو شوہر کی ہماچل پردیش سے لائی ہوئی بیماری کا خود بھی شکار ہوگئی تھی نہ ماہانہ ہزاروں روپیوں کی دواؤں کا خرچ برداشت کرسکتی تھی نہ خاندان والوں کے طعنے سن سکتی تھی اور نہ ہی پاس پڑوس و سماج کی حقارت بھری نظروں کی تاب لاسکتی تھی ۔ شاید اس لئے دونوں نے خودکشی کرلینے پر ایک دوسرے کو راضی کرلیا ۔ اپنی بیٹی کو عتاب سے بچانے کیلئے دادا دادی کے حوالے کرکے نجات کا راستہ ڈھونڈ لیا تھا ۔
ساگر جیسے جھوٹے سے مقام پر اتنی بڑی بات کا بوجھ اٹھاکر جینا ہر دو کے ماں باپ کیلئے بیحد تکلیف دہ اور مشکل تھا کہ سماج چین و سکون چھین لینے کے درپے ہوجاتا ہے ان دونوں کے سبھی افراد خاندان نے اس مقام سے ہجرت کی اب ایک ساتھ تین گھروں پر تالا دیکھ کر رمیش و سجاتا کی لٹکتی لاشیں نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہیں ۔ رمیش کوئی آوارہ ، بدمعاش ، شرابی ، جواری نوجوان نہیں تھا لیکن جانے کونسے کمزور لمحے نے ترغیب گناہ دی تھی ۔ دوستوں کی غلط صحبت و بڑھاوے نے شاید انکا راور مدافعت کی قوت و کاوشوں کو مغلوب کردیا تھا ۔ وہ شاید بھول گیا تھا کہ زندگی اور وہ بھی صحت مند جسم کے ساتھ ایک نعمت ہے ۔ اس کی حفاظت اس لئے ضروری ہے کہ ایک گھر ایک خاندان ہی نہیں بلکہ قوم ملک و سماج کو بہبود کیلئے بھی اہمیت رکھتی ہے نوجوانوں کی زندگی ان کی بقاء ان کی تندرستی خود ان کے ہاتھ میں ہے ۔اس لئے طبقی معاشی جذباتی اور اخلاقی غرض ہر شعبہ زندگی میں نوجوانوں کی رہنمائی ضروری ہے ۔ کیونکہ یہ معاشرہ کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ نفس پر قابو رکھنے کے جذبات پر غالب آنے کیلئے دماغ کو تخلیقی ، تفریحی ، بہترین کاموں میں مصروف رکھ کر ان خیالات سے دور کرنے کی ترغیب دی جانی چاہئے۔ سب بلوغت کو پہونچنے والے بچوں کی صحیح رہنمائی ماں باپ اور استادوں کا فرض ہے ورنہ ان کا مذہب و سماج کے اصولوں کے مغائر کام کرنا خاندانی عزت وقار و ناموس کو سرِبازار نیلام کردیتا ہے نوجوانوں کو مضبوط ارادوں کے ساتھ جینا ہوگا۔ ایسا نہیں کہ کسی نے پلائی پی لی، کسی نے عیاشی کی طرف راغب کیا اور اس راہ پر چل پڑے۔ ہم انسان ہیں کچھ جسمانی ضروریات و خواہشات ہیں، لیکن اس کے ساتھ نفسیاتی تحفظ ،خود اعتمادی ہوتو معاشرہ میں عزت و رتبہ قائم رہ سکتا ہے ۔ ضروریات ،خواہشات و تعیشات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ مذہبی و سماجی اصولوں کی حد بندیوں پر عمل کرنے والا احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سرخرو ہوتا ہے جبکہ اس کے خلاف جانے میں نہ صرف موت بلکہ بدنامی، رسوائی اور ذلت کی موت ملتی ہے ۔
یڈس دوسری بیماریوں کی طرح جانوروں، مکھی، مچھروں جیسے حشرات الارض سے نہیں پھیلتی کہ آپ سارا الزام ان کیڑے مکوڑوں کے سر ڈال دیں ۔ حضرت انسان ہی انسان کو متاثر کرتے ہیں ہوا پانی غذا سے بھی یہ جراثیم نہیں پھیلتے بلکہ متاثرہ انسان کے خون و رطوبت میں ان کی پروش ہوتی ہے اور اسی سے پھیلتے بھی ہیں اور انسانی جسم سے باہر نکل کر نہ پنپ سکتے ہیں نہ زندہ رہ سکتے ہیں ۔ عموماً بدکاری اس بیماری کی اصل وجہ ہوتی ہے ۔ اس لئے بجائے ہمدردی کے لوگ اس سے خوفزدہ بھی ہوتے ہیں اور نفرت انگیز نظروں سے دیکھتے بھی ہیں، جبکہ کبھی دواخانوں میں انجکشنوں کی سوئیوں سے خون کی تبدیلی کے دوران کوئی فرد اس سے متاثر بھی ہوجاتا ہے اور ڈاکٹروں و نرسوں کی لاپروائی کا خمیازہ معصوم لوگوں ک بھگتنا پڑتا ہے ۔ اس لئے حفظان صحت کے اصولوں میں تدارک بھی ایک اہم نکتہ ہے، کیونکہ خون کے خلیوں کے ذریعہ اپنی بقا قائم رکھنے والا یہ مرض کتنا موذی ہے ۔ اس کا علم چودہ پندرہ سال کی عمر ہی سے ہونا ضروری ہے ۔ اس لئے بیداری مہم چلانا اہم فریضہ ہے کیونکہ AEP یعنی Adolescence Eductation Programme بیحد اہمیت کا حامل ہے ۔
نویں دسویں کے طلباء و طالبات کو Learn to respect your body کا درس دیا جانا چاہئے اپنے سن بلوغت کی جذباتی و جسمانی تبدیلیاں و تغیرات سے بچے تنہائی پسند ہوجاتے ہیں ۔ اپنیں درپیش مسائل سے آگہی ضروری ہے ۔ RTK یعنی Right to Know یہ ان کا حق ہے ۔وہ کئی مسائل تجربات و مشاہدوں سے گذرتے ہیں۔ اس لئے موجودہ ماحول میں ان کی صحیح رہنمائی وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔ انہیں ایسی جگہ ایسے لوگ ملیں جہاں وہ بے جھجک اپنے خدشات دور کرسکیں ۔ بحث مباحثہ ہو انہیں تشفی بخش جواب ملے۔
چند سال پہلے اسکولوں میں نویں اور دسویں جماعت کے لڑکے لڑکیوں کیلئے جنسی تعلیم کا پروگرام شروع کیا گیا تھا، جس کی بے انتہائی مخالفت کے بعد اسے ختم کردیا گیا ۔ اس تعلیمی پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے کئی دنوں تک مرد و خواتین اساتذہ کو باضابطہ ٹریننگ دی گئی تھی ۔ ہر دو صنف کیلئے علحدہ کلاسیس ہوا کرتی تھیں ۔ اسی مناسبت سے لڑکے لڑکیوں کے لئے بھی علحدہ جماعتوں کا انتظام کیا گیا تھا ۔ پھر دوسرے دیہاتوں و منڈلوں کے اساتذہ کو ایک دوسرے کے اسکولوں میں بھیجا جاتا تھا ۔ کیونکہ کئی برس اسی اسکول میں پڑھنے سے بچے معلومات حاصل کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں اور خائف بھی رہتے ہیں۔ شروع شروع میں یہی سمجھتے رہے کہ اتنی معصوم صورت والے کم سن چودہ پندرہ سال کے غریب لڑکے لڑکیاں جو اطراف کے تانڈوں ، قصبوں اور دیہاتوں سے آکر سرکاری ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کیلئے ابھی سے یہ جنسی تعلیم کا پروگرام رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔ ہمارے وقت اور گورنمنٹ کے پیسے کی بربادی ہے ۔ کلاس شروع ہونے سے پہلے ٹیچرس کی میٹنگ رکھی جاتی تھی اور ہم میں سے بہت سوں کا خیال تھا کہ ایسی باتیں بچوں کے علم و فہم سے باہر ہیں ،لیکن کلاسیس کے آغاز پر معلوم ہوا کہ بچوں کا تجسس اور معلومات ہمارے فہم و گماں اور خدشات سے بہت آگے انہیں لے جاچکے ہیں ۔ اس وقت تو ہم بیحد حیران بلکہ پریشان بھی ہوئے ۔ٹریننگ کے مطابق کلاسیس کے اختتام پر ایک ڈبہ میز پر لاکر رکھ دیا جاتا تھا اور ہر لڑکے اور لڑکی سے کہا جاتا تھا کہ وہ ایک کاغذ پر اپنا نام اور کلاس لکھے بناء وہ سوالات لکھ دیں جن کے جوابات انہیں اس کلاس میں نہیں مل سکے یا وہ پوری کلاس کے سامنے پوچھتے ہوئے شرماتے یا جھجھکتے رہے ۔ ان جٹھیوں کو ڈبے میں ڈال دینے کی ہدایت کی جاتی تھی پھر پندرہ منٹ کا وقفہ دیا جاتا تھا ۔ اس درمیان میں ٹیچرس ہر سوال کو پڑھ کر ان کے جواب دینے کیلئے اپنے آپ کو تیار کرلیا کرتے تھے اور خاص طور پر اس بات کی طمانیت حاصل کی گئی تھی کہ تشریح ڈھکے چھپے الفاظ میں ہو ،غلط یا عامیانہ الفاظ اور جملوں کا استعمال نہ ہو ۔ جب جٹھیاں کھولی گئیں تو آپ یقین نہیں کریں گے کہ ایسے ایسے سوالات ان میں درج تھے کہ درمیانی عمر کے نہ صرف خواتین ٹیچرس بلکہ مرد اساتذہ کے بھی پسینے چھوٹ گئے ۔
اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج کل کی نسل کی بے راہ روی صرف ٹی وی ، انٹرنیٹ اور شہری زندگی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ موجودہ معاشرہ کی بے شرمی اور غلط طریقوں سے معلومات حاصل کرنے کی ایک بڑی وجہ ظاہر ہوتی ہے جس میں صحت کے نقصانات کا ذکر کم اور لطف و انبساط کے جذبات و احساسات کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔ اس میں کسی مخصوص مذہب طبقے یا امیر غریب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا مذہب کی انتہاء پسندی اب شیطانیت اور عفریت کا روپ لے کر نفرت کی آگ چار سو پھیلا رہی ہے ۔ تعمیری کام نہ کے برابر ہے ۔ اس لئے آپ اور ہمارا ورثہ سب جل کر بھسم ہو رہے ہیں ۔ سرسبز و شاداب صحت مند معاشرہ بنانے کیلئے ماحول کو سازگار بنانے میں برائیوں کو مٹانے کیلئے اپنے لب و لہجے میں مٹھاس اور دینی فکر و نظر میں ہم کو وسعت پیدا کرنی ہوگی ۔ تنگ نظری سے قطع نظر و سیع النظری سے موجودہ حالات کا جائزہ لینا ہوگا ہر ایک چیلنج کو قبول کرنا ہوگا جو وقت کی پکار ہے لڑکیاں عصمت ریزی کا شکار ہو رہی ہیں تو معصوم لڑکے غیر فطری عمل سے ایڈس سے متاثر ہو رہے ہیں ۔یہ سب کچھ آپ کے ہمارے اطراف ہو رہا ہے۔ محلوں، اسکولوں کالجوں، ہاسٹلوں میں ہو رہا ہے اور ہم ان باتوں پر لعنت بھیج کر چشم پوشی اختیار کرلیتے ہیں ۔یہ ایک سماجی ناسور ہے اور عمل جراحی سے اس ناسور کے رستے زخموں کا علاج کرنا ہوگا ۔ انہیں مندمل کرنا ہوگا ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان حالات میں مرد اپنی غلطیوں سے خائف ہوکر خون کا معائنہ کرواکر تشفی حاصل کر لینا چاہتے ہیں اور رپورٹ میں لفظ Negative دیکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں جبکہ مہینوں بعد بھی ایسی ہی رپورٹ آتی رہتی ہے جبکہ وہ HIV سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں ، کیونکہ زندگی کا ابتدائی دور شروع کا دور Window Period ہوتا ہے اور بیویاں بیچاری اس بات سے قطعی لاعلم رہتی ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق اب ہر سال ایک لاکھ بچے HIV Positive لیکر پیدا ہوتے ہیں ان کا آخر کیا قصور ہے ۔ ہر ایک شخص کا فرض بنتا ہے کہ اپنے خیالات و جذبات کو صحیح راہ دے کر اپنی صحت و جسمانی نشوونماں کی حفاظت کریں ۔ شریک حیات سے وفاداری نبھائیں ۔ کیا بیوی کی ایسی کسی غلطی کو وہ معاف کرسکتے ہیں؟ ایڈس ایک منفرد شخص کی صحت و بیماری نہیں بلکہ معصوم و بے گناہ افراد خاندان کو بھی موت کے منہ میں ڈھکیلنے کی سمت پیش قدمی ہے ۔ ان دنوں بچے اسکول کالج یا پھر گھر آنے کے بعد بھی کھیل کود ، اسپورٹس ،تیراکی ،چہل قدمی جیسی کوئی ورزش کی طرف مائل نہیں ہوتے جس سے کہ تناؤ اور دباؤ سے نجات پاسکیں ۔ صنف مخالف سے لگاؤ اور کشش محسوس کرنا قدرتی بات ہے لیکن نفس کے سرکش گھوڑے کو قابو میں رکھنے کیلئے دماغ کو تعمیری و تخلیقی کاموں میں مصروف رکھنا اور بہکتے خیالات کا لگام دینا بھی ضروری ہے ۔ A.P State aids control society foundation for a rural & social development کے مطابق آندھراپردیش ایڈس سے متاثرہ اسٹیٹس میں چھٹویں مقام پر ہے ۔ اس میں High Way Sex workers اور ٹرک ڈرائیور اس مرض کو پھیلانے کے زیادہ ذمہ دار ہیں جسم فروش عورتیں روزانہ اوسطاً تین تا چار افراد کو اس مرض سے متاثر کرتی ہیں ۔ یہ اتنی غریب ہوتی ہیں کہ دس روپئے سے پچاس روپئے ان کا دام ہوتا ہے ۔ کھمم اور گنٹور ہائی وے پر متاثرہ عورتوں کی بہتات ہے ۔ تلگو چیانل پر ان عورتوں کا انٹرویو دیکھ کر شاید ہی کوئی ایسی آنکھ ہوگی جو اشکبار نہ ہوئی ہو ۔ یہ عورتیں گویا کہہ رہی تھیں۔
دنیا نے تجربات وحوادث کی شکل ہیں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ایڈس کی بیماری اکثر ریڑھ کی ہڈی اور دماغ کو بھی متاثر کرتی ہے اور کچھ لوگ تو اندھے پن کا شکار ہوگئے ہیں ۔ ہر وقت ہر بار جنسی بے راہ روی ہی اس بیماری کی وجہ نہیں ہوتی ۔مرض اور اس کی شدت و نقصان کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے غفلت کا شکار ہونے والوں میں دیہاتی غریب غرباء ، ان پڑھ، جاہل لوگ زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ دیہاتوں میں دواخانوں کی ابتر حالت ہوتی ہے ۔ آر ایم پی ڈاکٹروں کی بہتات ہے ایک ہی سوئی کئی مریضوں کو انجکشن لگانے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ کچے گھروں کی ناٹوں سے بوتلوں کو باندھ کر ہر مرض کیلئے گلوکوز چڑھایا جاتا ہے ۔ اس طرح معصوم لوگ بھی اس مہلک مرض کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ایسے میں ایک باشعور شہری ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی معلومات سے اس کا تدارک کریں ۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ ہوگا۔ پچھلے دنوں ایک مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے کہ آج کل کے ماحول میں پنپنے والے جرم، زنا کاری ، عصمت ریزی بدکاری کی وجہ صحیح عمر میں لڑکے لڑکیوں کی شادی نہ کرنا ہے۔ سن بلوعت کو پہونچتے ہی اپنے بچوں کی شادی کردیجئے یہ نہ سوچئپے کہ لڑکے کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی ہے ۔ اس کی معقول تنخواہ نہیں ہے ۔ شادی کیلئے لڑکوں کا برسر روزگار ہونا ضروری نہیں ہے ۔ رزق دینے والا اللہ ہے ۔ بے شک اللہ کا وعدہ ہے کہ تم محنت کرو میں اس کا صلہ دینے والا ہوں لیکن اخبار کی اطلاعیں بتاتی ہیں کہ ایک چودہ سال کا لڑکا اور بارہ سال کی لڑکی ایک بچی کے ماں باپ بن گئے ہیں ۔ اب اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ کیا یہ عمر سن بلوغت کے دائرے میں آتی ہے ۔کیا اس عمر میں آپ اور ہم اپنے بچوں کی شادی کرنے تیار ہیں ؟ کیا قبل از وقت شادی ہی اس بے راہ روی کا واحد حل ہے آخر ہم کب تک چشم پوشی کرتے رہیں گے



تنہائی۔نفیسہ خان۔ Nafeesa Khan






تنہائی
نفیسہ خان


ہر فرد کی زندگی کا عذاب

زندگی کسی کے لئے سزا ہے تو کسی کے لئے جزا۔ کوئی زندگی کی صلیب کو اپنے کاندھے پر اٹھائے گھسیٹ رہا ہے کہ یہ خدا کی رضا ہے۔ دل رنجور ہے، دکھی ہے، غموں سے چور ہے، پھر بھی جیتا ہے۔ تنکا تنکا جمع کر کے آشیاں بنایا تھا۔ لیکن خرمن آرزو میں آگ لگ گئی اور وہ کچھ نہ کرسکا۔ ایک خاموش تماشائی بن کر رہ گیا۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ ماہ وسال کیسے بیت گئے اور ایک دن اچانک محسوس ہوتا ہے۔ کہ زندگی کا رواں دواں کارواں اسے تنہا چھوڑ کر بہت آگے نکل گیا ہے۔ یہ حالت ہر اس عورت اور مرد کی ہوتی ہے جو زندگی میں مجرد رہ جاتے ہیں۔ بالکل تنہا وبے بس۔ وہ سونچتے رہ جاتے ہیں کہ کہاں کس مقام پر وہ سماج، خاندان رشتے داروں اور حالات سے سمجھوتہ نہیں کرپائے۔ زندگی کے نشیب وفراز میں کہاں کونسی ٹھوکر ان کو تنہائیوں کے حوالے کر گئی۔ کونسی زنجیر کی کڑی کہاں درمیان سے ٹوٹ گئی۔ رشتوں کی گرہ کیسے کھل گئی ۔ اس کو کس کر باندھنے کی کیوں اپنوں نے کوشش نہیں کی ؟
مجردمرد ہو یا عورت، پچاس سال کی عمر کو پہنچنے کی بعد ان پر تنہائی گراں گذرنے لگتی ہے۔ دل میں ایک پھانس سی اٹک جاتی ہے کہ کاش ان کا بھی کوئی جیون ساتھی ہوتا ان کے دکھ درد بانٹنے والاہوتا۔ بڑھتی عمر کی ساتھ یہ کاش ، کاش، کاش، کاش، ہر دھڑکن کے ساتھ کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ شادی نہ کی ہو تو وہ تنہا ہے۔ شریک حیات کی موت ہوگئی ہو تو وہ اکیلا ہے۔ علیحدگی ہوگئی ہوتب بھی اپنی یا اپنی شریک زندگی کی زیادتیاں یاد کر کے وہ ہر دم سلگتے رہتے ہیں۔ بعض بدقسمت لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک چھت کے نیچے ساتھ رہتے ہوئے بھی خیالات کے ٹکراؤ کی وجہ سے ایک دوسرے سے اتنی دور ہیں کہ ایک کے دل پر گذرنے والی کیفیت سے دوسرا قطعی لاعلم ولاپرواہ ہے۔۔
تنہائیوں میں اپنی کسی کا گذر نہ ہو
جس طرح جی رہے ہیں کسی کو خبر نہ ہو
تنہائی وہ عذاب ہے جسے جھیلنا بڑا تکلیف دہ بڑا کربناک ہوتا ہے۔ خصوصاً جب بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور جوانی ایک ایک کر کے ٹوٹے دھاگے کی موتیوں کی طرح پھسل کر ماضی کے سنگین فرش پر بکھر بکھر جاتے ہیں۔ ماں، باپ، بہن ، بھائی بھرا پرا خاندان گھٹتے گھٹتے مختصر ہونے لگتا ہے اور کسی دن آپ کو لگتا ہے کہ خاندان کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے آپ کی عمر اتنی آگے نکل گئی کہ شادی کر کے گھر بسانے کا دور گذر گیا۔ ماں باپ نے اپنی بیٹیوں کی شادی کا بوجھ بیٹوں کی سر ڈالدیا اور بہنوں کی ہاتھ پیلے کرتے کرتے بھائیوں کے بال سفید ہوگئے۔ کسی نے ان کی جذبات کو جاننے تک کی کوشش نہیں کی۔ ایک کے بعد ایک سب سسرال رخصت ہوگئیں اور ماں باپ دنیا ہے سے رخصت ہوگئے۔ یہ وہ مجرد لوگ ہیں جو معاشی مسائل کے مارے ہوئے ہیں۔۔
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
دوسری طرف وہ عورتیں ہیں جو تعلیم یافتہ، سگھڑ ، شریف خاندان کی چشم وچراغ ہیں۔ نہ جانے کتنے خواب خوش آئند زندگی کے دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنی عمر عزیز کے چالیس سال گزاردیئے ہیں لیکن بند کواڑوں پر کسی نے دستک نہیں دی۔ نانی امی کہتی تھیں کہ ہر مرد وعورت کی جوڑی اللہ کے پاس سے بن کر آتی ہے۔ تو پھر خدا اپنے ان بندوں کو کیسے بھول گیا؟ قصور اللہ کا ہے یا خطا بندے کی ہے کہ بر ڈھونڈھنے ، چھاٹنے، پھٹکنے میں سال پر سال ہوگئے۔ تو معلوم ہوا کہ پت جھڑ کا زمانہ آگیا۔ بہن ، بھائی، سہیلیاں سب اچھے سے یا برے سے اپنے گھر آباد یا برباد کر کے چلے گئے لیکن ان الھڑ لڑکیوں سے پختہ عمر کی عورتیں بن جانے والیوں کے گھر نہ آباد ہی ہوتے ہیں نہ برباد۔ ایک لق ودق صحرا بن کر رہ گئے کہ جہاں دور دور تک کوئی نخلستان بھی نہیں۔ خواہ وہ خود مکتفی ہوں زندگی میں آسودگی ہو، بظاہر مطمئن بھی لگتے ہوں لیکن تنہائی میں جھانکئے۔ سائیں سائیں کرتا گھر یا کمرہ جہاں سب کچھ ہے بشمول قریبی رشتے داروں کےلیکن زندگی میں ایک خلاءسا ہے۔ نہ کوئی پیار دینے والا نہ رنج وغم بانٹنے والا ۔ نہ دل کی بات سننے والا، نہ سخت سست سنانے والا۔ نہ روٹھنے پر منانے والا۔۔
عمر بھر خوابوں کے چلمن سے لگے بیٹھے رہے
میں نے ساری زندگی حالات سےپردہ کیا
ایک قسم مجرد عورتوں کی وہ ہے جو اپنی ضد یا بات منوانے کی سزا بھگت رہی ہیں کہ ماں باپ نے وہاں شادی نہیں کی جہاں ان کی مرضی تھی ۔ تو تمام زندگی اس ایک یاد کے ساتھ گذاردینے کی قسم کھالی۔ کبھی غلطی ماں باپ اور خاندان والوں کی ہوتی ہے سوفیصدی مناسب رشتہ ہونے کی باوجود بھی بس اپنی اڑ پر قائم رہتے ہیں۔ کہ یہ رشتہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ اس رشتے سے خوش نہیں ہیں۔ پہلے زمانے کی فرمانبردار اولاد (آج کل کے زمانے میں شاید ایسا ممکن نہیں) گھر کے ماحول کو میدان جنگ بنانے سے گریز کرتے ہوئے ماں باپ کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالدیا کرتی تھی لیکن چند ایک اپنی ہٹ پر قائم رہتے ہوئے باقی زندگی تو نہیں تو کوئی اور بھی نہیں کی مصداق تنہا گذارنے کو ترجیح دیتے۔ وقت گذرتا گیا عمر کے رنگین لمحے رنگ برنگی تتلیوں کے پروں کے رنگوں کی طرح چھوٹتے چلے گئے لیکن ایک چہرے کا نقش بہت واضح اور ان مٹ تھا جو کبھی صفحہ ماضی سی مٹایا نہ جاسکا۔ ہر دکھ سکھ خوشی وغم میں وہ اور ابھر کر نظروں کے سامنے آتا گیا۔ ۔
ایک تمنا کوئی ایسا تو بڑا جرم نہ تھی
آنکھ تا مرگ چھلکتا ہوا پیمانہ بنے
کبھی موت میاں بیوی میں سے کسی ایک کو چھین لیتی ہے تو سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ یہی خدا کی مرضی ہوتی ہے۔ حالانکہ تنہائی جان لیوا ہے ۔ دکھ ہر قدم پر خون کی آنسو رلاتا ہے۔ ساتھ گذاری ہوئی زندگی کی حسین ورنگین یادیں دلاسا بھی دیا کرتی ہیں۔
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں اب اپنے ماضی کو
خود اپنے نقش قدم کچھ پتہ نہیں دیتے !
مسرتوں کے لمحے سبک قدم کتنے !
گذرے یوں ہیں کہ آہٹ ذرا نہیں دیتے
لیکن جہاں علیحدگی ، آپسی جھگڑے، تکرار، خیالات کےٹکراؤ، خاندانی دشمنوں کی وجہ سے ہوتے ہوں تو وہاں ضمیر کی آواز کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ ہر بار وہ یاد کرتے ہیں اپنی کوتاہیاں اس کی زیادتیاں۔ اس کے ظلم اپنا صبر، اپنے اخلاق سے گری ہوئی گفتگو اس کے رواں دواں آنسو۔ اپنا سخت رویہ اس کی منت سماجت ، کبھی اپنا ٹھکرادینا، کبھی ہندوستانی سماج وروایات کی پابند عورت کا علم بغاوت بلند کر سارے بندھن توڑ کر اپنے پیچھے سب کو حیران وششدر چھوڑ جانا یہ ایک ایسا کرب ہے جو تنہائی میں قطرہ قطرہ خون چوستا رہتا ہے۔ ضمیر کی آواز کبھی سرگوشیوں میں تو کبھی بازگشت کی صورت میں گونجتی رہتی ہے۔۔
بدظنی سے اور بڑھتے ہیں دلوں کے فاصلے
ہے یہی بہتر کہ ہم آپس میں سمجھوتہ کریں
یوں کبھی ہوتا ہے کہ روزمرہ کے معمولات سے فراغت پا کر اچھے خاصےموڈ میں آپ گھر سے کسی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے نکلتے ہیں۔ نہ دل ودماغ میں کوئی یاد، نہ کوئی خلش۔ آپ بھی خوشیوں سے سرشار، رنگ برنگے قمقموں سے جگمگاتی محفل کا ایک حصہ ہیں کہ اچانک کسی بچے کی تیز کلکارتی آواز آپ کی توجہ کھینچ لیتی ہے اور اچانک آپ کے ذہن میں بجلی سی کوند جاتی ہے۔ آپ کو اپنا ناتہ نواسہ یاد آجاتا ہے۔ جس سی بچھڑے ہوئے آپ کو دوچار سال گذر گئے۔ ہزاروں میل دور امریکہ کے کسی شہر میں پروان چڑھ کر وہ اب پانچ سال کا ہوگیا ہوگا لیکن جب آپ سے پچھڑا تھا تو ایسی ہے کلکاریوں سی آپ کا گھر گونجتا رہتاتھا۔ بس پھر کیا ہے محفل کی تمام قمقمے ایک ایک کر کے گل ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ بھری محفل میں بھی آپ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہےہیں۔ باوجود لاکھ ضبط کے آپ کی آنکھیں بھرآتی ہیں۔ گلا روندھنے لگتا ہے۔ آپ کو یوں لگتا ہے کہ جس گھر کو بسانے، سجانے، جمانے اور بچوں کو بڑا کرنے میں آپ نے اپنی عمر عزیز کے اتنے سال گذاردیئے آج سائیں سائیں کر رہا ہے۔ میں نے اپنے دوست کو گھر پر تنہا پا کر بچوں کے بارےمیں پوچھا تو اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کو جواب دیا ’سب کو چگنے لیے چونچ اور اڑنے کے لیے پرجو آگئے ہیںٗٗ۔۔
ہائے وہ وقت کہ جب عالم تنہائی میں
کوئی پرساں نہ رہے دیدہ گریاں کی سواء
ہر ایک کی زندگی میں تنہائی وکرب کے بے شمار لمحے آتے ہیں جب وہ ایک اکائی بن کر رہ جاتا ہے وہ ان لمحوں میں کسی کو جھانکنے نہیں دیتا۔ کسی کی شراکت ، دخل اندازی ومداخلت اسے قبول نہیں ۔ کسی کا گذر منظور نہیں۔ اپنے ہی خیالات میں غلطاں وپیچاں وہ ڈوبتا ابھرتا رہتا ہے کہ:
رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے
کٹ گئی عمر رات باقی ہے











نفیسہ خان ایک تعارف۔ تصنیف قریب رگ جاں کے حوالے سے۔Nafeesa Khan








نفیسہ خان کا تعارف
تصنیف قریب رگ جاں کے حوالے سے

















Friday, October 25, 2019

عذاب جان ۔ نفیسہ خان Azab e Jaan by Nafeesa Khan

عذاب جان
نفیسہ خان







ماں کا وجود خاندان میں جب تک قائم رہتا ہے۔ تب تک اس کی محبت اس کی کشش اس کی اولاد کو دور دراز مقامات وملکوں سے اپنے وطن اپنے گھر کی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ گھر بنائے رکھنا۔ اس کے ہر فرد کا خیال، اس کی ضروریات وخوشیوں کی تکمیل ، پسند نا پسند کا احساس رکھنا بھی ایک عبادت ہے۔ اور اس خود غرض، خود پرست دنیا میں اپنی ساکھ قائم رکھنے والا وجود خوشیوں کی سوغات بانٹنے والی ہستی ماں ہی کی ہوتی ہے۔ اس لئے ماں کی محبت کے دعوےدار اپنی پہلی فرصت میں شہر حیدرا?باد میں چھوڑ ا?ئے اپنی ماں کے گھر کی رونق لوٹانے وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں۔ جیسے ہی چھٹیوں کا اعلان ہوتا ہے چوطرف سے فون کھڑکنے لگتے ہےں۔ دن تاریخ وقت مقرر ہوجاتے ہیں۔ پروگرام قطعیت پاجاتے ہیں کہ کون کب امی جان کے گھر آرہا ہے۔ کہاں جانا ہے۔ کتنی دعوتیں کس کے گھر پر ہیں کتنی پکنک پارٹیاں کن مقامات پر ہوں گی۔ تمام پروگرام قطعیت پاگئے تو قریبی رشتے داروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کوئی لندن سے آیا تو کوئی امریکہ کے مختلف شہروں سے، کوئی خلیجی ممالک سے آیا تو ہم جیسے گاوؤں کھیڑوں سے حیدرآباد پہنچے۔ اس طرح ہم سب جب اپنے مختصر سے آبائی مکان میں جمع ہوتے ہیں تو گھر کا سکوت شور شرابے سے اور اداسی رونق سے بدل جاتی ہے۔ وطن کے کھانے سالن کے مزے زبان سے چھوٹتے نہیں۔ اس لئے فرمائشوں کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور ان کی خوشبو سے گھر مہکتا رہتا ہے۔ ہنسی، قہقہوں ، بچوں کی کلکاریوں سے دیواریں جھنجھناتی رہتی ہیں لیکن سرشام ٹی وی کے کمرے میں افراد خاندان، بلا لحاظ عمر اس طرح جمع ہونے لگتے ہیں جیسے اذاں کے ساتھ مسجد میں محمود و ایاز۔ مصلیوں کی صف میں بندہ و بندہ نواز کا فرق مٹ جاتا ہے۔
ٹی وی کے سامنے عمر، رشتوں ، چھوٹے بڑوں کا لحاظ ختم ہوجاتا ہے۔ بےچارا ایک اکلوتا ٹی وی اور بےشمار چیانلس۔ سب کی جداگانہ پسند ہے۔ لیکن جو جیتا وہی سکندر کے مصداق جس کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ہو وہی سب پر حاوی رہے گا یا تو اس کی اپنی مرضی چلے گی یا پھر اگر وہ انصاف پسند ہے تو سب کا دل کچھ اس طرح خوش کرتا رہے گا کہ کسی چینل کا کوئی سیریل یا پروگرام ا?پ کے پلے نہیں پڑے گا گویا۔

کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھانا متی نے کنبہ جوڑا۔ کم عمر بچے کارٹون فلم کے شیدائی ہیں تو ان سے کسی قدر بڑے بچے اپنے تجسس کی خاطر کچھ کھلے ڈھکے سین دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان سے عمر میں زیادہ جو ہیں ایم ٹی وی پر فدا ہیں۔ تو نوجوان بیک وقت زی، اے ٹی این، سونی، اسٹار پلس وغیرہ سب ہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ نانی امی بھی موتیا بند ا?پریشن کے مابعد کا صاف چشمہ صاف کرتی ہوئیں اپنے کمرے سے ہانک لگاتی ہیں ”کےا الف لیلیٰ سیریل شروع ہوگیا “ قبل اس کے کوئی جواب دے الف لیلیٰ شروع ہونے کی میوزک کے ساتھ ہی وہ اپنی لڑکھڑاتی چال کے ساتھ اپنی مخصوص کرسی پر ا?کر براجمان ہوجاتی ہیں اور کسی کی مجال ہے کہ چینل بدل دے۔ ایسے میں دوسرے چیانلس پر بہترین سیریلس کا وقت ہوتا رہتا ہے۔ بچے بغاوت پر اترا?تے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان پچاس ساٹھ سال کا فاصلہ ہے اور ہم ان دو قطبین کے درمیان اپنے ا?پ کو خط استوا محسوس کرتے ہیں جس کی حیثیت زیرو ڈگری ہے۔ ان دونوں کی رسہ کشی میں ہم کھینچ تان کا شکار ہوتے ہیں۔ بچوں کو روکئے تو ا?ج کل وہ کہاں کے اتنے فرمانبردار ہیں کہ سر تسلیم خم کریں گے۔
پھٹ سے کہدیں گے۔۔
وقت اس سے بڑھ کر ہم پر اور کیا ڈھاتا ستم
جسم بوڑھا کردےا اوردل جواں رہنے دیا
نانی امی تلملا کر بڑبڑانے لگتی ہیں۔ ادھر انہیں سمجھانا اور ادھر بچوں کو ڈانٹنا روز کا معمول بن جاتا ہے۔ لیکن نہ وہ اپنا وطیرہ چھوڑیں گی۔ نہ یہ اپنے ا?پ کو سدھاریں گے۔ ہم قدامت وجدیدیت کے دوراہے پر کھڑے ہاتھ ملتے رہتے ہیں۔ بچوں کی فریاد ہے کہ صبح اٹھتے ہی مولوی صاحب قرا?ن پڑھانے ا?جاتے ہیں۔ اس کے بعد صبح سے شام تک اسکول، وہاں سے لوٹ کر کھیل بھی نہیں پاتے کہ ٹیوشن ماسٹر ا?موجود ہوتے ہیں۔ مغرب کے بعد ہی انہیں فرصت ملتی ہے تو کیا وہ ایک دو گھنٹے ٹی وی پر اپنا من پسند پروگرام بھی نہ دیکھیں اب انہیں ٹی وی سے باز رکھنے کا ہمارے پاس جواز بھی کیا ہے اور جبکہ بچے بھی ایک گھر کے نہیں بلکہ مختلف مقامات، ماحول سے ا?ئے ہوئے ہوں ، مختلف اخلاقی اقدار کے حامل ہوں۔ ان میں خاندانی اوصاف کم ہوں اور شائستگی کا فقدان ہو۔ ان کا اپنا مخصوص انداز فکر ہو تو سخت گیر رویہ اختیار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ورنہ چھٹیاں گزار کر بجاے انمول یادیں اپنے ساتھ لے جانے کے بڑوں کے دلوں میں بھی تلخیاں بھرجانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ لیکن نانی امی واماں جان کے دل کو ٹھیس لگتی ہے کہ ان کا وجود گھر والوں کے لئے باعث احترام نہیں رہا بلکہ مذاق کا موضوع بن گیا ہے کہ بچوں کی ننھی سی زبان بھی اب گز بھر لمبی ہوگئی ہے۔ انہیں شک ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ بچوں کی اس گستاخی کے پیچھے ہماری شہ ہے، ہماری ا?نکھ ہے۔ ہم لوگوں نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے کہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔
ماحول واسکول کو قصوار ٹھہرائیں یا اپنی پرورش میں کوتاہی کا اعتراف کریں۔ بیوی شوہر پر غصہ نکالے، شوہر بیوی کو مورد الزام ٹھہرائے، ایک دوسرے کو ہدف نشانہ بنا کر دل کی بھڑاس تو نکالی جاسکتی ہے لیکن حل تلاش کرنا ممکن نظر نہیں ا?تا۔
گھر بھر مہمان ہوں تو عورتوں کا زیادہ وقت باورچی خانہ کی نذر ہوجاتا ہے۔ ٹی وی کاسوچ ا?ن ہوا کہ گھریلو کام ٹھپ ہوجاتے ہیں۔ سب کی نگاہوں کا مرکز ہمہ وقت بس ٹی وی ہی ہے۔ گھر کے نوکر بھی بھاجی ترکاری پیاز کی ٹوکری وچاقو سنبھالے ٹی وی کے سامنے فرش پر ا?بیٹھتے ہیں کہ ایک پنتھ دو کاج۔ لچھمی دبے الفاظ سے کہتی ہے بی بی تلگو سنیما ا?رہا ہے وہ لگادیجئے نا۔ میں اس پر برس بڑتی ہوں کہ مفت ا?ئی کیمپ میں ا?پریشن کروانے کے بعد ایک ا?نکھ تو گنواچکی ہے اب اگر اس طرح دوسرا دیدہ بھی ٹی وی پر گاڑے بیٹھے گی تو وہ بھی پھوٹ جائے گا۔ ادھر امی جان بڑبڑاتی رہتی ہیں کہ سالن میں اب پہلے جیسے مزے ہی نہ رہے۔ وہ سل بتے پر پسے ہوئے لعاب دار مصالحوں کا مزہ اب مکسی میں پسے مصالحے میں کہاں ہے۔ کھانے پکانے میں ہماری دلچسپی ہی نہیں تو اچانک ہماری نظریں ماما پر اٹھ جاتی ہیں جو ہنڈیا میں کفگیر ہلاتے ہلاتے باورچی خانے کے اس کونے تک ا?گئی ہے جہاں سے ٹی وی نظر ا?تا ہے۔ جب کسی کام میں پوری توجہ شامل نہ ہو تو اس کام کا بخوبی انجام پانا ممکن نہیں ہوتا۔ قورمے کے مصالحے کبھی کچے رہ جاتے ہیں تو کبھی ٹی وی دیکھنے میں محو ہو کر بھونتے بھونتے جل جاتے ہیں۔ خشکہ گلتی بن جاتا ہے تو دودھ ابل کر فرش پرٹپکنے لگتا ہے، پھلکا پھولتے پھولتے پٹاخ سے پھٹ جاتا ہے۔ یہ رہی نوکروں کی مگر افرادخاندان کا حال ان سے مختلف ہے۔ ساری کا فال ٹانکنے والی ا?پا بھی ساڑی فال لئے معہ سوئی دھاگوں کے ڈبے کے ٹی وی کے سامنے بچھے تخت کے ا?خری کونے پر جا بیٹھتی ہیں۔ بچیاں گڑیاں کھیلتے کھیلتے گڑیوں سمیت اس طرح کھنچی چلی ا?تی ہیں جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کھینچتا ہے۔ لڑکے لوڈو کےرم بورڈ کا کھیل ادھورا ہی چھوڑ کر دوڑ پڑتے ہیں۔ بڑے ابا جو کسی میگزین کی ورق گردانی میں مصروف تھے وہ بھی خراماں خراماں ا?موجود ہوتے ہیں۔ ہاں بس اتنا خیال ضرور رکھتے ہیں کہ نوجوانوں سے ذرا ہٹ کر بیٹھیں ساس صاحبہ بھی بیٹھیں گی ضرور یہ احتیاط برتتی ہیں کہ دامادوں کی نگاہ کی زد میں نہ ہوں۔ کسی کی ا?ڑ یا پیٹھ کے پیچھے نشست ہو۔ نظریں ٹی وی پر، پلو سرپر، دامادوں سے بظاہر روبرو نہ ہونے کی جستجو، لیکن اشتیاق ٹی وی تک کھینچ لایا ہے۔ رشتے اتنے معتبر و برتر کہ نہ کسی مذاق و لطیفے پر کھلکھلا کر ہنسنے کی چھوٹ نہ پوری طرح لطف اندوز ہونے کا موقعہ۔ جہاں ایسا ویسا کوئی شوخ سین ٹی وی کی چھوٹی اسکرین پر ا?گیا تو اپنی نشست پر کسمساکر رہ گئیں۔ نہ اٹھتے بنتا ہے۔ نہ دیکھتے بنتا ہے عجیب بن جاتا ہے۔ چھوٹی بہو نہ صرف اپنے ننھے بچوں کو ہی بلکہ ان کی دودھ کی شیشی پوتڑوں کی باسکٹ کو بھی ٹی وی کے سامنے سمیٹ لاتی ہے کہ پروگرام چھوڑ کر بار بار نہ اٹھنا پڑے اور خلل نہ ہو۔ اس مکمل انتظام کے باوجود اگر منے میاں اپنے سیدھے ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کر کے صرف کرن انگلی اپنی ممی اور ٹی وی کے درمیان نچاتے ہیں تو وہ اتنی قہر ا?لود نظروں سے اسے دیکھیں گی کہ بےچارے بچے کو اپنی معصوم خطا پر بہت کچھ قطع کرنا پڑجاتا ہے۔ بچوں کو کمبخت ماری بھوک بھی تو جلد لگ جاتی ہے۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اتنی نئی فلم کازی ٹی وی پر پریمیر شو چل رہا ہے۔ اسے مس کرنا کس قدر تکلیف کا باعث ہے۔ بادل ناخواستہ بڑی بہو نے اٹھ کر رکابی میں سالن ڈالا پھر ٹی وی کے سامنے ا?کر بیٹھ گئیں۔ خود کی گود میں بچہ، بچے کی گود میں رکابی، نظر ٹی وی پر، ہاتھ رکابی میں اور نوالے بچے کے منہ میں۔ انہماک کا یہ عالم ہے کہ یہ احساس تک نہیں کہ نوالے بچے کے منہ میں جارہے ہیں یا ادھر ا ±دھر بھٹک رہے ہیں۔ ساس صاحبہ خشمگیں نگاہوں سے بہو کو گھورے جارہی ہیں۔ بنا کسی کو مخاطب کئے دل کی بھڑاس نکال رہی ہیں کہ یہ بھی بچوں کی پرورش کا کوئی طریقہ ہے۔ ذرا دیوانگی کا عالم تو دیکھو۔ چین سے بیٹھ کر بچوں کو کھانا کھلانا بھی ان لوگوں کے لئے دوبھر ہے۔ میرا جواب ہوتا ہے کہ جب اس عمر میں گورکنارے بےٹھ کر ہم بھی سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہوگئے ہیں تو ان کو کیوں دوش دیں۔ ان کی تو عمر ہی زندگی کا لطف اٹھانے کی ہے۔ یوں بھی ہمارے دخل ومداخلت کو وہ کب برداشت کرسکتی ہیں۔
حیدرا?باد میں جس طرح ٹریفک کا اڑدھام ہے ایسے ہی مچھروں کی بہتات ہے۔ خصوصاًہر شام تو ان کی بین ٹی وی کی میوزک پر حاوی لگتی ہے۔ بھائی جان بنا ہوا پانی غذا کے شاید جی بھی لیں مگر کچھوا چھاپ بتی کے بغیر گذارا ممکن نہیں۔ وہ اپنی کرسی کے قریب یہ بتی سلگالیتے ہیں تو بھابی جان اوڈوماس کی ٹیوب چپکے سے پاس کرتی جاتی ہیں کہ کم از کم کرسیوں کے نیچے پاو ¿ں کو سوئیاں چبھنے کا احساس نہ ہو۔ ایک بچے نے کہا ”ہاں ہاں اوڈوماس لگالیجئے“ مچھروں سے بچئے، کیونکہ بقول نانا پاٹیکر ”ایک سالا مچھر ا?دمی کو“--- دوسرے لڑکے نے لپک کر اس کا منہ دبوچ لیا۔ اس کے باوجود معنی خیز مسکراہٹیں سبھی کے لبوں پر کھیل گئیں۔ اب ا?پ اسے بے غیرتی کہئے کہ بی حیائی۔ رفتہ رفتہ ہم اس ماحول میں ڈھلتے جارہے ہیں۔
یہ بات عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہ جس شدت سے کسی بات کی مخالفت کی جاتی ہے اتنا ہی برعکس اس کا رد عمل ہوتا ہے۔ مشرقی اقدار پر مغربی تہذیب کے غلبے کا شکوہ کرنے والے دہائی دیتے ہی رہ گئے اور مغربی تہذیب کا جیتا جاگتا، تھرکتا، لچکتا، مٹکتا، بل کھاتا پاپ سنگر، باوجود کئی رکاوٹوں وقانونی حد بندیوں ومقدمات کے۔ سرزمین ہند پر کروفر کے ساتھ ، کسی اوتار کی طرح پرتپاک استقبال کے درمیان وارد ہوا۔ اپنے پلاسٹک سرجری زدہ چہرے پر بالوں کی باریک سی لٹ لہراتا۔ ہوائی بو سے اڑاتا، جس طرح ا?یا تھا ویسی ہی سرخرو کامران، کروڑوں روپیوں کی ہیر پھیر کو پس پشت چھوڑ کر ہزاروں دلوں کو اپنے تھرکتے قدموں سے روند کر اپنی ٹوپی دوسرے نیتا کے سرڈال کر چلا بھی گیا۔ لیکن ا?ج تک ٹی وی پر اس کے پروگرام سے لطف اٹھانے ومسحور ہونے والوں کی کمی نہیں۔ اگر وہ نہ بھی ا?تا تو ہم اسے ایم ٹی وی پر ضرور دیکھ لیتے۔
حسینہ عالم کے انتخاب کا شو بنگلور میں نہ ہوسکے اس کے لئے مورچہ وجلوس نکالے گئے خود سوزی کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ بھوک ہڑتالیں کی گئیں۔ لیکن حسن وخوبی کا خوبصورت امتزاج، انچ وسینٹی میٹر کی پیمائش کے مطابق ڈھلی ہوئی کندن کی طرح چمکتی، اٹھلاتی، حسینائیں شاید پہلی بار ہندوستان ا?ئیں ہوں۔ لیکن ان نیم برہنہ قطار در قطار حسینان عالم کو ہم ہندوستانی برسہا برس ٹی وی پر دیکھتے ا?رہے ہیں۔ اور ہم مورچہ وجلوس نکال کر ، مشرقی تہذیب کی دہائی دے کر، اس مقابلے کو روکنے میں کامیاب ہوبھی جاتے ہیں تب بھی دنیا کے کسے حصے سے یہ نظارہ ہم دیکھ ہی لیتے۔ انہیں دیکھنے نہ بنگلور جانے کی ضرورت تھی نہ ہزاروں کا داخلہ ٹکٹ خریدنے کی پریشانی۔ ہماری اتنی استطاعت کہاں کہ ان سب اخراجات کی بھرپائی کرسکیں۔ بس ایک سوچ ا?ن کردیا اور وہ چار دیواری میں وارد ہوگئیں۔ جب ہم ہی مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں تو اس کو کوسنے سے کیا فائدہ۔ مغربی تہذیب خود ہی ہمارے گھروں میں در ا?نے کا سوال کہا ں ہے۔ ہم ہی اپنی خون پسینے کی کمائی خرچ کر کے مغربی لباس مغربی رہن سہن کے انداز کا گھریلو سامان، وی سی ا?ر ، ٹی وی کیسیٹس سب ہی کچھ ہزاروں روپئے خرچ کر کے خرید رہے ہیں۔ ہم پر معاشی پریشانیوں کا بار گراں ہے اس کے باوجود خواہ ہمہ منزلہ بنگلے ہوں یا گاو ¿ں کھیڑوں کے جھونپڑے نما گھر شاذ ونادر ہی کوئی چھت ایسی نظر ا?ئے گی جہاں اینٹینا لگا ہوا نہ ہو۔
ٹی وی کا جادو سر چڑھ کر ایسا بولنے لگا ہے کہ دوران پروگرام، قریب کی مسجد میں خوش الحان موذن صاحب کی اذاں عشائ کی نماز کا بلاوا دینے لگتی ہے تو ہم پیدائشی مسلمان ہیں اس لئے بچوں کے ہاتھ اور ہمارے پلو احتراما سروں پر ا?جاتے ہیں۔ ایک دو افراد خاندان نماز کو اٹھ بھی کھڑے ہوتے ہیں۔باقی لوگ بعد ازاں سر سے پلو، جھٹک کر پھر ٹی وی دیکھنے میں ڈوب جاتے ہیں۔ سائنسی ترقی وایجادات نے سہولتیں ہی سہولتیں بہم پہنچادی ہیں کہ اب فون رسیو کرنے کے لئے بھی نہ تو ٹی وی سے نظر ہٹانے کی ضرورت ہے نہ وہ اپنی جگہ سے ہلنے کی۔ کارڈلس فون بازو رکھا ہے۔ بلکہ ہاتھ سے چھوٹتا ہی نہیں۔ جبکہ دنیا عاقبت چھوٹتی جارہی ہے۔
شادیوں ، تقاریب، دعوتوں ، پکنک، پارٹیوں کے ہنگاموں کے بعد، چھٹیاں گزار کر ہم پھر سے اپنے جائے معاش پر گو کہ لوٹ ا?ئے ہیں لیکن دل و خیالات ماں کے ا?نگن ہی میں بھٹک رہے ہیں۔ ٹی وی پر ہمیشہ کی طرح ایک سے بڑھ کر ایک پروگرام پیش ہو رہے ہیں۔ ہمارے شوہر صاحب بار بار ا?وزیں دے رہے ہیں۔ لیکن جی اس کمرے میں قدم رکھنے کو بھی نہیں چاہتا کہ بہت سے چہرے ، بہت سی باتیں ، بہت سے جملے، بہت سی یادیں ، بے چین کئے جارہی ہیں۔ کہیں سینیےمیں ایک ہوک، ایک کسک سی اٹھتی ہے کہ یہ ٹی وی سچ مچ عذاب جان تھا“۔۔


آنگن ۔ نفیسہ خان۔ Nafeesa Khan.



آنگن

نفیسہ خان 


                                  وہ چاند اترنے کو تو آمادہ تھا لیکن       کیا کیجئے آنگن ہی میرے گھر میں نہیں تھا
وہ بھی کیا دن تھے کہ بناءآنگن کے گھر کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ ہر گھر میں چھوٹے بڑے دالان پیش دالان کے درمیان آنگن ہوا کرتے تھے۔ بہت سے جھاڑ پودے نہ سہی، لیکن ایک بڑا سا جام ، شہتوت ، یا آم کا درخت ضرور ہوتا۔ موتیا، گلاب، گل بکاولی  کے پھول بھی اپنی بھینی بھینی خوشبو پھیلاتے رہتے۔ عام دنوں میں بیٹھک دالان میں، اور گرما میں شام کے وقت آنگن میں ہوا کرتی تھی۔ گوکہ بارش میں کیچڑ پھیل جاتا لیکن موسم گرما میں پانی کے چھڑکاؤ کے ساتھ ہی موٹی سوندھی سوندھی خوشبو پھیلاتی۔ دھوپ کی تمازت اور لوکے جھکڑ جیسے ہی کم ہوتے آنگن میں پڑے تختوں وپلنگوں پر سفید یا ہلکے رنگوں کی چا دریں بچھادی جاتیں۔ گھڑونچی پر ٹھنڈے پانی کے کورے گھڑوں وصراحیوں کی شان ہی کچھ اور ہوتی۔ ہم پرانے ململ کی پتلی لانبی چھوٹے ٹیوبس کی مانند تھیلیاں سی کر ان میں مٹی باجرہ جواری یا میتھی بھردیتے اور صراحی وگھڑوں کی گردنوں پرسجے ہوئے مولکوں کا گلوبند، اس پر مٹی کی سینکیں ڈھکی ہوتیں، ان میں موتیا کی کچی کلیاں رکھ دی جاتیں۔ جو شام ڈھلے ادھ کھلے ہو کر مہکتی رہتیں۔ قریب چوکی پر جگ مگ کرتے چاندی یا جرمن سلور کے آب خورے۔ ان کٹوروں پر سوتی جالی کے کٹورے پوش، جو رنگ بہ رنگ موتیوں سے آویزاں اور کروشیا کی لیز سے مزین کئے جاتے۔ مغرب سے عشاءتک سب آنگن ہی میں بیٹھتے۔ نہ ٹی وی نہ ٹیپ ریکارڈر۔ پھر بھی وقت بہت خوب گذرتا۔ کیری کا آب شولہ، دودھ ملائی کا فالودہ، ٹھنڈی میٹھی لسی سے ہونٹ ، زبان وخلق ہی نہں بلکہ دل ودماغ تک میں تراوٹ اترجاتی۔ وہ بات آج کے کوک، پیپسی، لمکا، جیسے مشروبات میں کہاں۔
اب نہ تو دن کی دھوپ کی تمازت آنکھوں کو چبھتی ہے نہ روپہلی چاندنی نظروں کو خیرہ اور دل کو تقویت پہنچاتی ہے۔ نہ خزاں کی پت جھڑ سے گرے ہوئے پتے قدموں کی چاپ کے ساتھ چرمراتے ہیں، نہ بہار کی آمد پر پتوں پھولوں کو تروتازہ کرتے ہوئے منظر نظروں کے سامنے آتے ہیں۔ نہ باد صبا کا احساس ہے نہ لال مٹی میں مخمل جیسی بیر بہوٹیاں نظر آتی ہیں۔ نہ پتوں پر لرزتے شبنم کے موتی، نہ ٹوٹتے تاروں کا فروزاں نظارہ، نہ گھن گھور گھٹاؤں کی یورش۔ نہ بادلوں کے قافلے، نہ بوندوں کی رم جھم کا راگ، نہ اوس سے نم مٹی پرننگے پاوؤں چلنے کا فرحت بخش احساس۔ اب بھونروں کی بھنبھناہٹ بھی سنائی نہیں دیتی۔
بارش کے پانی سے صحن کے دالان سے گلے ملنے پر بڑوں کا پائینچے چڑھا کر کاغذ کی کشتیاں بنانا بچوں کو دینا اور بچوں کا خوشی سے دمکتے چہروں کے ساتھ پانی میں اتر کر ان کو چھوڑنا۔ گھر کے آنگن میں تتلیاں بھی نظر آتیں۔ جنہیں پکڑنے کی سعی میں بچے بھاگ بھاگ کر خوش ہوتے۔ اب بچوں سے یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں چھن گئی ہیں۔ محدود آنگن میں قدرت کے جو نظارے دیکھنے کو ملتے تھے ان سب سے فلیٹ یا فلیٹ نما بند گھروں میں رہنے والے محروم ہوگئے ہیں۔ اب یہ سب کہاں ان کی قسمت ان کے نصیب میں ہے۔ آنگن سمٹ کر بالکونی بن گئے ہیں جہاں پھولوں کے چند گملے رکھ کر ہم اپنی تسکین کرلیتے ہیں۔ لیکن اس بلندی پر ان پھولوں تک کوئی بھنورا کوئی تتلی آنے کی ہمت نہیں کرسکتی۔ کیونکہ قوت پرواز سے زیادہ بلندی ہے جو ناقابل عبور ہے۔
تاریک راتوں میں جگنو کی چمک بھی مفقود ہوگئی ہے۔ آم کی شاخ کا ٹپکنا۔ کوئل کی کوک چڑیوں کا چہچہانا۔ کووؤں کا مڈیروں پر بولنا اور اہل خانہ کا مہمانوں کی آمد کا اس کو مژدہ جانفزا سمجھ کر مسرور ہونا، سب آنگن کے دم قدم سے تھا۔ بان کی رسی سے مضبوط ڈالیوں پر ڈالے گئے جھولے بچوں کی پسندیدہ تفریح ہوتے۔ اور اب Cane کا ایک طوطے کے پنجرہ نما بڑا سا جھولا کسی راڈ سے لٹکادیا جاتا ہے۔ جس میں بچے ، بڑے ، عورت ، مرد سب ہی فرصت کے وقت میں لٹکتے رہتے ہیں۔ کوئی ہلکے سے جھونکا دینے کی گستاخی بھی نہیں کرسکتا کہ جھولا دینے کی پاداش میں اسے سزائے قید نہ ہوجائے۔ ہلکا ہلکورا دینے پر جھولنے والے کا مختصر جگہ کی بناءپر بالکونی سے گذرے ہوئے سڑک پر جاگرنے کا پورا احتمال ہوتا ہے۔
درختوں کی ٹھنڈک ، ان سے گذرکر آنے والی خوشگوار ہوا کا احساس، ایرکنڈیشنڈ یا ایر کولر سے نکلنے والی مرطوب ہوا سے جداگانہ اور مسحور کن ہوتا ہے۔ گھر چھوٹا اور آنگن کوتاہ ہوتے ہوئے اب مفقود ہوگیا ہے۔ کیونکہ باورچی خانے اب دھواں نہیں پھیلاتے اس لئے آنگن کے اس پار ہونے کے بجائے کمروں سے منسلک ہوگئے ہیں۔ فرش پر لال دسترخوان بچھا کر کھانا کھانے کا طریقہ فرسودہ اور متروک ہوگیا ہے۔اس کی ایک وجہ بڑوں کو جوڑوں کے درد نے مجبور کردیا ہے مرد فرش پر بیٹھنے سے احتراز کرتے ہیں کہ کپڑوں کی استری ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لئے اب کچن کے ساتھ ڈائننگ روم کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ باتھ روم اتنے مختصر ہوگئے ہیں کہ بقول شاعر:
پاوؤں پھیلاؤں تو دیوار سے سر لگتا ہے
واشنگ مشین کی ضرورت اور پانی کی قلت کی وجہ سے پانی بھر کر رکھے جانے والے برتنوں کے لئے ڈبوں کے لئے کار یا اسکوٹر کے لئے علیحدہ شیڈس کی ضرورت ہے۔ اور ان تمام ضرورتوں نے مل کر آنگن کے وجود کو ختم کردیا ہے۔
کمروں میں سورج کی روشنی کو پھیلانے کا ذریعہ آنگن ہی ہوتا تھا۔ لیکن آج کل گھر یا فلیٹ میں داخل ہوں تو پر شکوہ آسمان سے باتیں کرتی عمارتوں کے یہ فلیٹ کبوتروں کے ڈربے جتنے لگتے ہیں۔ باہر سے گھر میں داخل ہوں تو نیم تاریکی کا احساس ہوتا ہے۔ گھر کی بجلی فیل ہوجائے اور جنریٹر نہ ہو تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ جیسے آج کل کے ہوٹل، کہ جہاں کی مدھم روشنی میں مینو تک پڑھنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔
اب آنگن نہیں رہے تو کپڑے سکھانا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے کہاں رسی پر رنگ برنگی پوشاکیں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ایک لمبی قطار میں جھولتی رہتیں۔ اور اب یہ عالم ہے کہ پلاسٹک کے حلق نما ہینگر پر چمٹوں کی مدد سے سمٹے سمٹائے چھوٹے بچوں کے کپڑے تک دھوپ وہوا کو ترس رہے ہیں اور سکھائے جانے والے بڑے کپڑے جگہ کی تنگی کی بناءپر آتے جاتے ہمارے منہ پر طمانچہ مار کر جتاتے ہیں کہ دیکھو تم خود تو محروم ہوتے ہی تھے ہمیں بھی دھوپ اور ہوا تک کے لئے ترسادیا۔ ہمارے لڑکپن میں لڑکیاں اسکول وگھر کے کام سے فراغت پا کر اپنے اپنے آنگنوں میں پیلا، فیروزی، گلابی، رنگ کٹوریوں میں گھول کر قوس قزح کی اوڑھنیاں بڑے انہماک سے ابرک وکلف ڈالکر رنگا کرتیں۔ ایک لڑکی گھٹنوں کی مدد سے ہاتھوں میں ان ڈوپٹوں کو کس کر پکڑ کر بیٹھ جاتی اور دوسری چننے لگتی۔ باریک سے باریک چنت کی چاہ میں انگوٹھوں پر چھالے آجاتے، پر ہمارا انہماک کم نہ ہوتا۔
ہماری بوڑھی ماما کہتی تھی کہ رات میں زیر سماں آنگن میں نہ سویا کرو۔ ایک چادرپلنگ کے اوپر ضرور تان لو کیونکہ سفید پوشاک میں جب آسمان سے پریوں کے تخت گذرتے ہیں تو ان کا سایا لڑکیوں پر ہوجاتا ہے۔ ہم نے گرما کی کئی راتیں اس نظارے کے دید کے اشتیاق میں آنکھوں میں کاٹ دیں اور آخر کار ایک رات ہماری تمنا بر آئی۔ ہم نے رات کی تاریکی میں سفید سفید پروں کو لہراتے دیکھا۔ ہمارے تجسس وخوشی کا عالم ہی عجیب تھا۔ لیکن جب ان پریوں کا تخت بالکل ہمارے سر پر سے گذرا تو ہم نے دیکھا کہ یہ سفید بگلوں کا جھنڈ تھا جو بڑے منظم انداز میں مائل پرواز تھا، اور سچ مچ پریوں کے تخت جیسا ہی لگتا تھا۔
میری پڑوسن ایک لمبے عرصے تک حیدرآباد سے باہر رہیں اور جب اپنی محدود آمدنی سے محدود بچت لے کر لوٹیں تو پھر مکان خریدنا تو کجا زمین تک بھی اتنی رقم میں کسی اچھے محلے میں نہ مل سکی۔ سب نے انہیں مشورہ دیا کہ دو قسطوں میں زیر تعمیر فلیٹ لے لیں۔ لیکن ان کا جواب تھا کہ’ ان کئی منزلہ اپارٹمنٹس میں نہ زمین اپنی ہوتی ہے نہ آسمان‘ نہ تلوؤں کو گیلی مٹی کی نمی ملتی ہے، نہ چودھویں رات کی چاندنی ہی فلیٹ میں جھانکنے کی گستاخی کرتی ہے۔ یوں بھی عمر زیر زمین جانے کی ہے۔ اور صرف روح ہی عرش کی بلندی پر جائے گی۔ میں اپنے کمزور وناتواں جسم کو اتنی اونچائی پر کیوں لے جاؤں کہ کل کو میرے جسم بے جان کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے چار کاندھوں کی بجائے لفٹ کی ضرورت پڑے اور اگر بجلی بند ہوجائے تو نماز جنازہ بھی وقت پر ادا نہ ہوسکے۔ سچ کہو کہ میرے مرنے کے بعد مجھے غسل کہاں دوگے؟ کفناؤگے کہاں؟ بیڈ روم میں؟ ڈرائنگ روم میں، کچن میں یا باتھ روم میں؟ کیونکہ ابھی ہمارے حیدرآباد میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح مردہ خانے نہیں ہیں جہاں اولاد رشتے دار دم نکلتے ہی ان سرد خانوں میں چھوڑ آتے ہےں کہ ساری ذمہ داری مردہ خانے والے اٹھاتے ہیں اور Week End پر وہ صرف شرکت کرنے آتے ہیں۔ نابابا نا مجھے چھوٹا سا ننھا سا ہی سہی، سوپ بھر آنگن والا گھر دلاوو کہ مجھے ہمیشہ حسرت ویاس کے درمیان عمارت کی بلندی اور اپنی پستی کا احساس نہ ہو۔
ہمارے ایک دوست نیویارک سے انڈیا آئے۔ ہمارے گھر آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ہم کچھ پریشان سے ہوگئے کہ ان کا شایان شان نہ سہی تو خاطر خواہ انتظام گھر پر کرنا اور وہ بھی اس مقام پر کافی پریشان کن مرحلہ تھا۔ لیکن ان لوگوں کے آنے کے بعد احساس ہوا کہ ان تمام برسوں میں ان کی سادگی، برتاوؤ، عادتوں میں کوئی نمایاں فرق نہیں آیا ہے۔ پھر بھی حتی الامکان انہیں آرام پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ اپنے کام میں ایسے مشغول ہوئے کہ کافی دیر بعدخیال آیا کہ مہمان صاحب کہیں نظر نہیں آرہے ہیں ۔ورانڈہ‘ہر کمرہ چھان مارا۔ جب باہرآنگن میں نظر دوڑائی تو گھنے درخت کی چھاؤں میں پودوں، پھولوں کے درمیان بنا چادر بچھائے نوار کے پلنگ پر انہیں محو خواب پایا۔ پتہ نہیں کس نوکر نے اسٹور روم سے استعمال نہ ہونے والا برسوں پرانا پلنگ ان کی خواہش پر بچھادیا تھا۔ جب وہ نیند سے جاگے تو ہم نے شرمندگی کے مارے صفائی پیش کرنی چاہی کہ شاید گھر والوں کے شور شرابے کے باعث انہیں یہاں سونا پڑا۔ پر ان کا جواب تھا ’بھابھی! آج برسوں سے زیر سماں کسی درخت کی چھاؤں میں دل سونے کو ترس گیا تھا۔ یہاں سو کر ایسا لگا کہ برسوں کی کلفت دور ہوگئی ہے۔ آپ کے گھر میں کہیں مہندی کا پودا ضرور ہوگا۔ میں نے مہندی کے پھولوں کی خوشبو اپنے نتھنوں میں محسوس کی ہے۔ چالیس سال پہلے ہمارے آنگن میں یہ خوشبو مہکا کرتی تھی‘۔ میں ان کی آنکھوں میں ماضی کی پرچھائیاں اور محرومی صاف دیکھ رہی تھی۔ آج ہم سب ایک بہتر زندگی کی دوڑ میں کیسے کیسے خواب قبروں میں سلا آئے ہیں۔
مندرجہ بالا شخصیت وطن سے دور ماضی کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے۔ جب کہ نئی نسل ان کے برعکس ہے۔ میرا ماموں زاد بھائی جب یہاں سے گیا تھا تو دو تین سال کا تھا۔ اب بیس سال کی جلاوطنی کے بعد مادر وطن کو آیا ہے تو ایک اجنبیت، ایک جھجک ہمارے درمیان حائل ہے۔ حیران حیران سا ہم کو، ہمارے آنگن کو دیکھ کر اس نے سوالات کی بوچھار کردی۔ پہلا سوال تھا’ آپ میرے ڈیڈی کا بڑی Sisterکا Daughter ہیں؟ اردو مادری زبان رکھنے والے خاندانوں کے سپوت جب اردو کی اس طرح مٹی پلید کریں تو خون کے آنسو رونے کو جی چاہتا ہے۔ ہم نے اس رشتے اور اس اردو دونوں ہی کو قبول کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا۔ نارنگی وسپوٹوں سے لدے ہوئے جھاڑوں کو دیکھ کر اس کی بابت پوچھتا رہا کہ یہ کونسے Tree ہیں؟ پھر ایک طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے اس نے پوچھا ’ یہ الٹا کیوں لٹک رہا ہے‘ وطن کی مٹی ، پھل پھول، جھاڑپودوں ، رشتہ داروں اور تہذیب سے ایسی ہی دوری نوجوانوں کو اتنا کورا اور بےگانہ بنا رہی ہے۔ اسی صورت حال کی سنگینی کا خیال کرتے ہوئے جولائی اور اگست کی طویل چھٹیوں میں اب کم عمر بچے بچیوں کو ننھیال وددھیال میں چھٹیاں گذارنے بھیجا جانے لگا ہے۔ ماں باپ سے دور یہ بچے جب دو ماہ ہمارے ساتھ گذارنے آتے ہیں تو ہم ان بچوں کو ہتھیلی کا چھالا سمجھتے ہیں۔
آپ کے گھر کی بات گھر مےں رہنے کا دور گذر گیا۔ گو آپ گھر کی چار دیواری میں بند ہیں لیکن آپ کے اطراف کی دو تین منزلہ عمارتوں کی کھڑکیوں سے بےشمار آنکھیں آپ کی تنہائی میں مخل ہیں۔ خواہ آپ بیڈ روم میں محو آرام ہوں یا گھر کے کام کاج میں مصروف ہوں۔ آپ کے ہر فعل کے چشم دید گواہ موجود ہیں۔ ہمارے گھر کئی منزلوں پر مشتمل ہوں تو اپنی نجی وخانگی زندگی کا ہر پہلو، ان سب پر ظاہر ہے۔ پوشیدہ رکھنے کا سوال ہی نہیں۔ اپنی بے مائیگی ومجبوری کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن سوائے بے بسی کے اس کا کوئی حل نہیں۔
گھر میں رہنا دشوار ہی نہیں بلکہ تکلیف دہ ہوتا جارہا ہے۔ کب تک بند کمروں ودروازوں میں کوئی اپنے کو مقید کرسکتا ہے۔ بناءتقصیر کی یہ قید ، یہ سزا بھگتنے پر ہم مجبور ہیں۔ مرنے کے بعد دوگززمین تو بہرحال مل ہی جاتی ہے۔ لےکن زندگی گزارنے کے لئے ایک من پسند گھر کا بنانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ہمارے ایک کرم فرما نے ہم سے خط لکھنے کا اصرار اور وعدہ کچھ اس طرح لیا کہ۔۔
اپنے آنگن کی مہکتی ہوئی پھلواری میں                  چاندنی پھول کھلائے تو مجھے خط لکھنا
اور ہم برسوں اپنا وعدہ نبھاتے رہے۔ اور پابندی سے انہیں خط لکھتے رہے۔ پھر یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ انہوں نے اس کی توضیح چاہی۔ ہمارا جواب تھا کہ فلیٹ میں رہ کر جو ان کے شعر کے ہر لفظ سے محروم ہوگیا ہو اب ایسے دم گھٹنے والے ماحول میں وہ کیا لکھے اور کیوں کر لکھے۔ ہمیں فرصت کے اوقات میں شعری مجموعے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ جب ہماری نظر ایک شاعر کے اس شعر پر پڑی کہ۔
وہ چاند اترنے کو تو آمادہ تھا لیکن            کیا کیجئے آنگن ہی میرے گھر میں نہیں تھا
تو ہماری سونچ شاعر کے شاعرانہ تصور وخیال سے کافی مختلف تھی۔ پتہ نہیں شاعر نے واقعی آسمان کے چاند کی بات کہی ہے یا اس کی مراد کھڑکی کے چاند سے تھی۔ لیکن ہمارے ناقص ذہن میں اس شعر کی تشریح یوں آتی ہے کہ کسی گاؤں کی گوری نے شہری بابو سے شادی کرنے سے محض اس لئے انکار کردیا کہ وہ فلیٹ میں رہنے لگا تھا۔۔
٭